کچھ مادیت پسندی کے دفاع میں


\"shadab

”ہم سب“ پر دو کالم نظر سے گزرے جن میں ”مادیت پسندی/پرستی“ کی اصطلاح کو انہی معنی میں برتا گیا جن میں دایاں بازو انہیں روشن خیالی، ترقی پسندی، سائنس، اور سیکیولرازم کے خلاف مذہبی تنگ نظری برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرتا پایا جاتا ہے۔ دونوں لکھاری چونکہ روشن خیال ہیں اور انہوں نے اپنے کالموں کے موضوع پر جو نکتہ نظر اپنایا وہ اپنے جوہر میں درست اور ترقی پسندانہ ہے لہذا اس خاکسار کو ضرورت پیش آئی کہ مادیت پسندی کے بارے میں کچھ وضاحت پیش کرے۔

ایک کالم نگار نے ”کنزیومرازم“ کو مادیت پرستی کہا جبکہ دوسری کالم نگار نے مادیت پسندی کو ایسے سائنسی رجحان سے تعبیر کیا جس نے زرپرستی اور منافع کی ہوس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے انسان کو فطرت سے متصادم کردیا ہے۔

مادیت پسندی کے یہ دونوں معانی درست نہیں۔ مادیت پسندی انگریزی زبان کی اصطلاح ”مٹیریل ازم“ کے مترادف کے طور پر اردو زبان میں استعمال کی جاتی ہے۔ مٹیریل ازم ایسا فلسفیانہ رجحان ہے جس کے مطابق تمام اشیاء کا ماخذ مادہ ہے۔ تمام اشیاء مادی وجود رکھتی ہیں یا اپنے وجود کے لیے کسی نہ کسی مادی شے پر انحصارکرتی ہیں۔ مثلاً سوچ یا شعور کے وجود کا انحصار دماغ پر ہے۔ دماغ ایک مادی وجود ہے۔ سوچ اور جذبات یا شعور دماغ میں جنم لیتے ہیں۔ اگر دماغ، یعنی مادی وجود، نہ ہو تو سوچ یا شعور بھی جنم نہیں لے سکتے۔ اسی طرح احساسات حواسِ خمسہ کے مرہونِ منت ہیں اور ان کا ماخذ جسم، کان، ناک، آنکھ، زبان وغیرہ ہیں جو مادی وجود رکھتے ہیں۔

تمام فلسفے مادیت پسندی ”مٹیریل ازم“ یا مثالیت پسندی یعنی ”آئیڈیل ازم“ کے رجحانوں میں اور پھر ان کے ماتحت ذیلی رجحانوں میں تقسیم ہیں۔ قدیم ہندوستانی مادیت پسند فلسفے ”لوکایتا/چارواکیہ“ اور قدیم یونانی مادیت پسند فلسفے کے افکار نے ہی آگے چل کر سائنس کی داغ بیل ڈالی۔ مادیت پسند مفکرین نے مظاہرِ فطرت اور فطری عوامل کی توجیہ و تشریح مادی اشیاء کے ذریعے کی اور مادے یا کائنات سے ماوراء کسی محیرالعقول ہستی کے مسبب الاسباب ہونے کے خیال سے اتفاق نہیں کیا۔

مثالیت پسندی کا رجحان رکھنے والے مفکرین نے مذہب، روحانیت، تصوف،توہم پرستی وغیرہ کی مختلف شکلیں اختیار کیں اور کائنات میں موجود مظاہرِ فطرت اور فطری عوامل کی توجیہ و تشریح کے لیے ماورائے وجود ہستیوں یا ان کے ”تصورات“ کا سہارا لیا۔ اس فرق کو عام زندگی کی اس مثال سے باآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ جب کوئی شخص بیمار ہوتا ہے تو اس کے علاج کا مادیت پسندانہ طریقہ یہ ہے کہ وہ کسی ڈاکٹر سے معائنہ کروائے اور ”دوا“ استعمال کرے جب کہ مثالیت پسندانہ طریقہ یہ ہے وہ کسی پیر یا فقیر سے جڑی بوٹی یا تعویذ یا دم کیے ہوئے پانی سے ”شفا“ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔

مثالیت پسندی سے متاثر حلقوں نے، خصوصا پادریوں، مولویوں، علماء، توہم پرستوں وغیرہ نے مادیت پسندی کی مخالفت میں اسے مال و دولت کی ہوس اور دنیا پرستی سے تعبیر کیا اور یہ تاثر پیدا کیا کہ مادیت پسند لوگوں کی زندگی کا محور دھن دولت اور دنیاوی چیزوں کا حصول ہوتا ہے جس کے سبب وہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس سے بچاؤ کا طریقہ یہ بتایا گیا کہ دنیاوی خواہشات یا ضروریات کو ترک یا کم سے کم کر دیا جائے اور خالقِ حقیقی سے لو لگائی جائے۔

