بچھڑے ہوؤں کی یاد میں!


میری بیوی کوشش کرتی ہے کہ صحن میں پڑے چڑیوں کے برتن دانے اور پانی سے بھرے رہیں۔

پرندوں سے انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ پرندے دانا دنکا ذخیرہ نہیں کرتے۔ بال بچوں کی پرورش کرتے ہیں مگر ان کی فکر میں غرق خود کو خُدا نہیں سمجھ بیٹھتے۔ پرندوں کی اکثریت کو سدھانا ناممکن ہے۔ آزاد فضاؤں کی اس مخلوق کا جسم تو قید کیا جاسکتا ہے، تاہم ان کی روحیں کھلے آسمان میں محو پرواز رہتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ پرندوں کو آزاد کردیا جائے تو و ہ پنجرے کے فرش پہ گرا بچا کھچا دانا سمیٹنے کے لئے واپس نہیں پلٹتے!

میری والدہ کو پالتو جانوروں بالخصوص بلیوں سے بھی خاص اُنسیت تھی۔

1992 میں شادی کے فوراً بعد راولپنڈی میں ملنے والے پہلے گھر میں ہم نے بھی ’ٹفی‘ نام کی ایک سفید روسی النسل کتیا پالی۔ ’ٹفی‘ جسامت میں نہایت چھوٹی، طبعاً خاموش اور نرم خو تھی۔ اگر اس کے گلے میں چھوٹی سے گھنٹی بندھی نہ ہوتی تو گھر میں اس کے خفیف وجود کا پتا ہی نا چلتا۔ اتوار کی ایک صبح، میں بیدار ہو کر گھر کے ٹیرس پر نکلا تو گھر کے بیرونی دروازے پر عجب منظر دیکھا۔ ’ٹفی‘ گھر کے اندر پورچ میں اطمینان سے نیم دراز تھی جبکہ گیٹ کے باہر کھلی پہاڑی ڈھلان پرتا حد نگاہ انواح واقسام کتوں کا لشکر پڑاؤ ڈالے اونگھ رہا تھا۔

دوپہر گئے خاصے تردد کے ساتھ علاقہ دراندازوں سے خالی کروایا گیا۔ راولپنڈی سے نوشہرہ پوسٹنگ کے بعد میں نے ’ٹفی‘ کواس امید کے ساتھ اپنی سابقہ یونٹ میں ایک عمر رسیدہ باریش ملازم کے حوالے کیا کہ نوشہرہ میں گھر ملتے ہی ’ٹفی‘ کو لے جاؤں گا۔ کچھ عرصہ بعد گھر ملا تو میں ’ٹفی‘ کو لینے آیا۔ معلوم ہوا بزرگ نوکری چھوڑ کر جا چکے اور ’ٹفی‘ کو بھی ساتھ لے گئے۔ وہ ’ٹفی‘ جسے درجنوں کتے مل کر نہ ورغلا سکے، اُسے بابا جی لے جانے میں کامیاب ہوگئے۔ مجھے ان کی اس حرکت پر غصہ تو بہت آیا تاہم میں ’ٹفی‘ سے محبت کے رشتے کی بنا پر خاموش رہا۔

1999 میں میرے بڑے بھائی کرنل ندیم جوان دنوں کوہاٹ میں متعین تھے، اپنی جرمن شیفرڈ ’لیسی‘ کی حرکتوں سے اُکتا کر اس سے جان خلاصی پر آمادہ تھے۔ مجھے معلوم پڑا تو میں نے انہی ’لیسی‘ کو میرے پاس سیالکوٹ کینٹ بھیجنے کی فرمائش کی جو انہوں نے بلاتاخیر مان لی۔ چند روز کے بعد تنو مند و متحرک ’لیسی‘ ہمارے پاس تھی۔ ’لیسی‘ کے چہرے پر کرختگی اور جسمانی ساخت میں اکھڑ مردانہ پن تھا۔ ہروقت بلند آہنگ بھونکتی رہتی۔

چنانچہ جلد ہی ہمسائے اس کے مسلسل شور سے تنگ آگئے۔ اُدھر کچھ ہی روز میں ’لیسی‘ اپنے مزاج میں موجود تمام تر طیش و ترشی کے باوجود ہمارے ساتھ اس طرح مانوس ہوگئی کہ گویا ہمارے ہاتھوں پلی بڑی ہو۔ میری بیوی اگرچہ آخری دن تک اس کے پاس پھٹکنے کا حوصلہ پیدا نہ کرسکی تاہم ہمارے بچے ’لیسی‘ کے ساتھ اس قدرگھل مل گئے کہ کھیلتے کودتے کبھی کبھی ’لیسی‘ کے چہرے پر طاری دائمی کر ختگی میں نا صرف نمایاں کمی آجاتی بلکہ بسا اوقات تو یوں محسوس ہوتا جیسے وہ ہلکے ہلکے مسکرا رہی ہو۔

میری گھر آمدورفت پر بیرونی گیٹ کھلتا اور بند ہوتا تو ’لیسی‘ کا شور پاگل پن میں بدل جاتا۔ ایک سہ پہرمیں معمول سے ہٹ کر جیپ میں سوار گھر سے نکلا تو جیپ کے پورچ سے نکلتے ہی اوپر ٹیرس پر بھونکتی ’لیسی‘ نے آؤ دیکھا نہ تاؤ نیچے چھلانگ لگا دی۔ پختہ فرش پردھڑام گری تو کئی روز لنگڑاتی رہی۔ اس دوران میں محلے داروں کی دبی دبی شکایات سے تنگ آچکا تھا کہ ایک دن ’لیسی‘ نے گیٹ بند کرتے ہوئے میرے اردلی کی ٹانگ کو کاٹ کھایا۔ اگلے دن ہی میں نے اُسے اپنے ایک یونٹ افسر کے حوالے کیا جو کافی عرصے سے اپنے گاؤں کے گھر کے لئے کتا ڈھونڈ رہا تھا۔ ’لیسی‘ پر تمام تر غصہ کے باوجود جب وہ گاؤں جانے کے لئے روانہ ہوئی تو میرا دل بھر آیا۔

کچھ عرصہ بعد کوہاٹ میں ایک بار پھر کسی نے مجھے ایک سفید رُوسی کتیا عنایت کی، جس کا نام بچوں نے ایک بار پھر ’ٹفی‘ رکھا۔ موصوفہ حاملہ تھیں۔ ہمارے پاس آمد کے چند روزبعد ہی ’ٹفی‘ نے گہری براؤن رنگت اور خدوخال میں بل ٹیریئیر سے مشابہہ پِلّے کو جنم دیا، جو محلے کے بچوں کی تفریح کا سبب بن گیا اور جس کا نام انہوں نے اس کی غیر معمولی طور پر چھوٹی جسامت کی وجہ سے ’بگ شو‘ رکھ دیا۔ روزانہ سہ پہر گلی کے بچے سائیکلوں پر نکلتے، سائیکلیں ہمارے گھر کے گیٹ کے سامنے لٹاتے اور خود گھر کے لان کے ایک کونے میں زچہ وبچہ کے لئے نو تعمیر شدہ گھر کے سامنے پڑے ’بگ شو‘ کے سامنے اوندھے منہ لیٹ جاتے۔

بچے اُس کا نام پکارتے تو ’بگ شو‘ اپنے چھوٹے چھوٹے دانت نکال کر غراتا۔ سارے بچے تالیاں بجاتے۔ ’بگ شو‘ ہمارے ساتھ کچھ دن ہی رہا۔ ایک سال بعد کوہاٹ سے راولپنڈی پوسٹنگ ہوئی تو نئے گھر میں چند ہی روز بعد ’ٹفی‘ اچانک غائب ہوگئی۔ ایک عرصہ تک لالہ زارکی سڑکوں سے گزرتے ہوئے بچوں کو کارکی کھڑکیوں سے کوئی سفید روسی کتا نظر آتا تو ’ٹفی، ٹفی‘ کاشور مچانے لگتے۔

کچھ سال بعد، منگلا کینٹ میں کرنل عمران اللہ نے اپنی سیامی بلیوں کے جوڑے کے نوزائیدہ بچوں میں سے ایک مجھے تخفتاً دیا، جس کا نام ہم نے ’دُودی‘ رکھا۔ عرصہ تک ہم ’دُودی‘ کو مادہ سمجھتے رہے۔ تاہم مادہ بلیوں کی سرشت کے عین خلاف ’دُودی‘ ہوش سنبھالتے ہی گھر کے عقبی لان میں دانا چگتی، اپنے وجود سے دس گنا بڑی مرغیوں کی گھات میں پایا گیا۔ چند ایک اور حرکات کی بنا پر اس کے مردانہ اوصاف مزید واشگاف ہوتے چلے گئے۔

’دُودی‘ کی ہمرا ہی کے لئے لاہور سے میری کزن صومیہ نے اسی نسل کی ایک بلی بھیج دی، جس کا نام ہم نے ’کیارا‘ رکھا۔ چند ماہ میں دونوں کے ہاں نصف درجن بلونگڑوں کی آمد ہوئی اور سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔ ’دُودی‘ کے کنبے پر قیامت اس وقت ٹوٹی جب ہماری پوسٹنگ کوئٹہ ہوگئی۔ سامان سے لدے ٹریلر کے نیچے لٹکتے خصوصی طور پر تیار کردہ پنجرے میں دونوں بلیوں کو ڈال کر روانہ کرتے ہی ہم بذریعہ ہوائی جہاز کوئٹہ پہنچے تو معلوم ہواکہ ’کیارا‘ تو راستے میں موقع پا کر نکل گئی اور میلوں کا سفر طے کرکے واپس ہمارے پرانے گھر پہنچ چکی ہے۔ ’دُودی‘ البتہ اپنے رکھ رکھاؤ کی وجہ سے مارا گیا، اور اب کوئٹہ کے نومبر کی سردی میں پڑا کانپ رہا تھا۔ دو سال ’دُودی‘ ہمارے ساتھ کوئٹہ رہا۔ نئے بچے پیدا کیے۔ گھر کے وسیع وعریض لان میں مقامی بلوں سے مار دھاڑ کے بعد علاقے میں اپنی دھاک بٹھا چکا تھا۔ ’دُودی‘ طبعاً مغرور بلاِّ تھا۔

کوئٹہ قیام کے آخری دنوں میں بریگیڈیئر ظفر نے میرے بیٹے حمزہ کو اعلیٰ نسل کا جرمن شیفرڈ ِپلاّ دیا۔ کوئٹہ سے راولپنڈی پوسٹنگ ہونے پر ہم ’دُودی‘ اور چند ہفتوں کے ’ڈُوما‘ کو لے کر پریڈ لین میں اپنے تیسری منزل پر واقع فلیٹ میں آن آباد ہوئے۔ یہ اس دور کا آغاز تھا جب چند ہی روز میں، میں نے مستقل سکونت تک کوئی بھی پالتو جانور گھر میں نہ رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ فلیٹ میں گنجائش کم ہونے کی بنا پر ہم نے ’دُودی‘ کو عاریتاً آرمی ڈاگ سنٹر میں چھوڑا۔ چند دن بعد جب میں اور بچے اس سے ملنے گئے، تو طبعاً نک چڑھا اور مغرور ’دُودی‘ میاؤں میاؤں کرتا ہماری طرف لپکا۔ میں اس دن کے بعد ’دُودی‘ سے ملنے ڈاگ سنٹر نہیں گیا۔ اس دوران ’دُودی‘ کی حالت دگردوں ہوگئی تو بچوں نے اس خیال سے اسے اپنے ایک دوست کو دے دیا کہ کم ازکم کُھلے گھر میں تو رہے گا۔

اس دوران ہماری زیادہ تر توجہ نوجوان ’ڈُوما‘ پر مرکوز رہی۔ ہمارے ہاتھوں پلا بڑھا۔ راولپنڈی کے پریڈ لین میں اور بھی اعلیٰ نسل کے کتے تھے، تاہم ’ڈُوما‘ اپنی حرکتوں کی وجہ سے محلے کے تمام بچوں میں یکساں طور پر ہر دلعزیز تھا۔ اڑتی چڑیوں، گیند یا کسی بھی اُچھالی گئی چیز کو پکڑنا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ وقت پر کھانا سامنے رکھے جانے کے باوجود اس وقت تک بیٹھا رال ٹپکاتا رہتا، جب تک ٹوٹ پڑنے کا اشارہ نہ ملتا۔

حمزہ کے آسٹریلیا اور عمر کے پی ایم اے کاکول چلے جانے کے بعد میرے اور میرے اردلی کے لئے تین منزلیں اُتر کر ’ڈُوما‘ کی دیکھ بھال کا معاملہ مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا گیا۔ چنانچہ ایک دن میں نے ’ڈُوما‘ کو منگلہ میں اپنے ایک دوست کے ہاں بھیج دیا۔ ’ڈُوما‘ کی رخصت کے وقت اداسی کے لمحات میں میں خوش تھا کہ کم ازکم وہ کھلے لان میں چڑیوں کے پیچھے بھاگ سکے گا۔ پریڈ لین میں اس کا کمرہ گرمیوں میں تپ کر تندرو بن جاتا تھا۔

میرے بچپن میں والد صاحب کی ملازمت کے سلسلے میں ہمارا کنبہ عارضی طور پر گوجرانوالہ کے نواح میں واقع ایک گاؤں میں رہائش پذیر تھا کہ ایک روز ایک شدید خارش زدہ آوارہ کتا لڑکھڑاتا ہوا ہمارے دروازے پر آن ڈھیر ہوا۔ والدہ اس کی حالت پر رحم کھاتے ہوئے روزانہ اسے ہلدی ملا دودھ ڈالتیں۔ چند روز میں اس کی جِلد صحت مند ہوکر چمکنے لگی۔ ہم نے اس کا نام ’سٹوُڈا‘ رکھا۔ کچھ ماہ بعد گاؤں سے گوجرانوالہ شہر میں اپنے آبائی گھر منتقل ہوئے تو ’سٹوُڈا‘ ہمارے پیچھے پیچھے ہولیا۔

غیر معمولی طور پر عبادت گزار ہماری دادی محترمہ کو گھر میں ’سٹوڈا‘ کا داخلہ بے حد ناگوار تھا۔ چنانچہ وہ سارا دن بیرونی ڈیوڑھی میں پڑا اونگھتا رہتا۔ تاہم جب بھی ہمارے ہم عمر محلے کے بچے ہمارے صحن میں کھیل کود کے لئے جمع ہوتے تو اونگھتا ہوا ’سٹوُڈا‘ یک دم ہمارے بیچ گھس آتا، اور دُم اکڑائے پورے شدومد سے ’پکڑن پکڑائی‘ میں شامل ہو جاتا۔

واقعاتی طور پر مجھے ’سٹوڈا‘ کا ذکر سب سے پہلے کرنا چاہیے تھا، تاہم میں نے اس کاتذکرہ بوجہ موخر رکھا ہے۔ وطن عزیز میں کئی عالی نسب خاندان ملک پر حق حکمرانی کادائمی دعویٰ رکھتے ہیں۔ پاکستان نے جہاں ہم جیسے عامیوں کوہرنعمت کے ساتھ سہولت میں پالا، وہیں ان شہزادوں اور شہزادیوں کو شہرت، بے حساب دولت اور نسل در نسل اقتدار سے نوازا۔ بدلے میں ہم سب نے کیا لوٹایا؟ ’سٹوُڈا‘ ایک عامی، آوارہ جانور ہونے کے باوجود، احسان فراموش نہیں تھا۔ چنانچہ بچھڑے ہوؤں کی یاد میں لکھے گئے اس مضمون کا اختتام میں ’سٹوُڈا‘ کے لئے محبت اور خاص احترام کے ساتھ کرنا چاہتا ہوں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).