عورت ہی عورت کی مددگار ہے


سائرہ : نائیلہ، تم سے کتنے عرصے بعد ملاقات ہورہی ہے۔ میڈیکل کالج کے بعد تم ایسی امریکہ گئی کہ کوئی خیر خبر ہی نہ تھی۔ یہ تو بھلا ہو فیس بک کا کہ تم سے اتنے سالوں کے بعد رابطہ ہوسکا اور آج ملاقات ہو پائی۔

نائیلہ : سائرہ، کیا بتاوں تمہیں۔ جب میں امریکا گئی تھی تو پاکستان فون کرنا اتنا مہنگا تھا کہ ہفتہ میں ایک بار ہی گھر فون کر پاتی تھی، اور امریکا میں سیٹل ہوناکون سا آسان ہے، یو ایس ایم ایل ای کا امتحان پاس کرتے کرتے ہی مت ماری جاتی ہے، پھر ریذیڈنسی اور پھر بچے، ایک کے بعد ایک مرحلہ سامنے آتا رہتا ہے۔ یہ تو ٹیکنالوجی کا اعجاز ہے کہ اب پرانی دوستوں سے رابطہ قائم ہو سکا ہے۔

سائرہ : اعجاز، تم نے یہ کس بدبخت کا نام لے لیا۔

نائیلہ : کیوں۔ یہ اعجاز کون ہے؟

سائرہ : وہ منحوس میرا میاں تھا۔ میرے ماں باپ نے اُس سے شادی کر دی تھی کہ لائق لڑکا ہے، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کا پڑھا ہے، سپیشلائزیشن کر رہا ہے۔ شادی کے ایک ماہ بعد ہی میں نے دیکھ لیا کہ یہ تو اپنی ماں کے اثر میں ہے۔ جب دیکھو، امی امی کہہ رہا ہوتا تھا۔ امی نے کھانا کھایا ہے، امی نے یہ کہا ہے، امی یہ کہہ رہی ہیں، ایسا کرلو، ویسا کرلو۔ وہ گھامڑ تو ماں کا نوکر تھا۔ ٹھیک ہے کہ اس کی ماں بیوہ تھی اور اُس نے اپنے لڑکے کو پڑھایا لکھایا تھا، مگر یہ تو سب کرتے ہیں۔

بڑھیا نے لڑکے کو اپنے قابو میں ہی رکھنا تھا تو اُس کی شادی کیوں کی؟ شادی کے دو ماہ بعد ہی میں نے کہا کہ ایسے کام نہ چلے گا، گھرعلیحدہ کرو۔ دیکھو، عورت تو عورت کی ساتھی ہے۔ میں نے سوچا تھا کہ یہ اماں اکیلے رہے گی، خود ہانڈی روٹی کرے گی، کپڑے دھوئے گی، صفائی ستھرائی میں مصروف رہے گی تو اس کا وقت اچھا گزرے گا، چلتی پھرتی رہے گی۔ مگر وہ مائی کیا چلتی اُس نے مشہور کرنا شروع کردیا کہ بہو بہت چلتر ہے۔ کیا کہوں، نیکی کا توکوئی زمانہ ہی نہیں رہا۔

بہر حال نیکی کے لیے قربانی تو دینا ہی پڑتی ہے، سو چوتھے مہینے اعجاز کو لے کر میں علیحدہ ہوگئی۔ مگر وہ عجیب شارٹ سائیٹڈ سا آدمی تھا۔ میں گائنی میں سپیشلائزیشن کر رہی تھی اور تمہیں پتا ہے کہ یہ ٹریننگ کتنی ٹینشن کا کام ہے۔ کیا ہوا اگر میں نے اعجاز کو کبھی غصے میں ایک دو تھپڑ مار دیے۔ ویسے بھی اگر مرد کو گھر میں عورت سے تھپڑ پڑیں تو اُسے کون سا کسی کو بتانا ہوتا ہے۔ اُس گھامڑ کو اتنی بنیادی بات کی سمجھ نہیں تھی۔

اور ویسے بھی میں تو نیکی کا کام کر رہی تھی۔ اس کی برداشت بڑھانے کے لیے ایک دو ہفتے بعد تھوڑی ٹھکائی کر دیتی تھی۔ دیکھو، ہمارے مذہب نے برداشت پر اتنا زور دیا ہے۔ مگر تمہیں پتہ ہے، نیکی کا تو کوئی زمانہ ہی نہیں ہے، وہ کچھ ماہ بعد گھر چھوڑ کر بھاگ گیا۔ چلو، ایک مصیبت سے میری جان چھٹی، یہ مرد تو تمہیں پتہ ہی ہے کہ تمام مصیبتوں کی جڑ ہیں۔ یہ عورتیں ہی ہیں کہ ایک دوسرے کی مددگار ہیں۔

نائیلہ : یہ بتاؤ سائرہ، تمہاری نوکری کیسی چل رہی ہے؟

سائرہ : ایک سرکاری میڈیکل کالج میں پڑھاتی ہوں اور اپنی پرائیویٹ پریکٹس بھی ہے، ایک ہسپتال میں بھی شیئر ہیں۔ یہ تو اچھا ہوا کہ تم امریکہ چلی گئی ہو، ورنہ یہاں تو برے حال ہیں، مہنگائی کا عالم تو تم نے خود دیکھ لیا ہے، اوپر سے حکومت نے ٹیکس ٹیکس کی گردان لگائی ہوئی ہے۔ برانڈڈ سوٹ اتنی مہنگے ہوگئے ہیں کہ کیا بتاوں، مگر خریدنا پڑتے ہیں۔ میڈیکل کالج کی پروفیسر ہوں اگر ایک سوٹ مہینے بعد بھی دوبارہ پہنوں تو گرلز سٹوڈنس کیا کہیں گی۔

ایک چھوٹا موٹا معاشقہ بھی چل رہا ہے۔ ایک دن اُس نے کہا کہ پرانے صوفے پر نیا کپڑا بڑا چھب دکھاتا ہے، تب سے میرا خرچہ بڑھ گیا ہے۔ مگر خرچہ زیادہ ہونے کے باوجود وہ آگے ہی نہیں بڑھتا، میرا شبہ ہے کسی نے اُسے میری اعجاز کو دی جانے والی ٹریننگ کی کوشش کا بتا دیا ہے۔ نائیلہ، ویسے عورت کی خوشیاں بھی کتنی چھوٹی ہیں ؛ سوٹ، زیور، میک اپ، پرفیومز، تھوڑا جھوٹ، زیادہ چغلی۔ ویسے تم سے مل کر بڑا مزہ آرہا ہے۔

نائیلہ: اور سرکاری نوکری کے ساتھ ساتھ تمہاری پرائیویٹ پریکٹس کیسی چل رہی ہے؟

سائرہ : دیکھو، میں تو عورتوں کی مدد کرتی ہوں۔ کوئی زچہ میرے پاس آجائے تو میں زیادہ وقت نہیں لگاتی۔ آدھے گھنٹے میں اس کا آپریشن کر کے فارغ کر دیتی ہوں۔ میری جان، اکیسویں صدی میں قدرتی طریقے سے پیدائش کرنا کتنا آوٹ آف فیشن لگتا ہے۔ یہ قدیم، دقیانوسی پیدائش کا طریقہ تو اب ہونا ہی نہیں چاہیے۔ تم نے دیکھا ہے ہر طرف ترقی ہوگئی ہے، برائلر مرغی آگئی ہے، اِدھر چوزہ نکلا، اُدھر دو ماہ میں کھانے کو تیار۔ آج کے دور میں دیسی مرغی تو اتنی آوٹ ڈیٹٹ چیز ہے۔

مگر ایک بات ہے شوربہ دیسی مرغی کا ہی مزہ دیتا ہے، مگر یہ دیسی مرغی پکنے میں اتنا دیر لے جاتی ہے کہ اتنے میں پانچ سی۔ سیکشن بھگت جاتے ہیں۔ ویسے اگر میرا بس چلے تو یہ نو ماہ کا معاملہ بھی تین ماہ میں بدل دوں۔ ایسا ہو جائے تو میں بھی زیادہ خدمت کرسکتی ہوں۔ ویسے بھی عورت ہی عورت کی مدد کو آتی ہے۔

