ملک کے دانشور کیوں پریشان ہیں؟


ملک کے درجنوں سیاستدانوں، صحافیوں، دانشوروں، وکیلوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں نے تمام جمہوری قوتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ آمرانہ قوتوں اور ریاستی اداروں کی غیرآئینی دست درازیوں کو ردّ کرتے ہوئے حقیقی جمہوریت اور انسانی حقوق و آزادیوں کے لیے متحد ہو کر مزاحمت کریں۔

 یہ اپیل عوام کے حقوق کے لیے جمہوری و آئینی جدوجہد کے حال ہی میں جاری ہونے والے ایک اعلان نامہ میں کی گئی ہے۔ ملک کے متحرک میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا نے بھی اس اعلان جمہوریت پر رائے دینے حتیٰ کہ اس اپیل کو عام کرنے میں کوئی کردار ادا کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ ملک کے ٹی وی چینلز پر روزانہ کی بنیاد پر نشر کئے جانے والے درجنوں ٹاک شوز میں بھی اس اعلان اور اپیل پر بحث کروانے یا مزید معلومات فراہم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ یہ سوال اٹھانا بھی ضروری نہیں سمجھا گیا کہ ملک کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے سرکردہ افراد نے آخر اس وقت جمہوریت، بنیادی حقوق اور میڈیا کی آزادی کے معاملہ پر بات کرنے اور تمام جمہوریت پسند قوتوں کو متحد ہو کر بعض بنیادی اصولوں کے لئے کام کرنے کی اپیل کیوں کی ہے۔ حالانکہ ملک میں جمہوری حکومت قائم ہے جو بڑی ’دلیری‘ سے بدعنوانی کے خاتمہ اور عوام کی بہبود کے منصوبوں کو تکمیل تک پہنچانے کا اعلان کررہی ہے؟

یہ سوال سامنے نہ لانے اور اس اپیل پر پرجوش مباحث شروع کرنے سے گریز کی ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھنے والا ہرشخص ملک کی صورت حال سے دل برداشتہ ہے۔ ملک میں جمہوری انتخاب کے ذریعے مسلط کی گئی یا منتخب ہوجانے والی حکومت نے تسلسل سے جبر، خوف اور بے یقینی کی فضا قائم کی ہے۔ آزادیوں کو سلب کیا گیا ہے اور ان کی حفاظت کرنے والے ادارے یعنی اعلیٰ عدالتیں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کو کنٹرول کرنے والے نام نہاد خود مختار ادارے پیمرا کو حکومت وقت نے یرغمال بنا لیا ہے اور اس پر کوئی احتجاج کرنے پر تیار نہیں ۔

جمہوریت کے بطن سے پیدا ہونے والی ایک جماعت اسی شاخ کو کاٹنے پر مصر ہے جس پر اس کا آشیانہ ہے۔ جب اس طرف انگلی اٹھائی جاتی ہے تو اس شخص کو بدعنوان اور ملک دشمن کا خطاب دیا جاتا ہے ۔ یا ان عناصر کا ’تنخواہ دار‘ ہونے کا فتویٰ صادر ہوتا ہے جو اس ملک کی دولت کو لوٹ کر خود عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہے ہیں۔

 جس عیش و عشرت کو طعنے کے طور پر استعمال کرنا وطن عزیز میں نیا ٹرینڈ بن چکا ہے ، اس کی حقیقت کوئی نواز شریف، آصف زرداری، فریال تالپور، حمزہ شہباز یا رانا ثنااللہ سے پوچھے کہ وہ کیوں کر ’جیلوں کے عشرت کدوں‘ میں قومی دولت سے حاصل ہونے والی امارت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ تاہم وزیر اعظم عمران خان انہیں ’این آر او‘ نہ دے کر قومی دولت واپس لانے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں۔

عمران خان نے بدعنوانی کو نیا چہرہ اور اس نعرے کو جو شدت عطا کی ہے، اس سے عوام کی اکثریت کو کوئی مادی سہولت تو حاصل نہیں ہو پائی لیکن ان کی پریشانی اور دکھوں میں ضرور اضافہ ہؤا ہے۔ ان تکلیفوں میں کمی کا کوئی امکان بھی موجود نہیں ہے۔ کیوں کہ کسی بھی معاشرے میں معاشی سرگرمی کے لئے جو عوامل ضروری ہوتے ہیں ، وہ فی الوقت پاکستان میں ناپید ہیں۔ حکومت وقت کو اس کی کوئی خاص پرواہ بھی نہیں ہے۔ عمران خان کو یقین ہے کہ موجودہ مسلط کردہ سیاسی انتظام کے لئے خطرہ بننے والے عناصر کو جیلوں میں بھر کر ہی تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اسی لئے وہ تمام مسائل کی جڑ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومتوں کو قرار دیتے ہیں اور قوم کو تلقین کرتے رہتے ہیں کہ ’آپ نے گھبرانا نہیں ہے‘۔

روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی مہنگائی اور دنیا بھر سے پاکستان کے حوالے سے سامنے آنے والی افسوسناک خبروں کے باوجود ملک کے وزیر اعظم کے اس یقین کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے مفاہمت، معاملہ فہمی اور کشیدگی سے بچنے کی کسی صورت کو قابل قبول اور قومی ضرورت نہیں سمجھتے۔ ایسی کسی بھی تجویز کو وہ سابقہ بدعنوان حکمرانوں کی چال اور ’این آار او‘ لینے کی سازش قرار دیتے ہیں۔ انہیں اس بات پر تو فخر ہے کہ وہ کسی بھی طرح قومی اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ لے کر عوام کی تائید سے وزیر اعظم ’منتخب‘ ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں لیکن جب اسی عوامی تائید سے منتخب ہو کر آنے والے اپوزیشن کے نمائندے سینیٹ میں اپنی اکثریت کی بنیاد پر اپنی مرضی کا چئیرمین لانے کی بات کرتے ہیں تو عمران خان اس کوشش کو ہر صورت ناکام بنانے کا اعلان کرتے ہیں۔ یہ سوال پوچھنے کااذن نہیں ہے کہ سینیٹ میں ایک اقلیتی جماعت (تحریک انصاف) کس طرح صادق سنجرانی کے خلاف متحد ہونے والی اپوزیشن کی اکثریت کو ’غیر مؤثر ‘ کرے گی۔ اگر یہ کرشمہ ہو گیا تو گزشتہ سال اگست میں قومی اسمبلی کے فلور پر ہونے والے اسی قسم کے کرشمے کو ’سلیکشن‘ قرار دینے والوں کا منہ کس طرح بند کیا جائے گا۔

حکومت کے اختیار اور اقدامات کو چیلنج کرنے والے عناصر کے خلاف احتساب کو پوری شدت سے استعمال کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ لیکن عمران اینڈ کمپنی اس کے لئے ملک کے عدالتی نظام اور احتساب کے ادارے پر مکمل بھروسہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ کبھی چئیرمین احتساب کے بارے میں تشویش کا اظہار ہوتا ہے اور کبھی کسی بھی قیمت پر ملک کو بدعنوان سیاست دانوں سے پاک کرنے کا عزم کیا جاتا ہے۔ اسی عزم کا ایک شاہکار ، منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر اور رکن قومی اسمبلی رانا ثنااللہ کی گرفتاری کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ یا اسکینڈل بنانے کی شہرت رکھنے والے ایک برطانوی اخبار کی شہباز شریف کے خلاف خبر کو پوری شدت سے استعمال کرنے کا واقعہ اس عزم کی کہانی بیان کرتا ہے۔ جب اپوزیشن لیڈر ’جھوٹی خبر کی اشاعت‘ پر اس اخبار کے خلاف دعویٰ دائر کرنے کا اعلان کرتے ہیں تو وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر پریس کانفرنس منعقد کرکے سیاسی الزام تراشی کا ایک نیا باب رقم کرتے ہیں ۔ اور کہہ رہے ہیں کہ’ شہباز شریف نے اگر انہیں عدالت میں گھسیٹا تو وہ سارے ثبوت برطانیہ کی عدالت کے سامنے پیش کرکے شہباز شریف کی بدعنوانی کا پول کھول دیں گے‘۔

سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر حکومت کے پاس بدعنوان سیاست دانوں کے خلاف اتنے ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ وہ پاکستان ہی نہیں بلکہ برطانیہ کی عدالتوں میں بھی منی لانڈرنگ اور قومی وسائل کی چوری کو ثابت کرسکتے ہیں تو پوری حکومت کو ایک ایسے جج کا دفاع کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہورہی ہے جس کی واحد خوبی یہ ہے کہ اس نے نواز شریف کو سزا دے کر جیل بھیجا ہے اور عمران خان کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ ایک مقبول سیاسی لیڈر کو ’سزا یافتہ چور‘ کہہ کر اپنی خوش کلامی کا مظاہرہ کرتے رہیں۔

جس طریقہ سے فروغ نسیم اور شہزاد اکبر کے علاوہ خود عمران خان نے جج ارشد ملک کا دفاع کیا ہے اور ایک کمزور اور تضادات سے بھرپور بیان حلفی کو کسی مقدس دستاویز کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے، اس سے سوائے اس کے کیا واضح ہوتا ہے کہ ملک میں نہ جمہوری روایت موجود ہے اور نہ ہی عدالتوں اور مسلمہ اداروں (جن میں پیمرا اور نیب شامل ہیں) کا احترام ضروری سمجھا جا رہا ہے۔ یہ ادارے جمہوری روایات کے احترام کی صورت میں ہی فعال ہو سکتے ہیں اور تب ہی ان پر عام لوگوں کا اعتبار بحال ہوتا ہے۔ لیکن اگر بدعنوانی کو سیاسی نعرہ بنا کر جمہوریت کی بجائے فسطائیت کو فروغ دینا ہی مقصد بن جائے تو ملک کے دانشوروں کا پریشان ہونا جائز اور قابل فہم ہے۔

انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے آج جماعت الدعوۃ کے قائد اور عالمی طور سے دہشت گرد قرار پانے والے حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کر لی۔ آج ہی ایک نیب عدالت نے پیپلز پارٹی کے معاون چئیرمین اور سابق صدر آصف زرداری کے جسمانی ریمانڈ میں دو ہفتے کی توسیع کر دی۔ حیرت تو ہونی چاہئے کہ یہ کون سا ملک ہے جہاں دہشت گرد اعزاز پاتا ہے اور سیاست دان کو خوار کرنے کا ہر ہتھکنڈا جائز سمجھا جاتا ہے۔

اسی صورت حال میں ملک کے وکیلوں ،صحافیوں اور دانشوروں نے ’آمرانہ قوتوں اور ریاستی اداروں کی غیرآئینی دست درازیوں کو ردّ کرتے ہوئے حقیقی جمہوریت اور انسانی حقوق و آزادیوں کے لیے متحد‘ ہونے کی اپیل کی ہے۔ اس اپیل پر کان دھرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali