محکمہ قانون و پارلیمانی امور کی آسامیاں اور طریقہ کار


مورخہ 7 جولائی کو قومی روزنامہ اخبارات میں صوبائی محکمہ قانون و پارلیمانی امور نے اپنی آسامیاں پر ُ کرنے کے لئے ہمیشہ کی طرح بذریعہ پنجاب پبلک سروس کمیشن ایک اشتہار دیا ہے۔ اِس اشتہار کے مطابق جن آسامیوں کا اعلان کیا گیاہے اُن میں اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ اٹارنی، ڈپٹی ڈائریکٹر (ایڈوائزری ونگ) ، ڈپٹی سولیسٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر ( قانون و پارلیمانی امور) شامل ہیں۔

اعلان کردہ آسامیوں پر نوجوان وکلاءاور قانون کی ڈگری رکھنے والوں کی بڑی تعداد پنجاب پبلک سروس کمیشن کے تحت ہو نیوالے امتحان میں حصہّ لینے کی خواہش مند ہے مگرمحکمہ قانون و پارلیمانی امور نے اِن آسامیوں کو پرُ کرنے کے لئے قانون کی بنیادی ڈگری ایل ایل بی کے ساتھ کل میزان کی حد پچاس فیصد ( 50 % Aggregate Marks) مقرر کی گئی ہے جوکہ عمومی طور پر نا انصافی کے مترادف ہے۔

دراصل پچھلے کئی سالوں سے ایل ایل بی کی ڈگری پارٹ اور سمسٹرسسٹم کے تحت تین سال میں مکمل ہوتی تھی لہٰذا صوبہ بھر کی تمام یونیورسٹوں کے امیدواروں کو کسی بھی پرچے میں کامیابی کے لئے پنتالیس فیصد اور کل میزان بھی پنتالیس فیصد ( 45 % Aggregate Marks) ہی درکار ہوتا تھا اور ماسوائے چند ایک یونیورسٹوں کے باقی تمام یونیورسٹوں میں اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے جبکہ سپریم کورٹ کے اعلان کے بعد ایل ایل بی کی ڈگری اب تین سال بجائے پانچ سالہ تعلیم کے بعد مکمل ہوگی۔ رولز میں تبدیلی کرنیوالی یونیورسٹوں نے تقریباً تین سال قبل ایل ایل بی کے امیدواروں کے لئے کسی ایک امتحان میں پاس ہونے کی حد پنتالیس فیصد لیکن تمام امتحانات میں پاس ہونے کے لئے کل میزان کی حد پچاس فیصد مقرر کردی ہے۔

دوسری طرف اگرکچھ عرصہ قبل پنجاب پبلک سروس کمیشن کے تحت تقرری مکمل کی جانے والی محکمہ پبلک پراسیکیوشن کی آسامیوں کا موزانہ محکمہ قانون و پارلیمانی امورکی آسامیوں سے کریں تو صورتحال انتہائی واضح ہوجاتی ہے۔ تنخواہ، مراعات اور ”پے سکیل ’‘ برابر ہونے کے باوجود سیکنڈ ڈویژن قانون کی ڈگری کے حامل امیدوار کے لئے الگ الگ شرائط رکھی گئی ہیں۔ ویسے بھی اب وہ وقت نہیں رہا جب کسی امتحان میں پاس ہونے کے لئے 33 % نمبروں کی ضرورت ہوا کرتی تھی اور تھرڈ ڈویژن امیدواربھی پاس ہوکر اعلیٰ عہدوں پر فائض ہوجاتے تھے۔

میری ذاتی رائے میں محکمہ قانون و پارلیمانی امور کو اپنی آسامیاں پرُ کرنے کے طریقہ کار پر نظر ثانی کرتے ہوئے کل میزان کی حد پچاس فیصد ( 50 % Aggregate Marks) ختم کردینی چاہیے جبکہ باقی شرائط جن میں عمر کی حد اور تجربہ شامل ہیں میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ چند سال قبل جب ایل ایل بی کے امتحانات میں معروضی حصہ شامل نہیں تھا اور صرف سوالیہ حصہ ہی حل کرنا ہوتا تھا تو اُس وقت امیدواروں کی اکثریت پنتالیس سے پچاس فیصدکے درمیان نمبرحاصل کر کے ہی کامیاب ہوا کرتی تھی اور پچاس فیصد یا اُس سے زائد نمبرحاصل کرنا بہت مشکل تصور کیا جاتا تھا جس کی ایک خاص وجہ پرچوں کی سخت مارکنگ بھی تھی لیکن گذشتہ تین چار سال سے معروضی حصہ آنے کے بعد سے ایل ایل بی کے امتحانات میں پچاس فیصد یا اُس سے زیادہ نمبروں سے کامیابی حاصل کرنا ممکن ہوگیا ہے۔

آخر میں، میں اُمید کرتا ہوں کہ محکمہ قانون و پارلیمانی امورکے ارباب اختیار میری تجویز کے مطابق اپنی آسامیاں پرُ کرنے کے طریقہ کار پر نظر ثانی کرتے ہوئے اُسے محکمہ پبلک پراسیکیوشن کے مطابق کردیں تاکہ مزید تجربہ کار امیدواروں کو اپنی قسمت آزمانے کا موقع مل سکیں ویسے بھی قانون کی ڈگری کے حامل امیدواروں سے پنجاب پبلک سروس کمیشن نے آسامیاں پرُ کرنے کے لئے ابھی امتحان لینا ہے جس کی بعد اُن کی کامیابی یا ناکامی کا اعلان کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).