میں کہتی ہوں کہ آج کل ہم عورتوں کو دیسی مرغی کی طرح نہیں ہونا چاہیے کہ میاں کی خدمت میں ایک کونے سے دوسرے کونے میں بھاگتی پھریں، باربی گرل بلکہ ولائیتی میم ہونا چاہیے۔ مگر نائیلہ، میں نے سنا ہے کہ امریکہ میں میمیں گھر کا کام خود کرتی ہیں۔ میں تو کبھی بھی ولایت نہ جاوں۔ اس لحاظ سے تو برائلر مرغی اچھی ہے، جہاں بیٹھے وہی کھانا آنا چاہیے۔ قسم سے یہ دیسی مرغی، نارمل ڈلیوری اورقدرتی علاج تو ویسے ہی ختم ہو جانا چاہیے۔

نائیلہ : مگر امریکہ میں تو ڈاکٹر انسانی مدافعت کو بیماری کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرتے ہیں۔ کوئی اینٹی بیاٹک نہیں دیتے۔

سائرہ : پاکستان میں ہم خدمت پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر مریض خود بخود ٹھیک ہوجائے گا تو کسی نے اس کی خاک خدمت کی۔ اس کو معمولی نزلہ بھی ہو تو بھاری دوائیاں دو، یہ آپ کی طرف سے اُس کی خدمت ہوگی۔ اور تمہیں پتا ہے کہ خدمت میں عظمت ہوتی ہے۔ اللہ نے خدمت کا اجر دینے کے لیے مریض کے ساتھ ساتھ اب فارماسوٹیکل کمپنیاں بھی بھیج دی ہیں۔ میں تو کہوں گی کہ پرانے زمانے کے دقیانوسی آستانوں کو ختم ہونا چاہیے، اور جیسے ڈاکٹروں کے لیے فارماسوٹیکل کمپنیاں ماڈرن وسیلے کی شکل میں آئی ہیں ایسے ہی خانقاہ کا کوئی نیا ماڈل آنا چاہیے۔

ویسے شیشہ کلب دم لگانے کے لیے بدل کے طور پر آ تو گئے ہیں مگر ساتھ ہی اگر ڈانسنگ فلور بھی آجائیں تو دھمال بھی ماڈرن ہو جائیں گے۔ ترقی ہرگز نہیں رکنی چاہیے، باغوں میں تیل کی شیشیاں کھڑکھڑاتے مالشیوں سے کوٹھیوں میں بنے مساج سنٹر اصل میں ترقی کے نشان ہیں۔ بدن کی تھکن اتارنے کے لیے خدمتی بھی بہت ہیں بلکہ سنا ہے کہ ریکارڈ کے لیے ویڈیو بھی بنا لیتے ہیں کہ بھول چوک معاف نہ ہو، رسید کے طور پر سند بھی رہے اور بوقتِ ضرورت کام آَئے۔

اور نائیلہ تمہیں تو پتا ہی ہے کہ خدمت میں عظمت کے ساتھ ساتھ دولت میں بھی عظمت ہے، سو منطق کے لحاظ سے خدمت میں بھی دولت ہے۔ میں اگر نارمل ڈلیوری بھی آپریشن سے کر دیتی ہوں تو یہ ایک خدمت ہے۔ آپریشن کی خدمت کا صلہ بھی زیادہ ملتا ہے۔ بلکہ میں تو فیملی پلاننگ ڈیپارٹمنٹ کی بنا مانگے بغیر پوچھے خدمت کردیتی ہوں کہ وہ عورت آئندہ ماں نہ بنے اور اگر دیسی مرغی ٹائپ کی عورت دوبارہ ماں بننے آئے بھی تو اس کا خرچہ زیادہ ہو۔

بھئی، آج آپ نیکی کریں گے تو کل کو اُس کا صلہ کئی گنا بڑھ کر پائیں گے۔ مگر آج کا مسئلہ یہ ہے کہ گائناکالوجسٹ خدمتیوں سے پورا شہر بھرا پڑا ہے۔ کیا دور آگیا ہے کہ نیکی کرنے کے لیے ایرپورٹ کے ٹیکسی ڈرائیوروں کی طرح آگے آگے ہونا پڑتا ہے۔ مگر ایک بات ہے، کوئی مانے یا نہ مانے عورت ہی عورت کی مددگار ہے۔

بعض اوقات، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آپریشن ٹھیک نہیں۔ بیوقوفو، کیا ہوا اگر اس کے بعد عورت کام سے گئی۔ کام سے جانا بھی توبڑی بات ہے، ورنہ ساس اور میاں کام کروا کروا کر ہلکان کردیں۔ میں تو بس سمجھتی ہوں کہ میں آپریشن نہیں کرتی بلکہ نیکی کا کام کر رہی ہوتی ہوں، بلکہ بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ اپنے ہاتھ سے قربانی کر رہی ہوں۔ اور قربانی سے بڑھ کر نیکی کا کام کیا ہوگا، سو میں تو بھاگ بھاگ کر نیکی کے کاموں میں لگی رہتی ہوں۔ اور آپ نیکی کا کام کریں تو غیب سے پیسہ آتا ہے۔ اب دیکھو، غیر شادی شدہ کا حمل ٹھہرنا بھی تو ایک غیبی عمل ہے۔ نائیلہ قسم سے یہ تو میرے لیے غیبی مدد کا معاملہ ہوتا ہے۔ غیبی مدد بے حساب آتی ہے اور بے حساب دے جاتی ہے، اور میں تو اب شہر میں اس نیکی کے عمل کی وجہ سے جانی جاتی ہوں۔

بس ایک چیز کا خیال رکھنا ہوتا ہے، یہ جو دوسری گائناکالوجسٹ ہیں، ان سے بچنا ہوتا ہے۔ ایسے کیسیز پر تو اُن کی رالیں ٹپک رہی ہوتی ہیں۔ تمہیں فروہ یاد ہے، وہ جو ہم سے کالج میں دو سال پیچھے تھی۔ وہ بھی اسی ہسپتال میں پرائیویٹ پریکٹس کرتی ہے جس میں میں پریکٹس کرتی ہوں۔ پچھلے ہفتے وہ میری ایک کلائنٹ کو اُچک کر لے گئی۔ اُس کمینی کو تو میں نے وہ گالیاں دیں کہ ساری عمر یاد رکھے گی۔ نائیلہ، تمہیں پاکستان میں گائناکالوجٹسزجب ٹانگیں کھینچتی نظر آئیں تو جان لینا کہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہی ہیں، کیونکہ زچہ کا تو وہ آپریشن ہی کرتی ہیں۔

نائیلہ : سائرہ، تم سے اتنے عرصے بعد مل کر بہت خوشی ہوئی۔ اب میں چلتی ہوں اور میں آج اچھی طرح جان گئی ہوں کہ واقعی عورت ہی عورت کی مددگار ہے۔

نوٹ : اس تحریر کو آپ ”میرا ذہن میری مرضی“ کے لحاظ سے سچ بھی مان سکتے ہیں اور جھوٹ و فسانہ بھی جان سکتے ہیں، آپ کا ذہن آپ کی مرضی۔

عاطف ملک
Latest posts by عاطف ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاطف ملک

عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں سکول آف کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ وئیر انجینرنگ میں پڑھاتے ہیں ۔ پڑھانے، ادب، کھیل اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ طالبعلمی کے دور میں آپ نے اپنی یونیورسٹی کا400 میٹر کی دوڑ کا ریکارڈ قائم کیا تھا، جبکہ اپنے شوق سے کے-ٹو پہاڑ کے بیس کیمپ تک ٹریکنگ کر چکے ہیں۔

atif-mansoor has 74 posts and counting.See all posts by atif-mansoor