کرپشن اور بے شرمی کی حد تک بے پناہ کرپشن


’ عشق‘ علامہ اقبالؒ کے کلام میں ایک مرکزی مضمون ہے۔ سنئیے۔

اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی

نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق

جوش ملیح آبادی کو اس پر اعتراض ہے کہ قرآن پاک میں تلقین عشق کی نہیں، محبت کی ہے۔ خیر اندیشی، دوست داری اور صلح رحمی کی تلقین ہے نہ کہ قیس اور فرہاد کے جنونی حال کی۔ اس طرح سونامی اس سمندری طوفان کو کہتے ہیں جس میں خوشگوار تبدیلی کی بجائے تباہی و بربادی کا تاثر ملتا ہے۔ بنگلہ دیش میں البتہ یہ طوفان اپنے سیلابی ریلے سے زمین پر زرخیز مٹی کی تہہ بچھا دیتا ہے۔ یہ مٹی پٹ سن کی بھاری فصل کے لئے بھاری خوراک کا کام دیتی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں نفع کا کوئی پہلو نہیں۔ بستیوں میں بے شمار ہونے والے نقصانات لکھنے کی ضرورت نہیں۔

عمران خان لفظ ’سونامی‘ کو تبدیلی کے معنوں میں استعمال کر رہے ہیں۔ کسی کو لفظوں کے غلط استعمال سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ لیکن کبھی کبھی لفظوں کے غلط استعمال میں بندہ مارا بھی جاتا ہے۔ ہندوستان کے ریٹائرڈ سیکرٹری خارجہ ایم۔ او۔ متھائی نے” نہرو دور کی یادیں“ کے نام سے اپنی یاد داشتیں قلمبند کی ہیں۔ انہوں نے لکھا۔ ”الفاظ کے صحیح استعمال کے حق میں چرچل نے ایک مرتبہ تقریر کرتے ہوئے اک لطیفہ سنایا۔

ایک بار تھامس نامی ایک شخص ڈاکٹر کے پاس گیا اور اسے کہا۔ ”مجھے آختہ کر دیجئے“۔ ڈاکٹر نے اسے ٹالنا چاہا مگر تھامس کا اصرار جاری رہا۔ آخر ڈاکٹر بڑے تامل کے بعد رضامند ہو گیا اور اسے ہسپتال میں داخل کر لیا۔ اگلے روز اس کا مطلوبہ آپریشن کیا گیا۔ تھامس رات بھر دواﺅں کے زیر اثر سوتا رہا۔ صبح اس کی آنکھ کھلی تو ساتھ والے بستر پر ایک نو عمر لڑکا کراہ رہا تھا۔ تھامس نے اسے پوچھا۔ ” بھئی تمہارے ساتھ کیا ہوا ہے؟“ ”میرا ختنہ کیا گیا ہے“۔ لڑکے نے جواب دیا۔ اب تھامس سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور بڑ بڑایا۔ ”ھت تیرے کی۔ مجھے بھی ختنہ ہی کروانا تھا لیکن یہ لفظ میرے ذہن میں نہیں آیا“۔

تھامس بیچارہ تو لفظ کے غلط استعمال میں مارا گیا۔ اس بیچارے کے پاس اپنے لفظ کے غلط استعمال سے ہونے والے نقصان کے ازالے کی کوئی گنجائش نہ رہی تھی۔ تحریک انصاف نے بھی پاکستان میں تبدیلی لانے کے لئے لفظ ’سونامی‘ استعمال کیا ہے۔ لغت والے عمران خان کو سمجھانے لگے کہ سونامی خوشگوار تبدیلی کے لئے کوئی موزوں لفظ نہیں۔ سونامی تباہی اور بربادی کی علامت ہے۔ لیکن عمران خان سنی ان سنی کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔ وہ خوب سمجھتے تھے کہ سونامی کے معنی کیا ہیں اور ان کے ارادے کیا ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپٹ سیاستدان ہیں۔ یہ لوٹ کھسوٹ اور ککس بیک کا روپیہ بیرون ملک لے جاتے ہیں۔ ہمارے تاجر اور جاگیردار دونوں ٹیکس دینا نہیں چاہتے۔ ہمارا تاجر اتنا ظالم ہے کہ وہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں مبتلا اپنے ملک میں دوسرے ممالک کی طرح سورج کی روشنی میں دکانداری کرنے کو تیار نہیں۔ اس طرح عمران خان کو بیک وقت کئی محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے۔

