عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی


سوشل میڈیا جہاں اپنی نت نئی ہنگامہ خیزیوں سے لبریز نظر آتا ہے وہیں کچھ ایسی چیزیں بھی نظر سے گزرجاتی ہیں جو بہت کچھ سوچنے اور پھر لکھنے پر مجبور کردیتی ہیں۔ کل ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں ایک بہت چھوٹا سا بچہ جس نے ابھی نیا نیا چلنا ہی سیکھا تھا سڑک پر پڑا ہوا کسی پھل کا چھلکا اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے اٹھا کر سڑک کنارے گاربیج بن میں ڈال رہا تھا۔ یقینی طور پر ایک ایسے ملک کے شہری ہونے کے ناتے کہ جہاں بڑے بڑوں کو ہر جگہ کچرا اور گند اچھالتا دیکھا جاسکتا ہے میرے لئے یہ منظر حیرت کا باعث تھا۔ یہ تربیت تھی اس قوم کی اس معاشرے کی کہ جس سے وہ بچہ تعلق رکھتا تھا۔

یہ منظر دیکھ کر میں نے اپنے معاشرے میں دی جانے والی تربیت، تعلیم اور اخلاقیات کا موازنہ کیا تو سر شرم سے جھک گیا۔ کیوں کہ میں تو اس معاشرے سے تعلق رکھتا ہوں کہ جہاں چلتی گاڑیوں سے سڑک پر تھوکنا، کچرا پھینکنا معمول ہے۔ سڑک کنارے جگہ جگہ کچرے کے پہاڑ ہماری صفائی پسندی کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے۔ یعنی صفائی ہمارے ایمان کا آدھا حصہ قراد دیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آدھا ایمان تو ہم میں ہے ہی نہیں اور باقی کا ایمان ہم عدم برداشت، نفرت، ملاوٹ، قطع رحمی، بدسلوکی، ذخیرہ اندوزی، رشوت، جھوٹ، ریاکاری وغیرہ وغیرہ کے ذریعے غارت فرما رہے ہیں اور اس کے بعد بھی یہ ہمارا ہی طرہ امتیاز ہے کہ ہم جنتی ہونے کے دعویدار ہیں۔ اب بغیر ایمان کے بھی اللہ پاک نے کہیں جنت عطا فرمانے کا فرمان جاری کیا ہو تو مجھے اس کی بالکل خبر نہیں کسی کو ہے تو مجھے بھی مطلع فرمادیں۔

جنتی قوم کے دعویدار اپنے ملک میں موجود سڑکوں، گلیوں اور محلوں کی تصاویر کا موازنہ جہنمی اقوام یعنی مغربی ممالک میں موجود سڑکوں، گلیوں اور محلوں کی تصاویر سے کرلیں تو بہت اچھا ہوگا کیوں کہ ایسا کرنے سے ہم جنتی لوگوں کے سامنے ایک سوال یہ بھی آجائے گا کہ جس جنت میں ہم جانے کے حقدار ہیں وہ ہم جنتیوں کی تصاویر جیسی صاف ستھری ہوگی یا جہنمیوں کی تصاویر جیسی گندی؟

صفائی ستھرائی کے معاملات میں بچہ کی پہلی درسگاہ اس کا اپنا گھر ہے۔ گھر سے ہی ابتدا کی جائے بچہ جیسے ہی کچھ سمجھنے کے قابل ہو صفائی ستھرائی کے معاملات میں اس کی تربیت شروع کردی جائے۔ اسکولوں میں سماجیات کو بطور مضمون شامل کیا جائے اور اس کی باقاعدہ عملی مشقیں کروائی جائیں۔ یہ ہمارا المیہ رہا ہے کہ ہم اسباق، مضامین اور نظریات کے تو شیر ہیں انہیں یاد تو کرلیتے ہیں مگر عملی میدان میں ان پر عمل ندارد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے سائنسی مضامین پڑھنے والے بچے بھی امتحانات میں زیادہ نمبر تو لے آتے ہیں مگر سائنس دان نہیں بن پاتے جس کی بنیادی وجہ سائنس کی عملی مشقوں کا نہ ہونا ہے۔

اس لئے سماجیات کو بطور مضمون صرف پڑھانے اور بتانے پر اکتفا کیا گیا تو اس کا بھی وہی حشر ہوگا جو ہمارے پیارے ملک میں سائنس کا ہے۔ صفائی ستھرائی کی اہمیت ہر روز بچے گھر، اسکول، ٹی وی پر سنتے رہتے ہیں مگر عملی طور پر ان کو نہ کوئی تربیت دینے والا نظر آتا ہے نہ کوئی ان کے لئے مثال بننے کو تیار ہے۔ یاد رکھیں کہ بچے وہ نہیں کرتے جو سنتے ہیں بلکہ وہ کرتے ہیں جو دیکھتے ہیں۔ بچوں کو سکھانے کے لئے ضروری ہے کہ موجودہ بالغ نسل صفائی پسند ہوجائے۔

کچرا ہمیشہ گاربیج بن میں ڈالیں۔ اپنے گلی، محلہ میں جہاں کچرا نظر آئے کسی کا انتظار کیے بنا خود صاف کرنے کی عادت اپنائیں۔ خود میں برداشت پیدا کریں۔ خود صبر کا مظاہرہ کریں۔ خود نفرت سے دوری اور محبت بانٹیں۔ خود رشوت، جھوٹ، ملاوٹ اور قانون شکنی سے بچیں تو بچے خودبخود ہمارے مقتدی بن جائیں گے۔ کل کے درخت کی خواہش ہے تو آج کا پودا خود لگانا ہوگا۔ ہم جیسا اپنے بچوں کو بنانا چاہتے ہیں ہمیں آج خود ویسا بننا ہوگا تب ہی ہم اپنی آنے والی نسلوں کی صحیح تربیت کرسکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).