بھلا پرفیکٹ بھی کچھ ہوتا ہے؟


مہنگائی سے متاثر صرف غریب نہیں بلکہ اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانے مشکل میں پڑ جاتے ہیں جب تنخواہیں ہاتھ میں آتی ہیں۔ میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے لڑکے کو اشارہ کیا جو اسے چلا رہا تھا کہ وہ اسے پھر چلا دے میں بعد میں اسے ٹکٹ دے جاونگی۔ پھر دوبارہ جھولا چلا اور نارے ہمیں نیچے کھڑی ہاتھ ہلاتی رہی۔ یہاں سے فارغ ہو کر بچوں کو آئس کریم کھلانے لے گئے اور جو کچھ الم غلم کھانا تھا کھا کر بچے دوسری جگہ اسکیٹنگ کرنے چل پڑے میں نے کہا بھی کہ اگلی بار کر لیں گے لیکن نہ مانے الٹا مجھے لالچ دینے لگے کہ وہاں تیر اندازی کا بھی انتظام ہے اپ اپنی پریکٹس بھی کر لیجیے گا۔

بس پھر اس پارک کا رخ کیا بچوں کو اسکیٹنگ کے لئے چھوڑا اور نارے کو گھسیٹتے ہوئے خود آرچری کے لئے چل پڑی۔ کچھ نشانے داغے اور پھر نارے کے پاس جا بیٹھی۔ ”یہ کیا کھسرپھسر کر ریا تھا تجھ سے؟ “ نارے آرچری انسٹکٹر کی طرف اشارہ کرتے بولی تو میں ہنس پڑی۔ کہتا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ مقابلوں میں حصہ لیں۔ نیشنل اور انٹرنیشنل گیم ہوتے ہیں تو آپ بھی جوائن کریں آپ کا نشانہ اچھا ہے اور کچھ پریکٹس سے آپ پرفیکٹ ہوجائیں گی۔ ( بھلا پرفیکٹ بھی کچھ ہوتا ہے۔ میں نے پوچھا تو جواب آیا۔ ”آپ لگتی ہیں“ مجھے کسی کی بات یاد آگئی)

میں نے ہنستے ہوئے نارے کی طرف دیکھا کہ وہ بھی اس بات پر ہنسے گی لیکن وہ مجھے گھورتے ہوئے بولی۔ ہاں تو ٹھیک ہی کہہ رہا ہے اچھا ہے خواتین ویسے بھی کون سا کہیں کچھ کرتی نظر آتی ہیں اور گیمز میں تو بالکل نہی۔ تیرا نشانہ دیکھ کر پچھلی بار میاں صاحب بھی کہہ رہے تھے کہ سعدی کو باقاعدہ آرچری کمپٹیشن میں حصہ لینا چاہیے زبردست کھیلتی ہے۔ وہ دیکھ۔ نارے سامنے ایک جوان کو نشانہ لگاتے دیکھ کر بولی۔ کتنے تیر ادھر ادھر جارہے ہیں ان لڑکوں کے۔

کسی ایک نے بھی تیری طرح نشانہ نہیں لگایا۔ اب مجھے کچھ بے چینی سی شروع ہوگئی تھی۔ یار جانڑ دے۔ اتنا مہنگا کھیل میں نہیں افورڈ کرتی اور نہ ہی اتنا کھلا ایریا ہے میرے پاس جہاں اس کی پریکٹس کروں اور اس کے مقابلے سے پہلے بہت ساری ڈھیر ساری پریکٹس درکار ہے۔ میں نے بازو پھیلا کر اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ مجھے اکسانے سے باز رہے کیونکہ کہیں اگر اک بار ذہن بنا لیا تو پھر کون روک سکے جنوں کو!

بچے کھیل کود کر تھک گئے ہلکا پھلکا فاسٹ فوڈ بھی کھلا دیا گو کہ مجھے اس خوراک سے شدید تحفظات ہیں مگر اب میں نے بھی بہت ساری باتوں کو درگزر کرنا شروع کردیا ہے۔ مشکل اصولوں والی زندگی نے مجھے کچھ فائدہ ایسا نہیں دیا جو میرے بچوں کے کام آسکتا البتہ ضمیر مطمئن رہا نفس قابو میں رہا اور اللہ نے عزت عطا کی۔ بچوں کو بھی ماں کے متعلق کوئی ابہام نہ تھا اس لیے ایک حد تک ضد کرتے اور کئی معاملات میں تو صرف اشارہ ہی کافی رہتا اور انہیں سمجھ آجاتی کہ اجازت نہیں ملے گی۔

نارے کے ساتھ اس کے گھر گئے۔ بھائی صاحب اور بچے بھی آگئے تھے۔ کھانا سب نے مل کر کھایا اور خوب مزہ آیا جب میں نے نارے کے بچوں کو رکشے والی تصاویر دکھائیں۔ بچے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوتے رہے اور بھائی صاحب نارے کو ہمدردی بھری نگاہوں سے دیکھتے رہے کہ میری بیگم کو آج کتنا تھکا دیا سعدی نے۔

”تو کتنی کمینی ہے سعدی۔ نارے بچوں کی طرح زمین پے پاؤں مار رہی تھی اور رونے والی شکل بنائی ہوئی تھی۔ میں نے کندھے اچکائے کہ کیا ہوا؟

تونے اپنے میاں کو بھی میری تصویر بھیج دی؟ نارے نے سڑے ہوئے انداز سے دیکھا تو میں جو گلاس منہ کو لگا چکی تھی میری ہنسی نکل گئی اور پانی کا پھندا لگ گیا۔ سب ہنس رہے تھے۔ بھائی صاحب بھی منہ نیچے کیے ہنستے جارہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ ڈر بھی رہے تھے کہ نارے ابھی کچھ بول نہ دے۔ تجھے تو ذرا شرم نہیں۔ اب فیس بک اور ٹویٹر پہ بھی دے دیں۔ نارے نے جب یہ کہتے ہوئے فون اٹھایا تو میں کانوں پر ہاتھ رکھ چکی تھی کہ اب جو گالیاں سننے کو ملیں گی وہ ناقابل سماعت ہوں گی۔ اور وہی ہوا۔ بھائی صاحب نے نارے کو اشارہ کرکے چپ کرانے کی کوشش کی کہ بچوں کے سامنے نہ بولے لیکن نارے کے اندر اس وقت گالی برگیڈ پوری طرح حرکت میں آگیا تھا اور خوب ہاتھ ہلا ہلا کر وہ مجھے گالیاں دے رہی تھی کیونکہ فیس بک پر دوستوں کے ڈھیر سارے کمنٹ آ بھی چکے تھے۔

تو ہے ہی بے شرم۔ جھنڈے لگا دیے ہر طرف۔ وہ دیکھ میرے بھائی کے بھی کمنٹ آگئے۔ سعدی۔ سعدی۔ نارے دانت بھنیچتی ہوئی میری طرف بڑھی تو میں جلدی سے اٹھ کر بیڈروم کو بھاگی۔ بھائی صاحب نے ہماری لڑائی دیکھی توبے چارے خود ہی دسترخوان سمیٹنے لگے۔ بچیاں بھی ہنستی ہوئی انکل کی مدد کرنے لگیں۔ کچھ دیر میں نارے تھک ہار کر گالیاں والیاں بک بکا کر بستر پہ جا گری اور پھر ہم مل کر سب کے کمنٹ پڑھنے لگے جو کسی لطیفے سے کم نہیں تھے۔

رات نارے اور بھائی دونوں ہی گھر چھوڑنے کے لئے آئے۔ راستے میں بھی ہماری کار اچھلتی رہی۔ ہمیشہ کی طرح نارے نے فاسٹ میوزک لگایا آگے وہ اور پیچھے ہم بچوں سمیت بھنگڑے ڈالتے رہے۔

نارے کی خوبی ہے کہ وہ ہنستی رہتی ہے۔ بہت جلدی گھل مل جاتی ہے ہمدرد ہے اور بہت مہمان نواز۔ جس زمانے میں لڑکیوں کو میٹرک سے آگے پڑھنے کی اجازت نہ تھی اس نے اس وقت جغرافیے میں ماسٹرز کیا اور وہ بھی پشاور جیسے شہر سے۔ پھر ایک بہت بڑے ادارے میں بطور ہیڈ ملازمت اختیار کی تقریبا 12 سال ملازمت کے بعد نارے نے ملازمت کو خیر باد کہا اور مکمل طور پر ایک گھریلو خاتون بن کر رہ گئی۔ میں نے کئی بار کہا کہ کم از کم ڈرائیونگ تو خود کرتی رہو لیکن محال ہے جو یہ خاتون کسی بھی ایسی بات پر آمادہ ہوجائے جو اسے گھر سے باہر نکالنے کے لئے مفید ہو۔ وہ کہتی ہے بس اب گھرداری میں ہی مزہ ہے۔ اور ٹھیک کہتی ہے اس کے بچے اب جوان ہورہے ہیں ان کی ضروریات اور تربیت دونوں کے لئے اس کا گھر پہ موجود رہنا اچھا ہے۔ وہ خود بھی کہتی ہے کہ سعدی تو آ جاتی ہے تو کہیں نا کہیں آوارہ گردی کر ہی لیتے ہیں تو کیا کمی رہ جاتی ہے پھر۔

بات تو نارے کی بھی ٹھیک ہے ہم نے اپنی زندگیوں کو سارے ہی رنگوں سے سجا رکھا ہے اور معاشرے میں ابھرنے والے منفی اثرات ہماری اس ہل چل والی زندگی میں کہیں داخل ہونے کا رستہ نہیں پاتے۔ ہونا تو ایسا ہی چاہیے کہ سبھی خود ایسی مصروفیات میں ملوث رکھیں جو ان کی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو مزید نکھار دیں اور ان کی صحت مندی معاشرے کو توانائی دیتی رہے۔

اس رات ہم بہت دیر سے گھر پہنچے بچے تھکے ہوئے تھے لیکن میں نے دانت برش کے ساتھ لباس تبدیل کروا کر ہی سونے دیا۔ خود بھی اپنی سوشل نیٹ ورکنگ کی تفصیلات دیکھتے دیکھتے سو گئی اور آخری وزٹ نارے کی تصویر پر کیا۔ جہاں اسوقت بھی خوب رش لگا ہوا تھا اور ہر کوئی جملے پھینک رہا تھا اور سب سے زیادہ نارے کا چھوٹا بھائی متحرک تھا جسے آج موقع مل گیا تھا کہ اپنے پرانے بدلے چکائے۔
کچھ دیر دیکھتی رہی پھر وائی فائی آف کرنے سے میں نے وہ پوسٹ ڈیلیٹ کردی۔ نارے جاگ رہی تھی اب تک۔ اس کے بعد وہ بھی سو گئی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2