پھر یہ بات بھی ہے کہ ریکوڈک مقدمہ میں پاکستان کو چھ ارب ڈالر جرمانہ کی سزا خالصتاً نالائق، خود غرض اور بدعنوان لوگوں کی اعلیٰ عہدوں پر تقرری کا نتیجہ ہے۔ ایک قیامت اور آنے والی ہے۔ ایران کے ساتھ ہونے والے گیس پائپ معاہدے میں ہم نے اس شق پر اتفاق کر رکھا ہے کہ 31 دسمبر 2014ء تک دونوں ممالک اپنے اپنے علاقہ میں گیس پائپ لائنیں بچھا لیں گے۔ اس تاریخ تک جو ملک اپنے حصے کا کام نہ کر سکا، وہ دوسرے ملک کو ہر روز ایک ملین ڈالر جرمانہ ادا کرے گا۔ آج کی تاریخ تک 31 دسمبر 2014 سے لے کر ایک ہزار پونے سات سو کے قریب قابل جرمانہ دن بن جاتے ہیں۔ ایران ہمیں ایک نوٹس بھی بھجوا چکا ہے کہ کیوں نہ ہم آپ کے خلاف عالمی عدالت سے رجوع کریں۔

حالات کڑے ہیں۔ عمران خان کو اسمبلی میں مضبوط اکثریت بھی حاصل نہیں۔ لیکن ان کا عزم بلند ہے۔ وہ ملک میں تبدیلی لانے کے لئے پوری ہمت اور جوانمردی سے برسرپیکار ہیں۔ ان کی مشکلات بھٹو سے زیادہ ہیں۔ ایک سابق صدر، دو سابق وزرائے اعظم بیک وقت حراست میں ہیں۔ ان کے اقتدار میں ان سے مستفید ہونے والے ان کے ساتھی پوری مزاحمت کر رہے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے عمران خان کو بھٹو کے جیالوں کے سے جانثار لشکری میسر نہیں آئے۔

مثال کے طور پر انہون نے اپنے ایک جانثار سے جان نہیں اپنی بخشی ہوئی پوسٹ سے محض استعفیٰ مانگا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے دو سطری استعفیٰ کے ساتھ قرآن پاک کے تیسرے پارے میں سے سورة آل عمران کی یہ آیت لکھنی ضروری سمجھی۔ ”اور کافروں نے مکر کیا اور اللہ نے ان کی ہلاکت کی خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ سب سے بہتر چھپی تدبیر والا ہے“۔ اور معاملات اتنے گھمبیر، پیچیدہ اور بگڑے ہوئے ہیں کہ تباہی، بربادی کے بعد ہی اصلاح کا کوئی امکان دکھائی دے رہا ہے۔

اس طرح عمران خان تبدیلی کے لئے سونامی کا لفظ استعمال کرنے میں حق بجانب ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کو ایل این جی کیس سمجھانے میں نوے روز درکار ہیں۔ حالانکہ معاملہ صرف چند لفظوں کا ہے۔ ”کرپشن اور بے شرمی کی حد تک بے پناہ کرپشن”۔ ہمارے سیاستدان شاہ ایران رضا شاہ پہلوی سے زیادہ امیر کبیر ہو چکے ہیں۔ عمران خان کہہ رہے ہیں :”دھمکی دیں یا سفارش کریں۔ احتساب نہیں رکے گا“۔ عام آدمی کی سیاستدانوں کے بارے میں رائے کا اندازہ لگانے کے لئے آپ کسی شہر میں کسی راہگیر سے ایک ایماندار سیاستدان کا نام پوچھیں۔ آپ کو کسی شہر سے کوئی ایک آدھ نام مل بھی جائے گا اور کسی شہر سے کوئی بھی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).