کرتار پور راہداری رواداری کا راستہ ہے


گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے حال ہی میں گورو دوارہ دربار صاحب کرتارپور کا دورہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سال اکتوبر تک پاکستان کرتارپور راہداری منصوبہ مکمل کر لے گا کرتار پور کا ریڈور منصوبے پر کام تیزی سے جاری ہے اور 80 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے انہوں نے کہا ہے کہ میں دنیا بھر کے سکھوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ گردوارہ دربار صاحب کرتار پور میں بابا گورونانک دیو جی کی کاشت کردہ اراضی میں کسی قسم کی کٹوتی نہیں کی گئی ہے۔

بابا جی کے زیر کاشت اراضی 62 ایکڑ تھی جسے جوں کا توں بحال رکھا جائے گا اس کے اوپر کسی نوع کی تعمیرات نہیں کی جائیں گی جبکہ تعمیرات وغیرہ کے لیے علیحدہ سے 42 ایکڑ زمین مختص کی گئی ہے تاکہ اس میں سکھ یاتریوں کے لیے رہائش گاہوں اور لنگر خانوں کا بندوبست کیا جا سکے۔ تین بڑے لنگر خانے بنائے جا رہے ہیں جہاں سکھ بھائیوں کو کھانے اور آرام کے علاوہ جو سہولیات ممکن ہوں گی مہیا کی جائیں گی۔ یوں مجموعی طور پر دربار صاحب سے ملحق 104 ایکڑ اراضی رکھی گئی ہے۔

بابا گورونانک دیو جی مہاراج کی زیر کاشت جس 62 ایکڑ اراضی کی بات گورنر صاحب نے کی ہے اور دنیا بھر کے سکھ بھائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے جو خوشخبری سنائی ہے یہ واقعی بڑی خوش آئند اور باعثِ مسرت بات ہے درویش کی تجویز ہے کہ اس 62 ایکڑ اراضی کا بیشتر حصہ پھل دار درختوں اور باغات میں بدلتے ہوئے کچھ ایریا سبزیوں وغیرہ کی کاشت کے لیے مخصوص کر دیا جائے۔ آبپاشی کے لیے دربار صاحب کے ساتھ بابا جی کے زیر استعمال کنواں آج بھی جوں کا توں موجود ہے اس کو صفائی وغیرہ کے بعد اوریجنل حالت میں رکھتے ہوئے ایک ٹیوب ویل لگا کر چالو کر دیا جائے تو نہ صرف باغات اور زیر کاشت رقبے کی آبپاشی بہتر طور پر ہو سکے گی بلکہ یہ پھل اور سبزیاں سکھ بھائیوں کے لیے سوغات کی طرح ہوں گی علاوہ ازیں اپنی رہائش گاہ کرتارپور سے اپنے تبلیغی مرکز ”ڈیرہ بابا نانک“ تک جو اس وقت ہندوستان میں ہے بابا جی کی سوانحی روایات کے مطابق آتے جاتے دریائے راوی کنارے میں بابا نانک جی اکثر و بیشتر اشنان کیا کرتے تھے بلکہ بہتے شفاف پانی میں عبادت و ریاضت کے مراحل بھی طے کرتے اب راوی میں پانی کبھی آتا ہے اور کبھی نہیں آتا۔

اب یہاں اس خاص مقام پر جو زبردست پُل تعمیر کیا جار ہا ہے جسے راقم نے خود بھی ملاحظہ کیا ہے کیا ہی بہتر ہو اگر اس کے ساتھ کوئی جھیل یا تالاب تعمیر کرتے ہوئے یا کچھ فوارے لگا کر سکھ بھائیوں کے لیے مقدس اشنان کا اہتمام بھی کر دیا جائے۔ کیونکہ ان چیزوں سے پیرو کاران کی عقیدتیں وابستہ ہوتی ہیں اگر یہ محبتیں یا عقیدتیں انسانوں کو نقصان پہنچانے والی نہ ہوں تو ان کی لحاظ داری کوئی برُی چیز نہیں ہے

اندازہ یہ ہے کہ یہ کاریڈور کھلنے کے بعد پانچ سے سات ہزار سکھ خواتین و حضرات کرتار پور یاترا پر روزانہ آیا کریں گے۔ جو یاتری ویزے کے ذریعے آئیں گے اُن کے لیے یہاں رہائش یا قیام کا اہتمام ہو گا اور جو ویزے کے بغیر آئیں گے وہ زیارت کے بعد اُسی روز واپس جانے کے پابند ہوں گے۔ یہاں یہ امر خوش آئند ہے کہ کرتارپور ایشو پر پاکستان اور انڈیا کے مذاکرات کا دوسرا مرحلہ 14 جولائی کو کامیابی سے مکمل ہو گیا ہے جس میں تقریباً 80 فیصد معاملات طے پا گئے ہیں ان میں یاتریوں کے داخلے، رجسٹریشن، کسٹم، امیگریشن، کرنسی کی نوعیت و حد، ٹرانسپورٹ اور ویزے یا قیام کی مدت جیسے ایشوز زیر بحث آئے بھارتی وفد میں وزارتِ خارجہ کے جائینٹ سیکرٹری دیپک متل کے علاوہ اسلام آباد میں ڈپٹی ہائی کمشنر گورو آہلو والیہ اور ہیڈ آف پولیٹکل آفیئر رانا چئیرالنگ ایلانگ سنگھ بھی موجود تھے۔ اجلاس میں دونوں ممالک کے وفودنے ایک دوسرے کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی۔

حکومتِ پاکستان نے جذبہ خیر سگالی کے طور پر 4 ماہ سے بند اپنی فضائی حدود بھی بھارت سمیت سب کے لیے کھول دی ہیں۔ گذشتہ پاک ہند کشیدگی کے بعد 27 فروری سے یہ فضائی بندش چلی آ رہی تھی جس سے خود پاکستان کو 15 کروڑ روزانہ کا نقصان ہو رہا تھا۔ اب تمام روٹس کی پروازیں کھولنے سے انڈین ائر لائن بھی پاکستانی ائر سپیس استعمال کر سکے گی۔ علاوہ ازیں ہماری حکومت نے حال ہی میں لاہور کے شاہی قلعہ میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کا پروقار اور شایانِ شان مجسمہ پراپر اہتمام کے ساتھ لگوا دیا ہے جو ایک طرح سے سکھ کمیونٹی کو خیر سگالی کا پیغام ہے۔

یہاں اس خدشے کا تذکرہ ضروری ہے کہ ہمارا جذبہ دوستی ہندوستان کی محض ایک کمیونٹی کے لیے ہرگز نہیں ہے یہ پوری ہندوستانی قوم کے لیے ہے جس میں ہندو سکھ مسلم مسیحی بدھ سب شامل ہیں اگر کہیں اس حوالے سے کوئی کنفیوژن پائی جاتی ہے تو اس کی فوری وضاحت ہر حوالے سے کر دی جانی چاہیے۔ مثال کے طور پر حال ہی میں خالصتان زندہ باد اور انڈیا مردہ باد کی ایک ریلی کوئٹہ سے سبی تک نکالی گئی ہے جس میں کسی خالصتانی موومنٹ کے نام نہاد رہنما نے ویڈیو لنک پر جس نوع کا خطاب کیا ہے اس میں بہت سی باتیں قابلِ گرفت ہیں اورپاک ہند بہتر تعلقات میں زہر گھولنے والی ہیں ہمارے ذمہ داران کو چاہیے کہ غیر ذمہ داران کی فوری گرفت کریں کیونکہ آخر کار ایسی منافرت بھری آوازیں اقوام کے درمیاں بدگمانیوں کا باعث بنتی ہیں جس طرح براہمداغ بگٹی اور حربیار مری ہمارے لیے ناقابلِ قبول ہیں اسی طرح کسی جمعہ خاں کی بھی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ خالصتانی شوشا انڈیا کے لیے ہی نہیں خود پاکستان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ بہت سے ایسے غیر ذمہ دار عناصر موجود ہیں جو سادہ لوح سکھ بھائیوں کو اس نوع کی پٹی پڑھاتے ہیں کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی ریاست کا پایہ تخت امرتسر نہیں لاہور تھا۔ ہم ایسی سوچوں کی سخت مذمت کرتے ہیں

درویش یہاں یہ واضح کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ اب پاکستان اور انڈیا دونوں کی قیادتوں کو ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے منفی سوچ کے حاملین اور نفرت کے بیوپاری عناصر سے قطع تعلق کرنا ہو گا۔ پاکستان جس طرح سکھ بھائیوں کی دلجوئی کے لیے احساسات رکھتا ہے ویسے ہی احساسات اپنے ہندو بھائیوں کے لیے بھی رکھتا ہے جس جذبے سے کرتار پور راہداری پر کام کر رہا ہے اُسی جذبے کا مظاہرہ کٹاس راج مندروں کے حوالوں سے کر رہا ہے پاکستان میں اتنے سکھ نہیں ہیں جتنی ہندو آبادی ہے حالیہ دنوں کشمیر میں وادی نیلم کے مقام پر ہندو تاریخی مندروں کی تزئین و آرائش کے لیے بھی سندھ کی ہندو کمیونٹی کو وزٹ کروایا گیا ہے، سیالکوٹ میں بھی اسی جذبے کا مظاہرہ کیا گیا ہے دیگر بہت سے مقامات جہاں ہندو تاریخی مندر ہیں حکومت پاکستان ان کی حفاظت اور تزئین کے لیے اپنے اخلاص کا اظہار کرتی رہتی ہے ہمارے وزیراعظم نے حکومت سنبھالتے ہی اپنی پہلی تقریر میں یہ پیغام بھیجا کہ انڈیا ہماری طرف ایک قدم بڑھے گا تو ہم دو قدم بڑہیں گے۔

بی جے پی کے پیدا کردہ مشکل ترین حالات میں بھی پاکستان نے حملہ آور پائلٹ کو غیر مشروط طور پر رہا کرتے ہوئے جو مثبت پیغام بھیجا امید کی جا سکتی ہے کلبھوشن یادیو کے معاملے کو بھی ایسی ہی دو طرفہ بالغ نظری سے سلجھایا جائے گا کسی ملک پر حملہ آور ہونا تو جاسوسی سے بھی بڑا جرم ہے۔ جب جنگ کی جارحانہ نیت سے آنے والے کو ہم نے چائے پلا کر عزت سے رخصت کیا تو امن اور سلامتی کے پیغامات و اقدامات آگے بھی چلتے رہیں گے اس سے امید کی جا سکتی ہے کہ نریندر مودی جی بھی اپنی سخت پالیسی بدلنے پر مجبور ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).