شکور بھائی چشمے والے، ٹرمپ اور قادیانی کارڈ


کچھ مہینے گزرتے ہیں اور ہمارے پاکستانی  ہم وطنوں کو پھر سے اپنے اجماعی و متفقہ عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت کے لئے فیس بک کی راہوں پر لٹھ لے کر بھاگنا دوڑنا پڑتا ہے۔

کہانی کچھ یوں ہوئی کہ کچھ سال پہلے پنجاب پولیس نے ربوہ شہر میں اسی سالہ شکور بھائی چشمے والے کی دکان پر ریڈ کر کے “ممنوعہ لٹریچر” رکھنے کے الزام میں انہیں گرفتار کر کے تعزیراتِ پاکستان کے دفعہ دو سو اٹھانوے سی کے تحت مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے، احمدیت کی تبلیغ کرنے اور نیپ کے تحت دہشت گردی کی دفعہ گیارہ ڈبلیو میں ممنوعہ لٹریچر کو چھاپنے اور بیچنے کا مقدمہ دائر کر دیا۔ ریڈ کے وقت علامہ طاہر اشرفی کے بھائی (غالباً حسن معاویہ نام ہے) بھی پولیس کے ساتھ موجود تھے جو کہ احمدیوں پر اس طرح کے مقدمات کروانے کے لئے شہرت رکھتے ہیں۔ شکور بھائی پر مقدمہ چلا اور انہیں ان دفعات کے تحت تین اور پانچ سال کی سزا سنا دی گئی۔

جس ممنوعہ لٹریچر پر سزا سنائی گئی اس کی لسٹ ہائی کورٹ اپیل کے فیصلے سے ملاحظہ ہو:

1- تفسیرِ صغیر (اردو ترجمہ قران از مرزا بشیر الدین محمود احمدصاحب، جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ)

2- اردو ترجمہ قران از مرزا طاہر احمد صاحب (جماعت احمدیہ کے چوتھے خلیفہ)

3- اردو لفظی ترجمہ قران از میر محمد اسحاق صاحب

4- کشتی نوح از مرزا غلام احمد صاحب (بانی جماعت احمدیہ)

5- تذکرۃ المہدی

6- روزنامہ الفضل

7- ماہنامہ مصباح

دو ہزار دس کے جس نوٹیفیکیشن کا حوالہ دیا گیا کہ یہ لٹریچر اس کے تحت ممنوعہ ہے، اس نوٹیفیکیشن میں سوائے الفضل اور مصباح کے ان میں سے کسی اور کتاب یا ترجمہ قران کا نام نہیں۔ روزنامہ اور ماہنامہ جو کہ ویسے ہی حکومت کی اجازت سے نکلتے ہیں، اس کے کسی خاص ایشو کو بین کرنے کی بجائے پچھلی اگلی سب اشاعتوں کو بین کر دینے میں جتنی عقلمندی ہے وہ اظہرمن الشمس ہے۔ جب نوٹیفیکشن میں نام نہ ہونا ہائی کورٹ میں زیر بحث آیا تو فیصلے کا لب لباب یہ ہے کہ تو کیا فرق پڑتا ہے، کچھ کتابیں تو ہیں نا جو برآمد ہوئیں ہیں جن کے نام نوٹیفیکیشن میں ہیں۔ بس رہے نام اللہ کا۔

لٹریچر تو خیر بہانہ تھا، بدنیتی اس بات سے ہی ظاہر ہے کہ تین ساڑھے تین سال کے اس عرصے میں لاتعداد تاریخیں دے کر اس کیس کو دانستہ طور پر التوا میں رکھا گیا۔ احمدیوں کے اکثریتی شہر میں احمدیوں کو قران اور کتابیں بیچنے سے عامۃ المسلمین کے جذبات کیسے مجروح ہو جاتے ہیں یہ راز ابھی تک طشت از بام نہیں ہوا۔ اگر یہی کرنا ہے تو مسلمانوں کے جذبات تو احمدیوں کے سانس لینے سے بھی مجروح ہو جاتے ہیں، اب کیا احمدی سانس لینا بھی چھوڑ دیں؟ یا سب احمدیوں کو جیل میں ڈال دیا جائے؟ خیر، ہائی کورٹ نے شکور بھائی کی اپیل خارج کر دی مگر ساتھ ہی سزا پوری ہونے کا عندیہ دے دیا جس کی وجہ سے شکور بھائی رہا ہوگئے۔

ظلم کی بات یہ کہ شکور بھائی کےایک ملازم، جو کہ شیعہ ہیں، بھی ساتھ ہی گرفتار کئے گئے ان کو بھی پانچ سال کی قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

امریکا کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے مذہبی آزادی کو فروغ دینے اور مذہبی ایذارسانی کی سچی کہانیاں دنیا کے ساتھ شئیر کرنے کیلئے انیس ملکوں سے تیس لوگوں کو دعوت دی گئی۔ اس میں مختلف ملکوں سے تیرہ عیسائی، چین اور برما سے مسلمان، بنگلہ دیش سے ہندو، افغانستان سے ہزارہ شیعہ، عراق سے یزیدی، ایران سے یہودی اور بہائی، پاکستان سے عبدالشکور احمدی اور شان تاثیر (سلمان تاثیر کے بیٹے) اور باقی ملکوں سے کچھ لوگ اور شامل تھے۔ ان کی امریکا کے صدر ٹرمپ سے بھی ملاقات کرائی گئی اور شکور بھائی نے ٹرمپ کو صرف وہی بتایا جو ان کے ساتھ ہوا۔ بس۔ مگر یہاں پاکستان وہ طوفان بدتمیزی برپا ہوا کہ الامان الحفیظ۔

اگر تو شکور بھائی نے ٹرمپ کے سامنے جھوٹ بولا تو وہ جھوٹ واضح کیا جائے، اور اگر شکور بھائی نے سچ بولا جس سے آپ کے نزدیک پاکستان کی بدنامی ہوئی، تو پاکستان کے شکور و تاثیر کی زبانوں کو تالے لگانے کی بجائے ایسے قوانین ختم کریں جس سے پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر بدنامی ہوتی ہے۔ آپ کا دل ہے کہ آپ مذہبی شدت پسندی اور ظلم بھی کرتے رہیں اور مظلوم آہ بھی نہ نکالے۔ ایسے نہیں ہو سکتا۔

جس ملک میں انتہا پسند نظریات رکھنے والے، تفرقہ پھیلانے والے کھلے پھرتے ہوں۔ بین الاقوامی سطح پر دہشت گرد کہلانے والے دھوپ چھاؤں کی طرح ادھر ڈوبے، ادھر نکلے کی تصویر پیش کرتے ہوں، وہاں عبد الشکور جیسے قران بیچنے والے ہی مجرم قرار پائیں گے۔

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

بول زباں اب تک تیری ہے

تیرا ستواں جسم ہے تیرا

بول کہ جاں اب تک تیری ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).