مادیت پسندوں کے نزدیک زندہ رہنے اور زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مادی چیزیں مثلاً خوراک، لباس، گھر، استعمال کی دیگراشیاء، اوزار، مشینیں وغیرہ لازم ہیں۔ مادیت پسند فکر پر چل کر ہی انسان نے اپنی زندگی کے مسائل کا حل تلاش کیا ہے اور زندگی کو سہل اور ترقی یافتہ بنایا ہے۔ مادیت پسندی کے مخالفین بھی عملی طور پر اس بات کی حقیقت ثابت کرتے ہیں۔ مذہبی اکابرین، علماء اور دینی شخصیات آج زندگی کی تمام جدید سہولیات اور ایجادات سے بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ دینی اداروں اور مذہبی تنظیموں نے اپنے خیالات و افکار کے پرچار کے لیے انٹرنیٹ، موبائل، سیٹیلائٹ چینل، ڈی وی ڈی، کمپیوٹر جیسے جدید زرائع ابلاغ کو اپنا رکھا ہے۔ آج شاید ہی کوئی مذہبی رہنما یا مولوی ہو جو جدید طبی سہولیات سے فائدہ اٹھانے کے بجائے کسی پیر یا فقیر سے علاج کراتا ہو۔

انسان کے حرص و لالچ کو مادیت پسندی کا شاخسانہ کہنا مناسب نہیں۔ مادیت پسندی کے مخالف بھی اس حرص و لالچ میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔ اس کا سبب ہمارا معاشی سماجی نظام، یعنی سرمایہ داری نظام (کیپٹل ازم) ہے جس نے ایسے مادی حالات پیدا کردیے ہیں جنہوں نے انسان کو حریص و لالچی بنا دیا ہے۔ جہاں انسان کی عظمت کا پیمانہ اس کی دولت ہو وہاں حرص و لالچ کے سوا کیا پنپے گا؟ جہاں رشوت کے بغیر کوئی سرکاری کام بمشکل ہوتا ہو وہاں رشوت دینے والا ”اوپر“ کی آمدنی سے ہاتھ کیسے کھینچ سکتا ہے؟ جہاں سچائی، دیانت داری اور اصول پسندی، انسان کو مفلسی اور غربت میں دھکیل دے وہاں جھوٹ، منافقت اور بے اصولی کامیابی کی کنجی کیوں نہ بنے گی؟

کنزیومرازم (سرمایہ دارانہ معیشت) میں اشیائے صرف انسان کی شناخت بن جاتی ہیں۔ جس کے پاس جس قدر جدید اور برانڈڈ چیزیں ہیں وہ خود بھی اور دوسرے بھی اسے اتنا ہی جدید، مطمئن، خوش و خرم اور متمول سمجھتے ہیں۔ سرمایہ دار اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے ہر انسانی جذبے، رشتے اور اخلاقی قدر کو استعمال کرتے ہیں۔ مسلسل دوہرائے جانے والے اس عمل کے نتیجے میں انسانی اقدار، رشتے، جذبات اور احساسات اپنی شناخت کے لیے اشیاء پر انحصار کرنے لگتے ہیں اور ایسی سماجی نفسیات اور اخلاقیت وجود میں آتی ہے جس میں انسان دوسرے انسانوں سے اپنے تعلق کو انسانیت کے اصولوں کے بجائے اشیاء کے برانڈ، قیمت اور ان کی جدت سے تولتا ہے۔ نت نئے برانڈکی جدید ترین اور مہنگی سے مہنگی اشیاء کو خریدنے اور استعمال کرنے کی خواہش انسانوں کی مسابقت اور باہمی حرص و طمع میں اضافہ کرتی ہے۔ سائنسی کمیونزم کے بانی کارل مارکس نے کہا تھا کہ اشیائے صرف کی تخلیق کا تعلق انسان کی مادی ضروریات کی تسکین سے ہے۔ انسان اشیائے صرف کا آقا ہے کہ وہ انہیں تخلیق کرتا ہے۔ لیکن زرپرستی اور منافع خوری کی بنیاد پر قائم سرمایہ دارانہ نظام میں انسان خود اپنی تخلیق کی ہوئی اشیاء کا غلام بن جاتا ہے!

سائنس اور اس کی ایجادات بھی سرمایہ دارانہ نظام میں انسانی فلاح میں کام آنے کے بجائے دولت کمانے کا ذریعہ بنا دی جاتی ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں سائنسدانوں کو اپنا ملازم بنا لیتی ہیں، ان کی محنت سے ہونے والی تحقیق اور تخلیق پر اپنا اجارہ قائم کر لیتی ہیں اور انہیں کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ میڈیکل سائنس میں ہونے والی بیش بہا ترقی کے باوجود دنیا کی کثیر آبادی علاج معالجے کی سہولیات سے اس لیے محروم ہے کہ وہ علاج اور دواؤں کی قیمت ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔

اگر ہم ایسا معاشی سماجی نظام تشکیل دیں جو ضروریاتِ زندگی کے لیے بنائی جانے والی اشیاء کو منافع خوری اور دولتمندی کے لیے استعمال کرنے کے بجائے انہیں انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے انسان دوست مقصد کے لیے استعمال میں لائے تو ہم کنزیومر ازم (اشیاء پرستی) سے بھی بچ سکتے ہیں اور سائنس کو بھی انسانی فلاح اور فطرت سے ہم آہنگ رہنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ خرابیاں صرف سوشلسٹ نظام ہی ختم کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments