آتشِ نمرود کے مقام کی سیر


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3b4\"

صاحبو، ہوا یہ کہ کسی سبب سے یہ درویش اور اس کے چند ہمراہی سیر کرنے سلطان روم کے دیس میں پہنچے۔ وہاں ایک اڑن کھٹولے پر سوار ہوئے تو پتہ چلا کہ رخ اس کا ارض کردستان کی طرف ہے جہاں ابراہیمؑ نبی اور ایوبؑ نبی کے آثار ہیں۔ خیر یہ درویش چپکا ہو کر شیشے سے لگ کر بیٹھ رہا اور قدرت کے عجائب کے نظارے کرنے لگا۔ نظارے کرتے کرتے کچھ عجیب سا احساس ہوا جیسے یہ سب کچھ پہلے سے دیکھا بھالا سے ہے۔ درویش نے شیشے سے چپکی ہوئی ناک اس سے الگ کی اور اپنی بیگم کو یہ خبر دی کہ اس سیاحت میں کچھ نیا نہیں ہے۔ سب کچھ دیکھا دیکھا سا لگ رہا ہے۔ تس پر بیگم نے کچھ پریشانی کے عالم میں کہا کہ یہ سب کچھ اس لیے دیکھا دیکھا سا ہے کہ جہاز پچھلے پونے گھنٹے سے عرفہ کے ائیرپورٹ کے اوپر ہی چکر لگا رہا ہے اور بار بار وہی نظارے سامنے نظر آ رہے ہیں۔ پھر اس نے مزید بتایا کہ درویش کی جماعت میں موجود، درود و وظائف میں مشغول ترک خواتین نے بتایا ہے کہ راستہ ڈیڑھ دو گھنٹے کا تھا لیکن سفر کو ڈھائی تین گھنٹے ہو چلے ہیں اور اب وہ اپنی دعاؤں کے زور پر کسی بھی لمحے سالم جہاز کو زمین پر یکلخت گر جانے سے روکنے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ بہرحال، بیگم کو تسلی دلاسہ دے کر دوبارہ باہر کے مناظر دیکھنے شروع کیے۔ واقعی جہاز ایک ہی جگہ چکر کھا رہا تھا۔ خیر اس درویش نے توجہ کرنی شروع کی تو پندرہ بیس منٹ کے بعد ہی خدا نے جہاز کے ناخدا کے دل میں نیکی ڈالی اور اس نے جہاز کو ہوائی اڈے پر اتار دیا۔

جہاز سے اترے تو ایک لق و دق بیابان میں کھڑے تھے۔ دور دور تک آدم نہ ادم کی ذات۔ ہم کہ دیسی ہوائی اڈوں کے عادی تھے، اور ائیرپورٹ سے نکلتے ہی بے شمار ٹیکسی والوں کے ہاتھوں اغوا کیے جانے کی کوشش سے بچنے کے لیے تیار تھے، یہ ویرانی دیکھ کر حیران رہ گئے۔ گمان ہوا کہ اس بیابان میں اب اونٹوں کا قافلہ بنا کر شہر تک جانا ہو گا لیکن خوش قسمتی سے ایک اکلوتی بس وہاں موجود تھی۔ کچھ آگے چلے تو کھیت کھلیان نظر آنے لگے۔ راہنما نے بتایا کہ پہلے یہ علاقہ اجاڑ تھا لیکن پھر وہاں ترکی کا سب سے بڑا اتاترک ڈیم بن گیا ہے تو آہستہ آہستہ رقبہ زیرکاشت لایا جانے لگا ہے۔ کچھ دیر میں شان لا عرفہ نامی شہر میں پہنچے اور بس نے ایک عالیشان سرائے پر جا اتارا۔ کمرے میں جا کر پردہ ہٹایا تو سامنے ہی ایک ہیبت ناک پہاڑ اور اس کی چوٹی پر بنے دو ستون نظر آئے۔ پہاڑ کے دامن میں ایک مسجد تھی۔ نظر مسجد سے ہوتے ہوتے آہستہ آہستہ اپنی سرائے کے سامنے موجود سڑک پر پہنچی تو وہاں کچھ حیران پریشان سے لوگوں کا ایک قافلہ پہاڑ کی طرف جاتے دکھائی دیا۔ دیکھ کر اس درویش کو لطف آیا کہ یہ لوگ بلاوجہ کیسی پریشانی میں چلے جا رہے ہیں، پہاڑ کون سا کہیں دوڑا جا رہا ہے جو یہ بھاگے جا رہے ہیں۔ نظارے سے لطف اٹھانے کے لیے بیگم کو بلا کر دکھایا کہ یہ لوگ بلاوجہ پریشان پھر رہے ہیں، شاید یہاں اجنبی ہیں۔ اس نیک بخت نے ان لوگوں کو دیکھا اور ایک چیخ ماری۔ معلوم ہوا کہ وہ ہمارے ہی ہمراہی تھے جو ہمیں چھوڑ کر اکیلے ہی پہاڑ سر کرنے نکل کھڑے ہوئے تھے۔

\"1b\"

ہبڑ تبڑ میں ان کو جا پکڑا۔ معلوم ہوا کہ یہ ایک مقدس پہاڑ ہے۔ سامنے جو دو ستون نظر آ رہے ہیں، یہ وہ مقام ہے جہاں سے نمرود نے حضرت ابراہیمؑ کو نیچے پہاڑ کے دامن میں آگ کے الاؤ میں پھینک دیا تھا۔ پہاڑ پر چڑھے اور ستونوں سے کچھ نیچے رک کر راہنما کا بیان سنا۔ معلوم ہوا کہ ستون ایک قلعے میں ہیں اور قلعہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے ایک کماندار نے بنایا تھا۔ ستونوں تک پہنچنے کے لیے راہنما نے آگے بڑھنا شروع کیا ہی تھا کہ تنگ راہ سے واپس آنے والے ایک شخص نے ترکی یا کردی یا کسی ایسی سی ہی جناتی زبان میں راہنما سے گفتگو کی۔ سب اہل قافلہ نے نہایت توجہ سے اس گفتگو کا ایک ایک لفظ سنا اور پھر جب راہنما الٹے قدموں پھر گیا تو ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ کیا ماجرا ہے، یہ شخص کیا کہہ رہا ہے اور کس زبان میں بات کر رہا ہے۔ لیکن معلوم ہوا کہ سب کے لیے وہ زبان اجنبی تھی۔ آخر درویش نے راہنما سے دریافت کیا کہ کیا پریشانی ہے۔ تس پر وہ مردک بولا کہ یہ اجنبی جو ابھی ملا ہے، ستونوں تک پہنچنے کا خواہاں تھا۔ ایک تنگ موڑ پر اس کو ایک ناگ سیاہ ملا جو پھن کاڑھے راستہ روکے کھڑا تھا۔ قافلے میں کوئی سپیرا ہو تو فبہا، ورنہ اب واپسی میں ہی عافیت ہے۔ اس درویش نے قافلے کے ساتھیوں سے یہ دریافت کرنا مناسب نہ جانا کہ ان میں سے کوئی ذات کا سپیرا یا اچھا دھاری ناگ ہے یا نہیں جو کہ اس سانپ کو راستے سے ہٹنے پر رضامند کر سکے، اور چپ چاپ واپسی کا سفر اختیار کیا۔

\"2b\"

نیچے پہنچے۔ ایک تالاب میں دو ڈھائی فٹ لمبی گہرے سرمئی رنگ کی مچھلیاں تیر رہی تھیں۔ راہنما کچھ دیر ان کو دیکھتا رہا اور پھر یوں گویا ہوا: یہ پانی اور مچھلیاں جو آپ دیکھ رہے ہیں، ان کی ایک عجیب داستان ہے۔ کہتے ہیں کہ نمرود مردود نے آگ کا ایک بڑا الاؤ دہکایا، اور پھر حضرت ابراہیمؑ کو اس میں کئی سو فٹ اونچائی سے ان دو ستونوں کے بیچ سے پہاڑ سے نیچے پھینک دیا۔ حضرت ابراہیم کو دیکھتے ہی گرم آگ ٹھنڈے پانی میں تبدیل ہو گئی اور لکڑیوں کی مچھلیاں بن گئیں۔ سب اہل قافلہ نے اب نئے سرے سے مچھلیوں اور پانی پر حیرت کی نگاہ کی۔ راہنما نے مزید بتایا کہ یہ مچھلیاں نہ کبھی بڑھتی ہیں اور نہ کبھی گھٹتی ہیں، اور ان کی تعداد یہی رہتی ہے۔

