عید الاضحٰی ، دہشتگردی کا دیو اور خون پیتی ڈائن


\"zeeshanعید کے اس دن ان اسی ہزار سے زائد ان شہدا کے اہل و عیال کو یاد رکھنا ازحد ضروری ہے جو ہیئت مقتدرہ کی مہم جوئی کے سبب پیدا ہونے والے اچھے / برے طالبان کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔

آج عید کا دن ہے ہر طرف مسکراہٹیں اور قہقہے ہیں ۔ بچوں کی معصوم مسکراہٹوں اور رنگین ملبوسات نے ستمبر کے اس دن کو بہار بنا دیا ہے ۔ سہاگنوں کی شرارتی مسکراہٹیں اپنے شوہروں پر نثار ہیں اور شوہر اپنی شریک حیات کو دیکھ دیکھ کر کھل اٹھے ہیں ۔ مائیں اپنی جوان اولاد کو دیکھ کر پھولے نہیں سما رہیں اور وقت کی رفتار کو بڑی قدر سے دیکھ رہی ہیں جس نے ایک ننھے وجود کو مکمل کر دیا ۔ ضروری ہے کہ ان بچوں کو بھی سوچا جائے جن کے والدین انہیں تپتی دھوپ میں یتیم و تنہا چھوڑ گئے ۔ اس سہاگ کی بھی خبر ہو جو اب بیوگی کی ذہنی اذیت میں ہے ۔ اس ماں سے بھی پوچھا جائے جس کا نور چشم بجھ گیا ۔

میں کلاس ششم میں تھا جب ابو عارضہ قلب کے سبب فوت ہوئے تھے ۔ یتیمی کے نفسیاتی اثرات سے میں بے خبر نہیں ہوں ۔ ایک خوشحال ترین طرز زندگی سے ہم لڑھکے اور نفسیاتی طور پر تنہا رہ گئے ۔ ماموں اور چاچو آگے بڑھے اور سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا مگر ابو کے بغیر ہمارا سارا گھر ویران ہو گیا ۔ ہر عید پر امی روتی تھیں اور اب بھی جب ہم جوان اور خوشحال ہیں امی ہر عید پر اکیلے میں چھپ چھپ روتی ہیں ، ابو کو یاد کرتی ہیں ۔ ان کے خیال میں ایک بیوی کے لیے سب سے بڑا رشتہ اس کا شوہر ہے اور ایک شوہر کے لئے سب سے بڑا رشتہ اس کی بیگم ۔ ہر خوشی کی مسرت اور غمی کی اذیت میں ہم سب بہن بھائی غیر ارادی طور پر ابو کو تلاش کرتے ہیں ۔ ٹھنڈی سانسیں اور مایوس نگاہیں ہمیں بار بار بتاتی ہیں کہ ہم یتیم ہیں ۔ اور دادی ؟ ابو کی موت کا صدمہ برداشت نہ کر سکیں ۔ ایک سال میں ہی بڑھاپے کو انہوں نے اوڑھ لیا اور اگلے سال ہر وقت روتی وہ نگاہیں بجھ گئیں ۔

یہ کہانی صرف ہماری نہیں یتیمی کے سائے میں پلی بڑھی ہر اولاد اور بیوگی کی ذہنی اذیت میں جلتی ہر بیوہ کی ہے ۔ امی کہتی ہیں جب ساتھی بچھڑ جائے تو پھر سب بے کار لگتا ہے ۔ ہمارے اردگرد ایسی بہت ساری کہانیاں ہیں ۔ ہم سب سماج ہیں اور ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ان مادی و نفسیاتی محرومیوں میں مبتلا اپنے رشتہ داروں اور ہمسائیوں کی خبر گیری اور غم گساری کریں ۔

سنا ہے کہ آج شکار پور میں ایک مسجد پر حملہ ہوا ہے ۔ اس قوم نے اپنے محافظوں سے زخم کھائے ہیں ۔ ہنوز دہشتگردی کا دیو پوری قوم کو ڈرا رہا ہے اور جو ڈائن اسے دودھ پلاتی ہے ہم بے بس ہیں کہ اسے تہذیب سکھا سکیں ۔ کیا یتیمی اور بیوگی کا یہ عفریت ہنوز ہم پر مسلط رہے گا ؟ کیا لاشیں اٹھانے کا یہ سلسلہ تھمے گا بھی ؟

ظلم و جبر اور قتل و خون کے اس سلسلے کو رک جانا چاہیے ۔ شہریت کو زندہ رہنے دیا جائے ۔ عسکریت کو اپنے نفس سے ڈرنا چاہیے ۔ ہمیں زندہ رہنا ہے ۔ ہر گھر آباد و خوشحال ہو ۔ ہر دن عید ہو ۔ سب بچوں کے والدین سلامت رہیں ، ہر سہاگن کا سہاگ آباد ہو ، ہر ماں اپنی اولاد کو دیکھ دیکھ کر جئے ۔ آمین

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments