قبائلی اضلاع کا مستقبل کیا ہوگا؟


قبائلی اضلاع کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی باتوں کا آغاز ہوا تو کچھ سیاسی برجوں نے اس کی بڑھ چڑھ کر حمایت کی جبکہ ایک سیاسی طبقہ ایسا بھی تھا جس نے اس انضمام کی مخالفت کی گو کہ اس انضمام کے لئے حکومت کو کئی آئینی ترامیم کرنا تھیں۔ حکومت پاکستان نے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں اصلاحات کا جو منصوبہ 2 مارچ 2017 کو منظور کیا تھا اس میں ان قبائلی علاقوں کو پانچ طریقوں سے قومی دھارے میں لانے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔

سب سے اہم نکتہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کو سیاسی قومی دھارے میں لانا قرار دیا گیا۔ انضمام کے بعد ان علاقوں میں صوبائی سطح کے انتخانات کرانا بھی طے پایا۔ فاٹا میں موجودہ قانونی ڈھانچے فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن جو قیام پاکستان سے قائم ہے کو ختم کر کے پشاور ہائیکورٹ اور پاکستان کی سپریم کورٹ کا دائرہ ان قبائلی علاقوں تک وسیع کر دیا جائے گا۔ قبائلی علاقوں میں امن عامہ اور سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری آہستہ آہستہ لیویز کو منتقل کی جائے گی۔ قبائلی علاقوں میں تعمیرات اور بحالی کے کام کے لیے 10 سال کے لیے 100 ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔

حکومت وقت کو اس انضمام کے لئے آئین میں ترمیم کرنا پڑی۔ آئینی ترمیم کے بعد 16 قبائلی اضلاع کو کے پی کے میں ضم کردیا گیا۔ کے پی کے میں انضمام کے بعد قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے لئے پہلی بار الیکشن کا انعقاد ہوا ہے۔ غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق آزاد امیدواروں کو 7، تحریک انصاف کو 5، جے یوآئی (ف) 2 جبکہ اے این پی اور جماعت اسلامی کو کو ایک ایک نشست پر برتری حاصل ہے۔ 16 منتخب نمائندوں اورپانچ مخصوص نشستوں کو ملا کر فاٹا کے نمائندوں کی ایوان میں کل تعداد 21 ہوجائے گی۔ خواتین کے لیے چار اور اقلیتوں کے لیے ایک نشست مختص ہے۔ قبائلی اضلاع میں پہلی بار خواتین کو نمائندگی ملے گی اس قبل ایسا کبھی نہیں ہوا۔

کہیں مخالفت کہیں حمایت کے بعد آخر کار یہ انضمام ہوگیا اور انتخابات بھی ہوگئے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان انتخابات کے بعد منتخب نمائندے قبائلی علاقوں کی بہتری کے لیے کوئی اقدامات کر پائیں گے اور کیا ان انتخابات کے بعد کوئی تبدیلی آ سکتی ہے؟ صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ قبائلی علاقوں کے لئے سب سے زیادہ فنڈز رکھے گئے ہیں۔ حکومتی مشیر کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں کے لئے صحت کارڈ اور روزگار کارڈ کا آغاز کیا گیا یے جس سے صحت کے مسائل حل ہوں گے اور بیروزگاری میں بھی واضح کمی آئے گی۔ تعلیم کے لئے 22 ارب جبکہ ترقیاتی کاموں کے لئے 162 ارب روپے مختص کیے گئے۔

انتخابات سے قبل قومی دھارے میں موجود علاقوں نے بھی تبدیلی کے خواب دیکھے لیکن ان کے خواب تب ٹوٹے جب نیند کے علاوہ ہر چیز پر ٹیکس عائد کردیا گیا۔ یقینی طور پر ٹیکس دینے سے کوئی بھی محب وطن انکاری نہیں ہوسکتا لیکن وہ ٹیکس کہیں لگتے بھی تو نظر آئیں یا بس یہ کہہ دیا جائے کہ ٹیکس کا پیسہ سابقہ حکومتوں کی جانب سے لئے گئے قرضے اتارنے میں لگ رہا ہے، کیا فاٹا میں بھی ایسا ہی ہوگا؟ کیا ایک بار پھر آزاد امیدواروں کو اپنے حق میں کرنے کے لئے جہاز اڑائے جائیں گے یا آزاد امیدوار آزاد ہی رہ کر اپنے علاقے اور لوگوں کے مسائل کو اجاگر کریں گے؟

انضمام سے قبل بھی خیبر پختونخوا حکومت کی خواہش تھی کہ فاٹا میں بھی بلدیاتی نظام رائج کیا جائے گا اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا 70 سال سے ایک الگ قانون ایک الگ نظام کے تحت زندگیاں گزارنے والے اس نظام کے عادی افراد ایک دم نظام میں اتنی تبدیلیاں برداشت کریں گے؟ ملک بھرمیں اس وقت بلدیاتی نظام موجود ہے اس بلدیاتی نظام کے تحت کام کرنے والے افراد کے اختیارات کے متعلق کسی قسم کی واضح پالیسی عوام کے سامنے موجود نہیں، بلدیاتی نظام کے تحت منتخب نمائندوں پر کسی قسم کا چیک اینڈ بیلنس نہیں رکھا گیا یہ نمائندے بالخصوص سندھ کے بلدیاتی نمائندے اختیارات نہ ہونے کا رونا روتے رہتے ہیں یونین کونسل کا فنڈ کہاں جاتا ہے کہاں استعمال ہوتا ہے عوام کو نہیں معلوم عوام کو ٹوٹی سڑکوں پر اسٹریٹ لائٹس نہ ہونے کی وجہ سے اندھیروں میں سفر کرنا پڑتا ہے کیا فاٹا میں بھی اسی قسم کا بلدیاتی نظام رائج کیا جائے گا یا اس فاٹا کے نظام میں کوئی مثبت تبدیلی لائی جائے گی؟

حکومت کو انضمام اور انتخابات کرانے کے بعد اس بات کو بھی سمجھنا ہوگا کہ ملک بھر میں کہیں بھی موجودہ بلدیاتی و صوبائی نظام سے تبدیلی نہیں آئی۔ موجودہ حکومت کو ایک سال ہونے کو ہے ملک میں آج بھی وہی کمزور بلدیاتی نظام رائج ہے۔ عمران خان نے انتخابی مہم میں اس بات کا اعلان کیا تھا کہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل کیے جائیں گے۔ امید ہے کہ آئندہ بلدیاتی انتخابات سے فاٹا سمیت میں ملک بھر میں بلدیاتی نظام میں تبدیلی کر کے ایسا نظام رائج کیا جائے گا جس کے بعد فنڈز اور اختیارات نچلی سطح پر منتقل کیے جائیں اور ناصرف منتقل کیے جائیں بلکہ بلدیاتی نمائندوں کی نگرانی بھی کی جائے کہ وہ اپنے کام کو صحیح سے انجام دے رہا ہے یا اس کے جانے کے بعد بھی ہمیں یہی سننا ہوگا کہ سابقہ نمائندہ سارا فنڈ کھا گیا آخر پانچ سال عذاب میں گزارنے کے بعد سابقہ نمائندوں کے خلاف تحقیقات کے سے عوام کو کیا فائدہ ہوگا؟ حکومت وقت کو فاٹا کے نظام کو عوامی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے ترتیب دینا ہوگا ورنہ نتائج حکومتی امیدوں کے برعکس بھی ہوسکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).