تس پر یہ درویش حیران ہوا کہ ایک مسلمان ملک میں گوشت، اور وہ بھی ایسا گوشت جو کہ لذیذ دکھ رہا ہو اور محض دو چار فٹ گہرے پانی میں ہو کہ جس کا دل کرے ہاتھ بڑھا کر اٹھائے اور لقمہ تر بنائے، کیسے بچ گیا ہے؟ وہ راہنما مسکرایا اور بولا کہ بڑے بوڑھوں سے روایت ہے کہ جو شخص بھی اس مچھلی کو کھاتا ہے، آنجہانی ہو جاتا ہے۔ اس لیے یہ مچھلی صرف دشمنوں کو ہی کھلائی جا سکتی ہے۔ اس پر قافلے میں شامل ایک خاتون کہ جہاندیدہ دکھتی تھی، تالاب کے نزدیک ہوئی اور کچھ دیر مچھلیوں کو نہایت غور سے دیکھنے کے بعد یوں گویا ہوئی “کاش میں اپنے سسرالی عزیزوں کو، کہ وہ تلی ہوئی مچھلی کے شوقین ہیں، پیٹ بھر کر یہ مچھلیاں کھلا سکتی”۔

\"3b\"

آگے چل کر مسجد میں داخل ہوئے۔ مسجد میں ایک فلٹر لگا ہوا تھا جس سے تالاب کا پانی پینے کا بندوبست تھا۔ معلوم ہوا کہ علم کیمیا کے حکما نے اس پانی کا تجزیہ کر کے حکم لگایا ہے کہ اس کی تاثیر و ترکیب بعینہ آب زم زم کی سی ہے۔ لیکن پینے کے آداب میں یہ شامل ہے کہ اسے بیٹھ کر نوش جاں کیا جائے۔

چند قدحے چڑھائے اور پھر آگے چلے۔ قریب ہی ایک دوسری عمارت تھی۔ اس کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہاں ایک پانی میں ڈوبا ہوا غار ہے جو کہ حضرت ابراہیم کی جائے پیدائش بیان کیا جاتا ہے۔ درویش نے زیارت کی اور تعجب کیا۔

\"4b\"اگلے دن قصد عرفہ میں ہی ایک اور جگہ کا ہوا۔ ایک مسجد میں پہنچے۔ صحن میں ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ ایک کنواں، اور ایک مسجد۔ معلوم ہوا کہ اس کمرے میں سیڑھیاں ہیں جو کہ نیچے ایک غار تک لے جاتی ہیں۔ اور غار وہ ہے جس میں حضرت ایوبؑ نے اپنی بیماری کے سات سال گزارے تھے اور پھر خدا کے حکم سے انہوں نے زمین پر اپنا پاوں مارا تھا تو ایک چشمہ جاری ہوا تھا جس کے پانی سے انہیں شفا نصیب ہوئی تھی اور پھر خدا کی رحمت سے ان کو پہلے سے کہیں زیادہ مال و دولت اور اولاد نصیب ہوئی تھی۔ اس پانی کے پینے کے لیے ایک کولر نما ٹونٹی لگی ہوئی تھی جس سے زائرین خوب پانی پی رہے تھے کہ روایت تھی کہ اس پانی میں ہر بیماری کے لیے شفا ہے۔ سب اہل قافلہ نے وہاں خوب پانی پیا۔

وہاں سے بس میں لاد کر سب کو ایک قدیم سرائے میں لے جایا گیا۔ چاروں طرف کمرے تھے اور بیچ میں صحن میں سب کو چائے اور ایک خاص قسم کی کافی پیش کی گئی جو کہ عرفہ سے مخصوص ہے۔ اس کا ذائقہ کچھ جانا پہچانا سا لگ رہا تھا۔ اس درویش نے دماغ پر خوب زور دیا لیکن سمجھ نہیں آیا کہ یہ کس چیز کا ذائقہ ہے۔ تھک ہار کر اس درویش نے سوچا کہ آج شاید دماغ ستو پینے چلا گیا ہے، کچھ یاد ہی نہیں آ رہا ہے۔ یہ سوچنا تھا کہ یاد آیا کہ یہ ستوؤں کا ذائقہ ہے۔ تعجب ہوا کہ ان کردوں نے کافی میں ستو کا ذائقہ کیسے پیدا کیا ہے۔

وہیں راہنما نے داستان چھیڑی۔ بیان کرنے لگا کہ جنگ آزادی سے پہلے اس شہر کا نام عرفہ تھا۔ پھر ایسا ہوا کہ پہلی جنگ عظیم میں ترکی پر چار اطراف سے پانچ دشمن چڑھ دوڑے۔ فرانس کی فوجیں شام کے صوبے کو روندتی ہوئی عرفہ تک آ پہنچیں۔ وہاں عثمانیوں کی فوج موجود نہیں تھی۔ مخبروں نے خبر دی کہ دشمن چڑھے آ رہے ہیں۔ شہر والوں نے چنداں پروا نہیں کی۔ مخبر پھر آئے اور بولے کہ دشمن نزدیک آ پہنچے ہیں۔ پانچ میل دور ہی ہیں۔ شہر والے پھر بھی ستو والی کافی پیتے رہے اور بولے کہ ہمارا جنگ سے کیا لینا دینا۔ ہم امن پسند لوگ ہیں۔ کسان مزدور ہیں۔ جنگ کرنا تو سپاہ سلطان کا کام ہے۔ ہمیں کیا فرق پڑتا ہے کہ بادشاہ کون بنتا ہے۔ کچھ دیر میں مخبر پھر آئے اور بولے کہ فوج شہر سے تین میل دور پہنچ گئی ہے، اور اب ہمارے سرخ مرچوں کے کھیتوں کو روندتی ہوئی گزر رہی ہے۔ یہ سنتے ہی ایک بزرگ کے ہاتھ سے ستو کافی کی پیالی گر گئی اور وہ چلا اٹھا “کیا کہا، وہ ہمارے مرچوں کے کھیتوں سے گزر رہی ہے؟ اس طرح تو مرچوں کی ساری فصل تباہ ہو جائے گی۔ ہم کیا کھائیں گے؟”۔ یہ آواز سن کر چہار طرف خاموشی کا غلبہ ہوا۔ پھر ایک کمزور سی آواز ابھری “کیا اس سال ہمیں لال مرچوں کے بغیر کھانا ملے گا؟”۔

بیان کیا جاتا ہے کہ شہر کا شہر عالم غضب میں اٹھ کھڑا ہوا۔ جس کے ہاتھ بندوق لگی، بندوق لے کر آیا، جس کو بیلچہ ملا، اسی کو تھام لیا۔ کسی نے ڈنڈا اٹھایا اور کسی کو اور کچھ نہ ملا تو پتھروں سے جھولی بھر لایا۔ پھر جو گھمسان کا رن پڑا تو فرانسیسی فوج جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہونے کے باوجود اس بے قاعدہ عوامی دفاع کو توڑ نہ پائی۔ اور شکست کھا کر واپس ہوئی۔ اس فتح کی خبر کمال اتاترک کو پہنچی تو انہوں نے عرفہ کا نام بدل دیا، اور اسے شان لا عرفہ کا نام دیا۔ شان والا عرفہ۔

اس درویش نے قصہ سنا اور تعجب کیا کہ تاریخ عالم میں سرخ مرچ کے ہاتھوں کسی فاتح لشکر کے شکست خوردہ ہونے کی یہ پہلی روایت تھی۔

نوٹ: پیغمبروں کے آثار کے بارے میں مقامی روایات بیان کی گئی ہیں۔ حقیقت صرف اللہ ہی جانتا ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments