پاکستان کی عظمت کی پیش گوئیاں اور ٹرک کی بتی


\"malik-aftab-ahmed-awan\"

پچھلے ہفتے ایک بار پھر ایک ”مقبول“ کالم نگار کے کالم میں کسی صاحب علم کی جانب سے مستقبل قریب میں پاکستان کے ایک عظیم سلطنت کی بننے خوشخبری ایک سو پچاسویں بار پڑھی تو خیال آیا کہ لڑکپن میں جب قدرت اللہ شہاب کی کتاب شہاب نامہ پڑھنے کا موقع ملا تو اس میں نائینٹی اور دوسرے نامعلوم بزرگوں کی پاکستان کے بارے میں پیش گوئیاں اور ارشادات پڑھ کردل جذبہ ایمانی سے معمور ہو گیا تھا کہ واہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کتنی بڑی سعادت سے نوازا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں پیدا کیا ہے کہ جس نے دنیا کی تاریخ بدل دینی ہے اور ایک نہایت اہم کردار ادا کرنا ہے ۔ کچھ اور بڑے ہوئے تو ممتاز مفتی کی الکھ نگری پڑھی جس میں مریڑ چوک اور راولپنڈی کے مختلف محلوں میں مقیم بزرگ بھی پاکستان کے شاندار مستقبل کی پیش گوئیاں کرتے دکھائی دیے ۔ دل اور مطمئن ہوا کہ ہم جس ملک کے مقیم ہیں اس کے حالات بہت جلد بدلنے والے ہیں اور بہت جلد دنیا کی قیادت پاکستان کے پاس ہو گی اور ہم بھی فرانس یا جرمنی جیسے کسی چھوٹے موٹے صوبے کے منتظم اعلیٰ تو بن ہی جائیں گے ۔

جب جوان ہوئے تو زید حامد جیسے جہادیوں سے ملاقات ہوئی جنہوں نے ہمیں بتایا کہ جلد ہی ایک بہت بڑی جنگ ہند ہونے والی ہے جس میں حصہ لینے والے سب جنتی ہوں گے ۔ سچی بات ہے ہم ذرا ڈرپوک سے شخص ہیں اور لڑائیوں وغیرہ پر کوئی خاص یقین نہیں رکھتے مگر اس عظیم جنگ کی بشارتیں سن کر ذرا ہم بھی جذباتی تو ہوئے کہ ایک اور عظیم موقع ملنے ہی والا ہے ۔ چلو فرانس یا جرمنی کی نظامت نہ سہی کافروں کا قلع قمع کرنے والے کسی دستے کی قیادت ہی سہی ۔ اس کے ساتھ ساتھ دل کو تسلی ان کہانیوں سے بھی ملی کہ جو ہم نے جنگ ستمبر کے بارے میں سنی تھیں کہ جن کے مطابق سبز چغے والے بزرگ بموں کو جنوبی افریقہ کے لیجنڈری کرکٹ فیلڈر جونٹی رہوڈز کی طرح کیچ کرتے ہوئے دکھائی دیتے تھے ۔ کہ اگر بزدل دشمن نے جوابی کاروائی کے طور پر ہم پر کوئی بم وغیرہ گرانے کی کوشش کی تو ہمارے تحفظ کے لئے سبز چغے والے بزرگ تو ہوں گے ہی۔

مگر کچھ عرصے بعد یہ خیال آنا شروع ہوا کہ شاید قدرت اللہ صاحب کی ملاقات ان بزرگوں سے ساٹھ کی دہائی میں ہوئی ہو گی اور ممتاز صاحب بھی اپنے بزرگوں سے اسی دور میں ملے ہوں گے ۔ گویا ان پیش گوئیوں کو لگ بھگ پچاس ساٹھ سال تو گزر ہی چکے ہوں گے مگر ابھی تک ان کے پورا ہونے کے کوئی آثار دکھائی دینا شروع نہیں ہوئے ۔ بلکہ جب سے ہوش سنبھالا ہے پاکستان کو ایک کے بعد دوسرے بحرانوں کا شکار ہی دیکھا ہے اور وقت سے ساتھ ان بحرانوں کو گہرا ہوتے دیکھا ہے ۔ ایک اور خیال یہ آیا کہ کیا ان بزرگان کو سانحہ مشرقی پاکستان کا کوئی اندازہ یا خبر نہ تھی کہ انیس سو ساٹھ کی دہائی میں پاکستان کی عظمت کی پیش گوئیاں کرنے والے انیس سو اکہتر میں ہونے والے سانحہ عطیم سے بے خبر رہے ؟ کیا ان تمام پیش گوئیوں کا کا کوئی ٹائم فریم بھی تھا یا کہ نہیں ۔ دل کی تسلی کے لئے دوبارہ ان کتابوں کی ورق گردانی کی تو اندازہ ہوا کہ سب خوش خبریوں میں ”بہت جلد“ کا ذکر ہے ۔ اب معلوم نہیں پچاس ساٹھ سال بہت جلد کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ان خوش خبریوں کے راوی وہ وقت دیکھنے سے بہت پہلے ہی جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے ۔ غالب امکان یہ ہے کہ وہ بزرگ بھی اب موجود نہ ہوں گے ۔ مگر پیش گوئیوں کا سلسلہ رکا نہیں ۔ اب بھی آپ بہت سے کالم نگاروں کی تحریروں میں ایسے نئے بزرگوں کا ذکر پڑھتے رہتے ہیں جو کہ پاکستان کو جلد عظمت کی بلندیوں پر دیکھتے ہیں ۔ اگر واقعی ان بزرگوں کی پیش گوئیاں ”بہت جلد“ درست ہونے والی ہیں تو پھر ہمارے جہادی نوجوانوں کے لئے بری خبر یہ ہے کہ یہ کام انہی لوگوں کے ہاتھوں ہوتا دکھائی دیتا ہے جن کو ہم صبح شام گالیاں دیتے تھکتے نہیں کیونکہ اگلے چار پانچ سالوں میں کوئی نئی قیادت تو سامنے آتی دکھائی دیتی نہیں ۔ اور اگر اگر اب بھی یہ ”بہت جلد“ ہماری دیوانی عدالتوں کی تاریخوں کی طرح ہے تو خاطر جمع رکھیں جیسے پچھلے اسی امید میں ہمیں داغ مفارقت دے گئے اسی طرح ہم بھی ٹرک کی اسی بتی کے پیچھے بھاگتے بھاگتے اگلے چند سالوں میں اس دار فانی سے کوچ کر جائیں گے اور کچھ نئے بزرگ اور ان کے کچھ اور چیلے ہم سے بعد آنے والوں کو یہی خوش خبریاں سنایا کریں گے۔

\"malang-on-shrine-of-abdullah-shah-ghazi\"

پھر کچھ اور نامعقولوں سے واسطہ پڑا جنہوں نے ہمیں بتایا کہ جنگ ستمبر ہوئی توضرور اور اس میں ہمارے جوانوں نے بہادری کی فقیدالمثال داستانیں بھی رقم کیں مگر نتائج شاید وہ نہیں تھے جو کہ ہم پڑھتے رہے تھے بلکہ ملا جلا رجحان تھا دونوں طرف کا نقصان شدید تھا اور شاید اگر یہ جنگ فوراً ختم نہ ہوتی تو ہمارے پاس اسلحہ بھی کم پڑجانا تھا ۔ اب اگر اس جنگ میں ہماری یہ کارکردگی تمام سبز چغے والوں کی مدد کے باوجود تھی تو ذرا سوچیے کہ اگر وہ نہ ہوتے تو ہمارا کیا حال ہوتا ۔ اس پر ہم یہ سمجھنے لگے کہ چونکہ اکہتر اور کارگل میں ہمیں سبز چغے والوں کی کمک حاصل نہ تھی تو اس لئے ہماری فوج کی کارکردگی ہماری ون ڈے ٹیم سے کچھ بہتر نہ رہی ۔ مگر صاحبو آخر ہم نے نتیجہ یہ نکالا کہ اگر پاکستانی فوج اپنی تاریخ کی سب سے بڑی، طویل اور سخت ترین جنگ یعنی طالبان اور دہشت گردی کے خلاف جنگ بغیر کسی غیبی مدد کے لڑ سکتی اور جیت سکتی ہے تو یقیناً پینسٹھ کی جنگ میں بھی ان کی کارکردگی اپنے دم پر اور اپنے جوانوں اور افسروں کی شجاعت کے دم پر ہی تھی نہ کہ کسی غیبی امداد کے بل پر اور اور خود سے کئی گنا بڑے دشمن کے مقابلے میں بہت اچھی تھی ۔

آہستہ آہستہ ہمیں یہ سمجھ میں آنے لگا کہ قدرت ملکوں اور قوموں کے معاملات میں مداخلت کی عادی نہیں بلکہ ملکوں اور قوموں کی قسمت کے فیصلے ان ملکوں اور قوموں کی مجموعی کارکردگی، منصوبہ بندی، پیش بینی اور اجتماعی اخلاقیات کی بنیاد پر کرتی ہے اور اس میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں کرتی ۔ اگر سیدھا سیدھا کہا جائے تو یہ کہا جائے گا قدرت کے کوئی فیورٹ نہیں ہوتے ۔ قوموں اور ملکوں کے عروج و زوال کے کچھ اصول ہوتے ہیں انہی کی بنیاد پر قومیں عظمت کی بلندیوں پر پہنچتی ہیں یا زوال کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرتی ہیں ۔ اور پاکستانی قوم بھی تب ہی عظمت کے راستے پر چلے گی جب ان اصولوں کی پیروری کرے گی وگرنہ ایک دو نہیں سینکڑوں لوگ پاکستان کی ترقی کی پیش گوئیاں کرتے رہیں اور سستی شہرت کے طالب کالم نگار ان کی تشہیر کرتے رہیں کچھ نہیں ہونے والا ۔ اور جب قومیں ان ترقی کے اصولوں پر عمل پیرا ہو جائیں تو ملائشیا، ترکی اور امریکہ کی طرح بغیر کسی بزرگ کے دستِ شفقت کے عظمت کی بلندیوں کو چھو لیتی ہیں ۔

کچھ نیک دل بزرگوں کی یقیناً ہماری طرح یہ خواہش ہوتی تھی اور ہوتی ہے کہ پاکستان ایک عظیم ملک کا رتبہ حاصل کرے اور اقوام عالم میں منفرد مقام حاصل کرے مگر نظام قدرت ان نیک دل بزرگوں کی خواہشات جنہیں ہم پیش گوئیاں سمجھتے رہتے ہیں کا پابند نہیں ۔ یہ پیش گوئی فروش کالم نگار پچھلے کئی سالوں سے ہمیں اگلے محرم کی تاریخیں دے رہے ہیں کہ اس کے بعد معجزات رونما ہوں گے آسمانوں سے پاکباز قیادت اترے گی اور دنیا پاکستان کے ویزے کی خواہش کیا کرے گی ۔ اطمینان رکھئے گا ۔ نہ پچھلے اور اس سے پچھلے محرم کے بعد ایسا ہوا نہ اگلے اور اس سے اگلے محرم کے بعد ایسا کچھ ہو گا ۔ ہاں البتہ پاکستان ارتقاء کے مراحل سے گزرتا ہوا، اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتا ہوا یقیناً آگے بڑھے گا ترقی کرے گا اور دنیا میں بلند مقام حاصل کرے گا مگر ایسا پاکستانی عوام کی محنت اور جدوجہد کے طفیل ہوگا کسی کی دعا کی وجہ سے نہیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments