پیاری ہے قربانی


\"Sarwat

بڑی عید، بڑا کاروبار، بڑی رونق اور بڑے مزے ! جی جناب قصائیوں اور جانوروں کے بیچ جاری رسہ کشی ختم ہوئی۔ گلی محلوں میں کل رات تک بیلوں کے گلو بند اور بکروں کی پائل کی چھن چھن کرتی مانوس آوازیں عید قرباں کی سہ پہر تک چاپڑ کی بغدے پر پڑنے والی ضرب کی گونج میں تبدیل ہوچکی تھیں ۔ چڑھی ہوئی منڈی میں بیوپاریوں نے چاند رات کی صبح تک کسی شاطر کاروباری کی طرح من مانے نوٹ کھرے کیے ۔ لاکھوں جانوروں کے عوض ملک بھر میں 220 ارب روپے مالیت سے زائد کا کاروبار ہوا۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسلامی دنیا میں سعودی عرب کے بعد پاکستان میں عید قرباں پر سب سے زیادہ مالیت کی قربانیاں ہوتی ییں اور اندازہ ہے کہ رواں سال ایک کروڑ بائیس لاکھ افراد سے زائد افراد یہ سنت ادا کر رہے ییں ۔ نسبتاً پسماندہ اور ترقی پذیر ملک میں دینی فریضہ کی ادائیگی میں پیش پیش ہونا بلاشبہ مسلمانوں کی جانب سے قابل ستائش عمل ہے۔ دوسرے الفاظ میں سنت ابراہیمی ایک طرف مگر شوق اور نمود و نمائش کا کوئی مول نہیں۔

بڑی عید کا روایتی حسن بلاشبہ ہمارے نوجوان ہیں جو ٹولیوں کی شکل میں دن رات من چاہی گائیوں، بچھڑوں اور بیلوں کی خدمت پر مامور نظر آتے ہیں ۔اسی طرح چھوٹے بچے اپنے گھر کے دروازے پر بندھے بکرے کے گلے میں بانہیں ڈالے اسے کھلانے پلانے اور گلی میں گھمانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ گذشتہ برس سے میڈیا کے عطا کردہ سیلفی ٹرینڈ سے ہماری نسل کے بعد اب قربانی کے جانور بھی نہ بچ سکے اور گھر گھر کے جانور سجے سنورے سوشل میڈیا پر پوز کرتے نظر آئے ۔ ہر نوجوان کا شوق کہ اسے اس کے اعلی نسل کے خوبصورت جانور کے مالک کی حیثیت سے جانا جائے۔ بنٹی، شیرو نامی ڈانس کرنے والے بکرے، ڈان، دبنگ، سلطان، راجا نامی دیو قامت اور خوبصورت بیلوں سمیت مشیل اور اوباما کی سیاہ جوڑی نے منڈی میں اپنے گرد رش لگایا جن کے سامنے میری اور آپ کی متوسط گائیں بھی اگر دنیا میں ہوتی تو شرماجاتی۔ ہاتھ میں رسی جب ہزاروں کے نہیں بلکہ لاکھوں کی مالیت کے جانور کی ہو تو مالک کا فخر قابل دید ہوتا ہے اور دلچسپ امر یہ ہے کہ آس پاس کے لوگ جانور کی قیمت جاننے کے لیئے بے چین نظر آتے ییں ۔ کتنے کی لی ایک ایسا سوال ہے جس کی بازگشت ہر گلی میں لگی قنات کے اندر کھڑے بڑے جانور کے مالک کی قناعت پسندی کا ثبوت اس سال بھی دیتی رہی۔

اب کچھ ذکر قصائیوں کا جن کی دید کے بغیر اس عید کا لطف ادھورا ہے۔ پیشے سے نہ بھی ہوں مگر ہاتھ میں مڈی اور چھری لیے عید پر جو نظر آگیا مان لیں کہ وہ قصائی ہے۔ پارچے اور پائے اگر مہارت سے نہ بنائے تو سمجھ جائیں کہ وہ اپنے شعبے میں کھلاڑی نہیں اناڑی ہے ۔ پھر بھی ان کی بروقت خدمات کے اعتراف میں ان کو اجرت کے ساتھ گائے کی سری دینے کا دل چاہتا ہے۔ یہ برساتی قصائی جانور کی مالیت اور جسامت کی مناسبت سے ریٹ طے کرتے ییں ۔ ایسے میں قصائی کے فن سے زیادہ ان کے موڈ اور ان کے چائے پانی کا خیال رکھا جاتا ہے ۔اگر نماز عید کے فوری بعد آپ کے ہاتھ قصائی کا گروپ آگیا تو مان لیں کہ آپ سے زیادہ نصیب والا کوئی نہیں ۔ کھال اور چربی صفائی سے اتارے میرا مطلب ہے جانور کی، گوشت کا کیا ہے جناب بوٹیاں بنانا تو آپ اب تک سیکھ ہی چکے ہوں گے۔

قربانی کے گوشت کا قصہ قصائی کے ہاتھ سے نکل کر گھر کی خواتین تک آتے ہی گویا مشن کچن تیز دھار چھری سے مزید تیز ہوجاتا ہے اور قصائی اگر ڈھنگ کا ملا ہو تو کلیجی اور پھیپڑے ناشتے پر ہی بھون لیئے جاتے ییں جبکہ بقیہ گوشت کی صفائی کے بعد اس کے پارچے، بوٹی، قیمہ یا کوفتے بنا کر فریزر بھر دیا جاتا ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ ایسے وقت میں رشتہ داروں، پڑوسیوں اور غریبوں کے لیئے حصے بناتے ہوئے بڑا دماغ لڑایا جاتا ہے ۔ جہاں سے زیادہ اور صاف گوشت آیا وہاں اس سے بہترین حصہ بھیجا جاتا ہے کہ عزت میں کمی نہ ہوجائے ۔ ہونے والے سمدھیانے میں تو بکرے کی ران تک بھیج دی جاتی ہے مگر ساتھ والوں کی طرف جہاں قربانی ہوئی ہی نہیں وہاں ایک پاؤ گوشت وہ بھی ہڈی اور چربی ملا برائے نام گوشت دے کر گویا جان چھڑائی جاتی ہے۔ سوال یہ یے کہ کیا سارا سال گوشت کے پکوان کھانے والےنمکین عید کے موقع پر بھی ان غریب گھرانوں کی سفید پوشی کا بھرم قائم نہیں رکھ سکتے جو ہاتھ پھیلا کر اپنا حصہ نہیں مانگتے،جنھیں عام دنوں میں صرف دال یا سبزی بھی مہنگائی کے باعث مشکل سے نصیب ہوتی ہے ۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ اگلے روز اپنے گھر ہونے والی سیخ کباب اور تکے کی دعوت کے لیئے مصالحہ لگا کر فریز کیے جانے والے گوشت کی مقدار کم کرکے اسے مستحق افراد کے دسترخوانوں تک پہنچایا جائے ! جن کے گھر آپ پورا سال جھانکتے تک نہیں کہ کوئی بھوکا تو نہیں سو گیا۔ عید قرباں پر ایک سے زائد یا اجتماعی قربانی کا اصل مقصد اسی وقت پورا ہوتا ہے جب آپ اسے بانٹتے وقت بھی اپنی انفرادی ضرورت کا نہیں بلکہ اجتماعیت کے احساس کو دل میں جگہ دیں اور مساوی بنیاد پر اسے تقسیم کریں ۔ بے شک عید خوشیاں اور مسرتیں بانٹنے کا نام ہے

عید پر نمکین چٹ پٹے لذیذ پکوان کا ذکر ہو تو کچھ تذکرہ چٹ پٹی خبروں کا بھی ہو جائے ۔ سربراہ مملکت نے چھوٹی عید کی طرح بڑی عید بھی رائے ونڈ کی جگہ بیرون ملک منائی ہوتی تو یقینی طور پر ہمارے میڈیا کی ٹاپ اسٹوری بن جاتی۔ رائے ونڈ سے یاد آیا، عمران خان نے نتھیا گلی میں بکرے قربان کیے ۔ یاد رہے کہ عید قرباں کے بعد کپتان کا رائے ونڈ کی جانب مارچ کا ارادہ ہے ۔ ایک اور بریکنگ نیوز ملاحظہ کریں، اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے چھری اٹھالی، اپنی گائے خود ذبح کی ۔ گویا آپ کی اور میری گائے پر چھری پڑوسیوں نے پھیری ہے ! شیخ رشید نے اونٹ قربان کرنے سے قبل اسے پیار کیا۔ عمر اکمل نے اپنے بکروں کو چارا کھلایا۔ گلوکار وارث بیگ قصائی کی راہ تکتے رہ گئے۔ کراچی کے میئر یعنی کینڈڈ میئر وسیم اختر نے جیل سے پیغام دیا کہ شہری کراچی کو اپنا شہر سمجھیں اور صفائی کا خود خیال رکھتے ہوئے انتظامیہ سے تعاون کریں۔ عید کے روز کوئٹہ میں گداگروں کی جانب سے قربانی کا گوشت فروخت کرنے کی اطلاع بھی حیران کن محسوس ہوئی۔
عید قرباں کے پہلے روز عوام نے بھرپور انداز میں قربانی کی ادائیگی میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ بار بی کیو بنا کر کھانے میں بھی کسی سے پیچھے نہ رہے ۔ فوڈ اسٹریٹ پر لذیذ کباب اور ہنٹر بیف بنوا کر اڑائے تو کسی کے حصے میں گائے کے پائے آئے ۔ ہمارے ایک ساتھی نے اس موقع پر کیا خوب بات کہ ڈالی کہ قربانی کا گوشت کھاتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کے سامنے قومی خزانہ نہیں ہے۔ گوشت پر خود قربان نہ ہو جائیں بلکہ قربانی کے جذبے کی اصل روح اور مقصد کو سمجھتے ہوئے اس جذبے کو اپنے طرز زندگی میں شامل کرنے کی کوشش کریں ۔ یقین کیجیئے اپنی ہر دل عزیز شے کی قربانی کے بعد آخرت میں تو جو ملے گا اچھا ہی ہوگا لیکن زندگی سچی خوشیوں سے بھر جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments