ڈیلی میل کا الزام اور برطانوی ادارے کی تردید


ملکی سیاسی جماعتوں کے درمیان گالم گلوچ اور لفظی جنگ بڑھتے بڑھتے سنگین نوعیت کے الزامات پر پہنچ چکی ہے۔ یہ الزامات ملکی میڈیا اور اندرون ملک تک ہی محدود نہیں رہے۔ بلکہ ان کی بازگشت اب بین الاقوامی میڈیا اور بیرون ملک بھی سنائی دینے لگی ہے۔ گزشتہ دنوں برطانوی اخبار ڈیلی میل میں ایک رپورٹ شائع ہوئی۔ ڈیلی میل کی 2500 الفاظ کی یہ سٹوری پاکستان میں 2005 ء کے زلزلہ زدگان کے لیے آنے والی امداد میں خورد برد سے متعلق تھی۔

اسٹوری کے مصنف ڈیوڈ روز کے مطابق اس نے اس سٹوری کے لیے پاکستانی تفتیش کاروں کے علاوہ شہبازشریف فیملی کے لیے منی لانڈرنگ کرنے والوں سے بھی جیل میں ملاقات کی جس کے لیے ڈیلی میل کے رپورٹر کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے خصوصی ذرائع استعمال کیے۔ جبکہ ن لیگ کا کہنا ہے کہ اس ملاقات کی سہولت کار تحریک انصاف کی حکومت ہے اور یہ عمران خان اور ان کے مشیر شہزاد اکبر کی پلانٹڈ اسٹوری ہے۔

اس اسٹوری میں حکومتِ پاکستان کی تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں بتایا گیا ہے کہ مسلم لیگ نواز کے رہنما اور سابق وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے برطانوی امداد میں سے پیسے چرا کر برطانیہ میں شریف خاندان کے اکاؤنٹ میں بھیجے۔ خبر میں زلزلے کے بعد بحالی و تعمیر نو کے لیے ایرا نامی پاکستانی ادارے میں کرپشن کا ذکر بھی کیا گیا۔ رپورٹ میں حکومت کی ایک خفیہ تحقیقاتی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ مسلم لیگ نواز کی حکومت کے دوران شہبار شریف کے داماد نے زلزلہ متاثرین کی امداد میں سے دس لاکھ پونڈ حاصل کیے۔

رپورٹ کے مطابق ایرا کے سابق ڈائریکٹر فائنانس اکرام نوید نے گذشتہ سال نومبر میں بتایا تھا کہ پاکستان نے برطانیہ سے زلزلہ متاثرین کی مدد کے لیے 15 لاکھ پاؤنڈ وصول کیے جس میں سے 10 لاکھ پاؤنڈ شہباز شریف کے داماد علی عمران کو دیے گئے۔ مزید کہا گیا کہ یہ رقم پہلے برمنگھم بھجوائی گئی اور اس کے بعد اسے شریف خاندان کے اکاؤنٹس میں ڈالا گیا۔ اس رپورٹ میں وزیرِ اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا بیان بھی شامل ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہماری تحقیقاتی ٹیم نے بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ کے شواہد اکٹھے کر لیے ہیں۔ منی لانڈرنگ زیادہ تر برطانیہ میں کی گئی۔ تحقیقاتی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ڈیلی میل کی خبر میں کہا گیا کہ سال 2003 میں شریف خاندان کے پاس صرف ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ تھے جبکہ سنہ 2018 میں ان کے اثاثے بڑھ کر 20 کروڑ پاؤنڈ ہو گئے۔

دوسری جانب برطانوی ادارے DFID نے اپنے وضاحتی بیان میں موقف اختیار کیا ہے کہ پاکستان کے زلزلہ متاثرین کی بحالی کے لیے رقوم کی فراہمی میں خورد برد ادارے کی سخت نگرانی کی پالیسی اور کرپشن سے پاک طریقہ کار کے باعث ناممکن ہے۔ DFID کے ترجمان کا کہنا ہے کہ تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور امدادی رقوم کی کرپشن سے پاک ترسیلی نظام کے باوجود ڈیلی میل کی رپورٹ کے مندرجات پر غور کیا گیا ہے تاہم اس رپورٹ میں شواہد اور ثبوت کا فقدان ہے۔

ترجمان DFID نے مزید کہا کہ برطانوی شہریوں کے ٹیکس سے زلزلہ متاثرین کی امداد اور انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے دی گئی امدادی رقوم کو اس وقت ہی جاری کیا جاتا ہے جب مطلوبہ ہدف مکمل کرلیا گیا ہو۔ انہوں نے تصدیق کی کہ زیادہ تر رقوم زلزلے میں تباہ ہوجانے والے اسکولوں کی از سر نو تعمیر میں استعمال ہوئیں اور یہ رقوم اسکولوں کی مکمل تعمیر، آڈٹ اور تصدیق کے بعد ادا کی جاتی ہیں اس لیے رقوم میں خورد برد کے امکانات صفر رہ جاتے ہیں۔

ڈیلی میل کو DFID کی جانب سے رقوم کی ترسیل اور تقسیم کے کرپشن فری نظام سے متعلق تفصیلات بھی فراہم کردی گئی ہیں۔ 2011 سے ادارے کے تعلیمی پروجیکٹ سے ایک کروڑ بچے مستفید ہورہے ہیں جب کہ زلزلہ سے متاثر 80 لاکھ پاکستانی باشندوں کے معیار زندگی بلند ہوئے۔ DFID کے ترجمان نے برطانوی شہریوں کو یقین دلانے کی کوشش بھی کی کہ ان کے ادا کیے گئے ٹیکس کی رقم اسی مد میں استعمال ہوئیں جس کا وعدہ کیا گیا تھا اور اس کے تمام تر دستاویزی شواہد برطانوی حکومت کے پاس موجود ہیں۔

ڈیلی میل کی خبر کی تردید کرتے ہوئے شہباز شریف کے صاحبزادے سلیمان شہباز کا کہنا ہے کہ یہ عمران خان کی سرپرستی میں ہونے والا سیاسی انتقام ہے اور انہوں اپنے خاندان پر لگنے والے ان تمام الزامات کو مسترد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان الزامات کو ثابت کرنے کے لیے شواہد موجود نہیں۔ جبکہ ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگ زیب کا کہنا ہے کہ زلزلہ متاثرین کے لیے برطانوی ادارے DFID کی طرف سے 500 ملین پونڈ کی امداد 2005 ء میں آنا شروع ہوئی تھی۔

یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں جنرل پرویز مشرف اور پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کی حکومت تھی جبکہ شہباز شریف تو باقی شریف فیملی کے ساتھ جلا وطن تھے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اس زلزلے سے متاثرہ زیادہ تر علاقے خیبر پختوانخوا اور آزاد کشمیر کے تھے۔ شہباز شریف نومبر 2007 ء میں جلاوطنی ختم کر کے واپس آئے اور 2008 ء سے 2018 ء تک دس سال وزیر اعلیٰ رہے۔ شہباز شریف کی صفائی میں مریم اورنگ زیب یہ دلیل بھی لائیں کہ زلزلہ زدگان کے لیے بیرونی امداد ”ایرا“ کے ذریعے خرچ ہوئی جو وفاقی حکومت کے ایڈمنسٹریٹو کنٹرول میں تھا ’اور 2008 ء سے 2013 ء تک وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔

شہباز شریف صاحب نے یہ اسٹوری سامنے آنے کے بعد عمران خان اور شہزاد اکبر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا اعلان کیا ہے۔ یاد رہے کہ پاناما کیس کے دنوں میں بھی شہباز شریف پر الزام لگا تھا کہ انہوں نے ایک مشترکہ دوست کے ذریعے ’منہ بند‘ رکھنے کے عوض خان صاحب کو دس ارب رشوت کی پیشکش کی تھی۔ اس الزام پر بھی شہاز شریف کی طرف سے عمران خان کو ہتک عزت کا نوٹس بھیجا گیا تھا جس کا اب تک خان صاحب نے جواب نہیں دیا۔ اس مرتبہ تو خود برطانوی ادارے DFID کے ترجمان نے شہباز شریف کے حق میں گواہی دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”ایرا“ کو ادائیگی کام کی تکمیل ’اس کے آڈٹ اور تصدیق کے بعد کی جاتی تھی اور وہ مطمئن ہیں کہ برطانوی ٹیکس دہندگان کا پیسہ بغیر کسی فراڈ کے درست جگہ پر استعمال ہوا۔ یہی برطانوی ادارہ DFID شہباز شریف کو چند سال قبل تیسری دنیا کے ممالک کے لیے رول ماڈل بھی قرار دے چکا ہے۔ گزشتہ سے پیوستہ سال شہباز شریف پر ملتان میٹرو میں اربوں کی کرپشن کا الزام بھی لگا تھا لیکن چینی فرم کی تردید سے وہ اس الزام سے سرخرو ہو گئے۔

شہزاد اکبر صاحب نہایت پر اعتماد ہیں اور چیلنج کر رہے ہیں کہ شہباز شریف کبھی اس اخبار اور ان کو برطانوی عدالت میں چیلنج نہیں کریں گے۔ ڈیلی میل اخبار کی شہرت کچھ زیادہ اچھی نہیں اور اسے اکثر اپنی اسٹوریز کے باعث قانونی چارہ جوئی کا سامنا رہتا ہے۔ ماضی میں اس اخبار کو بہت بار جرمانا بھی ادا کرنا پڑا ہے۔ برطانیہ میں کسی پر بے بنیاد الزام تراشی کے حوالے سے قوانین بھی بہت سخت ہیں اور وہاں ہتک عزت کے مقدمات برسوں لٹکے نہیں رہتے۔

برطانوی ادارے کا بیان حق میں آنے کے بعد شہباز شریف کی پوزیشن مستحکم ہے۔ اب اگر ان کے ہاتھ صاف ہیں تو انہیں مذکورہ اخبار کے ساتھ عمران خان اور ان کے معاون کے خلاف فورا قانونی چارہ جوئی کرنی چاہیے۔ تاکہ دودھ اور پانی الگ ہونے کے ساتھ ان کی جماعت پر تسلسل کے ساتھ لگنے والے کرپشن الزامات سے ہونے والے نقصان کا مداوا بھی ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).