تعصب نہ چھوڑیں مگر قومی مفاد کا خیال تو رکھیں


ملکی سیاسی منظر نامے سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ یہاں ہر چند دنوں بعد کچھ ایسا ہو جاتا ہے جس کے باعث چاروں طرف تھرتھلی مچ جاتی ہے۔ پھر سب سے پہلے نیوز چینلز بریکنگ نیوز کے چنگھاڑتے سائرن کے ساتھ مرچ مصالحہ لگا کر اس واقعے کو پیش کرتے ہیں۔ بعد ازاں شام چھ سے رات گیارہ تک ہونے والے تمام کرنٹ افیئرز کے پروگرامز میں اسی موضوع کے بخیے ادھیڑے جاتے ہیں۔ موضوع سے متعلقہ تمام تر ممکنہ زاویوں پر قیاس کے گھوڑے دوڑائے جاتے ہیں۔

ہفتوں تک مجھ ایسے کالم نگاروں کو بھی دانشوری جھاڑنے اور اخبارات کے صفحوں کا پیٹ بھرنے کے لئے مواد میسر آ جاتا ہے۔ خبر اگر کسی بڑی سیاسی شخصیت کی گرفتاری وغیرہ سے متعلق ہو پھر تو کیا ہی بات ہے۔ وہ وہ باتیں سامنے آتی ہیں، ایسے الزامات لگتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ وقت گزرنے کے بعد جب واقعے کے رد عمل میں اڑائی گرد بیٹھتی ہے تو اکثر مجاہدین صحافت کے الزامات لغو اور بے بنیاد ہی نکلتے ہیں۔ یہ بات بھی تسلیم کرنے کے قابل ہے کہ آج کے دور میں کوئی بھی شخص تعصب سے ماورا نہیں۔ لہذا ایک اینکر اور کالم نگار کسی واقعے پر فوری رد عمل دینے کی کوشش میں ٹھوس معلومات نہ ہونے کے سبب اپنی عصبیت کے زیر اثر بسا اوقات بے بنیاد الزام تراشی کر جاتے ہیں۔ بہت سے احباب کو کچھ وقت کے بعد شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے، اور جو ناک کے پکے ہوتے ہیں وہ پھر بھی ڈھٹائی پر اڑے رہتے ہیں۔

قصور صرف صحافیوں کا بھی نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہماری قوم بھی چسکے باز ہے۔ یہاں وہ کہانی ہاتھوں ہاتھ بکتی جس میں کسی کی تضحیک کا مرچ مصالحہ موجود ہو۔ ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے تیکھا لکھا ہے چاہے جھوٹ ہی کیوں نہ گھڑنا پڑے۔ پہلے لکھتے وقت یہ خیال رکھا جاتا تھا کہ میرا خیال منفرد ہو۔ ایک موضوع پر لکھا جا چکا تو اس سے دوسرا لکھاری عموما گریز کرتا تھا۔ اب تو حال یہ ہے جانے کہاں سے کہانی ملتی ہے اور درجنوں صحافی اپنے کالمز اور ٹاک شوز میں وہی دہرا دیتے ہیں۔ چار روز قبل ن لیگ کے رہنما شاہد خاقان عباسی گرفتار ہوئے۔ کیس کی تفصیلات سامنے آنے کا انتظار کسی سے نہ ہوا۔ حقائق سامنے آنے سے قبل ہی ہر دوسرے صحافی کی زبان اور تحریر میں یہ چارج شیٹ تھی۔

” 2004 ء میں یہ فیصلہ ہوا کہ قطر سے جو گیس آئے گی اس کے لیے پورٹ قاسم پر ایک فلوٹنگ ٹرمینل کی ضرورت ہے۔ ای سی سی کو جو دستاویزات بھیجی گئیں ان کے مطابق شروع میں اس کی لاگت تین ارب روپے لگائی گئی۔ پھر راتوں رات اس کی لاگت کو تیرہ ارب روپے کر دیا گیا۔ دس ارب روپیہ اس میں کمایا گیا۔ ساتھ ہی جس پارٹی کو وہ ٹھیکہ دیا گیا وہ پاکستان کے خلاف تھی۔

اس کے مطابق اینگرو کراچی کو اگلے پندرہ سال تک روزانہ دو لاکھ بہتّر ہزار ڈالرز ملیں گے ’چاہے ٹرمینل استعمال ہو یا نہ ہو۔ یوں تیرہ ارب روپے کی سرمایہ کاری کے بدلے میں اگلے پندرہ سال تک دو سو ارب روپے اس پارٹی کو دینے ہوں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت خود ہی تین ارب روپے کا ٹرمینل لگاتی تاکہ پیسہ بچتا‘ لیکن ایک پرائیویٹ پارٹی کو دو سو ارب روپے کی ڈیل دی گئی۔ اب اس پارٹی کو 2014 ء سے روزانہ تین کروڑ روپے مل رہے ہیں۔

یوں پہلے سال میں ہی اس پارٹی نے تیرہ ارب روپے کی سرمایہ کاری پوری کر لی ہے اور اگلے چودہ سال تک یہ ڈیڑھ سے دو سو ارب روپے منافع کمائے گی۔ دنیا میں کہاں ہوتا ہے کہ تیرہ ارب روپے کے بدلے آپ کو پندرہ سالوں میں دو سو ارب روپے کے قریب منافع ملے۔ مزے کی بات ہے کہ سب کام پاکستان میں ہو رہا تھا ’پارٹی بھی پاکستانی تھی‘ لیکن ادائیگی کا معاہدہ ڈالروں میں ہوا۔ یوں جوں جوں ڈالر کا ریٹ بڑھ رہا ہے اس پارٹی کو گھر بیٹھے روزانہ فائدہ ہو رہا ہے۔

دنیا بھر میں گیس اور پٹرول فیلڈ کا منافع اٹھارہ سے بیس فیصد ہوتا ہے جبکہ مذکورہ کمپنی کو چوالیس فیصد تک کا منافع دیا گیا۔ اسی پر بس نہیں کی گئی بلکہ اسی کمپنی کے ایک ملازم عمران الحق کو پاکستان سٹیٹ آئل کا ایم ڈی لگادیا گیا اور ماہنامہ تنخواہ اسی لاکھ روپے تک رکھی گئی۔ اس پر سپریم کورٹ نے بھی سوؤ موٹو لیا تھا ’جس پر انہیں ہٹایا گیا ”۔

یہی طرز عمل برطانوی اخبار ڈیلی میل کی جانب سے شہباز شریف پر لگائے جانے والے الزامات کے بعد دیکھنے کو ملا۔ حالانکہ امداد دینے والے برطانوی ادارے DFID نے خود کہہ دیا کہ پاکستان کے زلزلہ متاثرین کی بحالی کے لیے رقوم کی فراہمی میں خورد برد ادارے کی سخت نگرانی کی پالیسی اور کرپشن سے پاک طریقہ کار کے باعث ناممکن ہے۔ DFID نے اپنی ساکھ پر لگے دھبے کو دھونے کے لیے یہ تک کہہ دیا کہ برطانوی شہریوں کے ٹیکس سے زلزلہ متاثرین کی امداد اور انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے دی گئی امدادی رقوم کو اس وقت ہی جاری کیا جاتا ہے جب مطلوبہ ہدف مکمل کرلیا گیا ہو۔

اس کے باوجود ہمارے ہاں آسمان اٹھا لیا گیا کہ ”نام نہاد شریفوں“ نے زلزلہ متاثرین کے لیے آنے والی امدادی رقوم کو بھی نہ بخشا۔ اس مد میں آنے والے پیسے کو بھی خورد برد کرنے کے بعد منی لانڈرنگ کے ذریعے اپنے اکاؤنٹس میں منتقل کر لیا۔ جس کی وجہ سے شہباز شریف کے اثاثے راتوں رات کئی گنا بڑھے۔ ملتان میٹرو اور سی پیک پراجیکٹس کو بھی نہیں بخشا گیا تھا۔ بعد میں چین کی طرف سے ان الزامات کی تردید ہو گئی۔

الزام لگانے والے لوگ مٹی کا درد بہت رکھتے ہیں اور ملک و قوم کی محبت میں بھی مبتلا ہیں۔ انہیں مگر خبر نہیں کہ ان کا ”جہاد“ وطن عزیز کو فائدہ پہنچانے کے بجائے مزید نقصان کا سبب بن رہا ہے۔ برطانیہ میں پچھلے چند سالوں سے بڑے منظم انداز سے ایک طبقے کی جانب سے یہ مہم جاری ہے کہ برطانوی ٹیکس پیئرز کے پیسے پر صرف وہاں کی آبادی کا حق ہے۔ برطانوی حکومت کو ہرگز حق حاصل نہیں کہ ان کے خون پسینے کی کمائی تیسری دنیا کے ممالک پر جو ”دہشتگردی کو فروغ دینے میں ملوث ہیں“ لٹائے۔

اخبار ڈیلی میل جس میں یہ اسٹوری شائع ہوئی اس مہم کا سرخیل ہے۔ مہذب دنیا میں کرپشن کا الزام نہایت سنگین سمجھا جاتا ہے اور اپنی ساکھ کے بارے میں لوگ بہت حساس ہوتے ہیں۔ ہم دوسروں کو بھی اپنے آپسی حساب چکانے کے لیے گندہ کریں گے تو آئندہ کون ہماری مدد کرے گا۔ ملکی معیشیت بھنور میں پھنسی ہے اس مشکل وقت میں ہمیں دوست ممالک کے تعاون کی ضرورت رہے گی۔ بد قسمتی سے اب چین اور قطر جیسے برادر ملک بھی ہماری جھوٹ اور الزام تراشی کی عادت کے باعث تشویش میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

ہمارے ہاں کی صحافت سیاسی بنیاد پر بد ترین تقسیم کا شکار ہو چکی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر شخص اپنے تعصب کے زیر اثر لکھتا ہے۔ تاہم تعصبات کے اظہار اور دلوں میں موجود نفرت کو ٹھنڈا کرنے کے قومی مفاد کو نقصان پہنچانے کے علاوہ بھی بہت طریقے ہو سکتے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اہل صحافت کو ملکی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ ریڈ لائنز طے کر لینی چاہئیں۔

قرآن پاک میں بھی ارشاد ہے ”اے ایمان والو انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لیے سچی گواہی دو خواہ اس میں تمہارا یا تمہارے قرابت داروں کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ “ سورہ نسا ”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).