خطبہ حج اور سعودی پالیسی کے خدوخال


\"mujahidپندرہ لاکھ مسلمان اس وقت عرفات کے میدان میں حج کا رکن اعظم ادا کرنے کے لئے جمع ہیں۔ تھوڑی دیر قبل امام مکہ شیخ عبدالرحمٰن السودیس نے خطبہ حج دیتے ہوئے مسلمانوں کو متحد ہونے اور اپنی صفوں میں انتشار پیدا کرنے والوں سے خبردار رہنے کی تلقین کی ہے۔ انہوں نے فرقہ واریت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسلام یگانگت، بھائی چارے اور صبر و تحمل کا سبق دیتا ہے۔ انہوں نے خاص طور سے ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کے رویہ کو مسترد کیا اور کہا کہ ایمان لے آنے والوں کو کافر قرار دینے والوں کا اپنا ایمان خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ حج کے خطبہ میں یہ اہم اعلان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز الشیخ نے چند روز قبل یہ متنازعہ بیان دیا تھا کہ ایرانی لیڈر مسلمان نہیں کیوںکہ وہ آتش پرستوں کی اولاد ہیں۔

مفتی اعظم کے اس بیان کے بعد سعودی عرب کے حکام نے انہیں اس سال حج کا خطبہ دینے سے منع کردیا تھا۔ اس بارے میں یہ عذر پیش کیا گیا تھا کہ شیخ عبدالعزیز بیماری کی وجہ سے 35 برس میں پہلی بار حج کا خطبہ نہیں دے سکیں گے لیکن وہ خطبہ حج کے دوران مسجد نمرہ میں موجود تھے۔ اس لئے اسے سعودی حکام کا اہم سیاسی فیصلہ بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ شیخ السودیس نے اپنے تحریری خطبے میں خاص طور سے جس طرح کفر کے فتوے دینے والوں کو مسترد کیا ہے ، اس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ سعودی حکام شیخ عبدالعزیز الشیخ کے خیالات سے متفق نہیں ہیں اور وہ ایران کے ساتھ تعلقات کو اس حد تک کشیدہ نہیں کرنا چاہتے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کو کافر قرار دینا شروع کردیں۔ سال رواں کے خطبہ کی دوسری قابل ذکر بات یہ تھی کہ اس میں کشمیر کی آزادی کی بات نہیں کی گئی حالانکہ برس ہا برس سے اس خطبہ میں فلسطین کی طرح کشمیر کے عوام کی جد و جہد آزادی کے لئے بھی دعا کی جاتی ہے۔ تاہم ایک ایسے موقع پر جبکہ دو ماہ سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی استبداد کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور بھارتی سیکورٹی فورسز کے مظاہرین پر تشدد کے نتیجے میں 75 افراد جاں بحق اور دس ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں، کشمیر کا ذکر کرنے سے گریز اہم سیاسی اشارہ ہے۔

خطبہ حج میں کی گئی ان دونوں باتوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے مقدس ترین دن کے موقع پر دئے جانے والا خطبہ سعودی حکومت کا سیاسی بیان ہوتا ہے۔ جو امام بھی یہ خطبہ دیتے ہیں ، وہ دراصل ریاض حکومت کی ہدایات کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ ایک اہم ترین دینی اجتماع کو ایک ملک کی سیاسی حکمت عملی کا آئینہ بنانا اختلافات پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے اور اس سے اتحاد اور اشتراک کے ان مقاصد کو زک پہنچ سکتی ہے جو اس خطبہ میں عام طور سے بیان کئے جا تے ہیں۔ خطبہ میں کشمیر کو نظرانداز کرنے کا مقصد بھارت کے ساتھ سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے تعلقات ہیں۔ اس طرح سعودی حکام نے ایک ایسے موقع پر جب کہ مقبوضہ وادی میں عوامی احتجاج اور بھارتی حکومت کا ظلم جاری ہے، نئی دہلی کو یہ اشارہ دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ اس تنازعہ میں بھارت کے خلاف نہیں ہیں۔ خطبہ سے کشمیر کا ذکر حذف کرنے کا دوسرا مقصد پاکستان کو متنبہ کرنا بھی ہو سکتا ہے۔ پاکستان کو اس بات کا نوٹس لیتے ہوئے سعودی حکام سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔

شیخ عبدالرحمٰن السودیس نے خطبہ میں جس طرح ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کو غلط قرار دیا ہے ، وہ سعودی عرب سے آنے والا ایک مستحسن اشارہ ہے۔ خاص طور سے شیخ عبدالعزیز الشیخ کے غیر ذمہ دارانہ بیان کے بعد انہیں حج کا خطبہ دینے سے روکنا بھی مشرق وسطیٰ کی دو بڑی طاقتوں سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں کشیدگی اور بد اعتمادی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس سال جنوری میں سعودی عرب میں شیعہ رہنما شیخ نمر باقر النمر کو سزائے موت دینے کے بعد ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔ اس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان حج کے دوران ایرانی زائرین کی حفاظت کے معاملہ پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا تھا ۔ اس سال ایرانی زائرین حج کی سعادت حاصل کرنے سے محروم رہے ہیں۔

گزشتہ برس منیٰ میں ہونے والی بھگدڑ میں لاتعداد حاجی جاں بحق ہو گئے تھے۔ اس کے بعد حاجیوں کی حفاظت کے حوالے سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس حادثہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ سعودی عرب نے اس حادثہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 769 بتائی ہے۔ جبکہ عالمی ایجنسیوں نے مختلف ممالک سے حاصل شدہ اعداد و شمار کی روشنی میں اس حادثہ میں جان سے جانے والوں کی تعداد 2300 کے لگ بھگ بتائی ہے۔ مرنے والوں میں ایرانی زائرین کی بھی بڑی تعداد شامل تھی۔ اس پس منظر میں گزشتہ ہفتے کے دوران ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای نے سعودی حج انتظامات پر سخت تنقید کرتے ہوئے مسلمان ملکوں پر زور دیا تھا کہ وہ حج کے موقع پر انتظامات کے حوالے سے سعودی اختیار ختم کریں۔ اسی بیان کے جواب میں شیخ عبدالعزیز الشیخ نے ایرانی لیڈروں کو زرتشت قرار دیتے ہوئے اسلام سے خارج اور سنی مسلمانوں کا دشمن قرار دیا تھا۔

حج کے خطبہ کے ذریعے سعودی عرب سے ایران کو ایک مثبت اشارہ دیا گیا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے تنازعہ اور دونوں ملکوں کے درمیان تصادم کی موجودہ صورت حال میں یہ ایک حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔ تاہم حج کے خطبہ کو ایک ملک کے سیاسی مقاصد اور خارجہ پالیسی کی نزاکتوں کے لئے استعمال کرنے کا طریقہ حج کی حرمت اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی عقیدت کے حوالے سے سنگین سوالات کو جنم دیتا ہے۔ یہ ایک نازک معاملہ ہے۔ اس طریقہ کے بارے میں دنیا بھر کے مسلمان ملکوں کو سعودی عرب پر واضح کرنا چاہئے کہ حج کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا طریقہ ترک ہونا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments