میڈیا ورکر کے مسائل


ادھر دھماکے کی اطلاع ملی ادھر ایڈیٹر صاحب نے ٹیم کو جھٹ پٹ پہنچنے کے احکامات صادر فرما دیے، پولیس، 1122، سیکورٹی اداروں سے اکثر اوقات پہلے نہتے میڈیا ورکرز قوم کو باخبر رکھنے یا اپنی نوکری بچانے کے لئے گولیوں کی تڑتڑاہٹ کو چھیرتے ہوئے فرنٹ لائن پر پہنچتے ہیں، ایک کی دیکھا دیکھی میں دوسرے چینلز بھی اپنے ورکرز کو بڑے سے مانیٹرنگ ہال سے حکم صادر فرما رہے ہوتے کہ اس اینگل سے فٹیج دو اور بہت کچھ۔

بغیر کسی انشورنس اور حفاظتی اقدامات کے انسان نما مخلوق کا وہ حشر کیا جاتا ہے جو شاید کسی مہذب ملک کے روبوٹ کے ساتھ بھی روا نہ رکھا جائے۔

اپنے اپنے مفادات کے تحفظات کے لئے بنائے گئے ان میڈیا ہاؤسز کے مالکان اکثر ورکرز کو ہی ورکر دشمن پالیسی پر لگاتے ہیں اس لئے باس کی نظر میں پہلا نمبر حاصل کرنے کے لئے اکثر لوگ شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

دوران ڈیوٹی ایسے کئی واقعات پیش آئے جس میں میڈیا ورکرز جان سے گئے اور ہزاروں معذور ہوئے، ارب پتی سیٹھوں کے ایک ٹائم کے کھانے سے بھی کم پیسوں کے علاج کی رقم نہ ہونے کے باعث زندگی و موت کی کشمکش میں رہتے ہیں۔

مالکان نے اپنے تحفظ کے لئے کئی صحافی رہنما بھی ہائر کیے ہوئے ہیں جو صرف اس وقت حرکت میں آتے ہیں جب عام مزودر صحافی کو نکالا جاتا ہے تو یہ پس پردہ اور آج کل تو سب کے سامنے مالکان کا دفاع کر کے نمک حلالی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ان تمام لوازمات کے علاوہ دفتر میں 24 گھنٹے چابی والے کھلونے کی طرح برتاؤ کیا جاتا ہے، سب کچھ کرنے کے باوجود بھی جس بد ترین ذہنی تشدد کا نشانہ ایک میڈٰیا ورکر بنتا ہے دنیا کا شاید ہی کوئی انسان ہو۔

اور آخر میں سب سے بڑا ستم یہ کہ 18 گھنٹے ڈیوٹی کر کے حوصلہ افزائی کی بجائے ایک صحافی کو سننے کو ملتی ہیں تو نوکری سے نکالے جانے کی دھکمیاں، کارکردگی ٹھیک نہیں ہے، رپورٹس مزید بناؤ اور بہت کچھ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).