ہم ماں کی زباں بول رہے ہیں


اگر کوئی آپ سے سوال کرے کہ اظہار کا سب سے بہترین وسیلہ کیاہے؟ تو آپ کا جواب کیا ہوگا۔ یہ تو آپ خود ہی بتا سکتے ہیں۔ لیکن یہ سوال اگر ہم سے کیا جائے تو جواب ہوگا ”زبان“ یقیناَ آپ سب اس سے اتفاق کریں گے۔ زندگی کے کسی بھی پہلو کے بارے میں اگر کوئی مسئلہ، کوئی تجویز، اجتماعی خیالات یا کسی بھی طرح کا موقف دینے کے لیے ساری دنیا میں یہی اصول رائج ہے کہ اقوام عالم اپنی سوچ کے اظہار کے لیے اپنی زبان کا انتخاب کرتیں ہیں۔ اور یہی درست ہے۔

دنیا کے کسی بھی ملک میں جائیں یا بصورتِ مجموعی معاشروں کا جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہے کہ لوگ زبان وبیان کے اظہار کے لیے اپنی قومی یا مادری زبان کا انتخاب کرتے ہیں۔

پاکستان میں بھی یہی رواج عام ہے۔ ہماری قومی زبان اردو ہے اس میں تو کوئی دو آراء نہیں ہے۔ مادری زبانیں مختلف ضرور ہیں لیکن اردو زبان کا سب سے حسین پہلو یہ ہے کہ اس لشکر میں ہر زبان کو سمویا جا سکتا ہے۔ یہ رابطے کی زبان ہے اسی لیے تھوڑی سی ملاوٹ اور لہجے کے فرق سے اسے ہر قومیت رکھنے والے افراد با آسانی سمجھ بھی لیتے ہیں اور اپنا بھی لیتے ہیں۔

لیکن ہمارا آج کا موضوع وہ نا انصافی ہے جو ہم کہیں بھی دانستہ اور کہیں نادانستہ طور پر اپنی قومی زبان اور اشتمالی طور پر اپنی قوم کے ساتھ کر رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہم اخبارات، میڈیا، اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں ایک دوسرے سے رابطے کے لیے قومی زبان ہی کو وسیلہ بناتے ہیں۔

تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہم اپنی زبان کو عزت نہیں دیتے یا یوں کہہ لیں کہ ہم نے قومی زبان کو اس طرح قبول نہیں کیا جیسا کہ باقی دنیا میں قومی زبان کو عزت دی جاتی ہے۔

اور اس میں سب سے زیادہ قصور ہمارے تعلیمی ادارے اور اس محروم سوچ کاہے جس کو ہمارے اذہان میں شامل کر دیا گیاہے۔ ہم ستر سال میں ایک اچھی تعلیمی پالیسی تک تشکیل نہیں دے سکے۔ ہم یہ طے نہیں کر پائے کہ ہم اپنے بچوں کو کس زبان میں تعلیم دیں۔ کہیں اردو میڈیم، کہیں انگریزی میڈیم کہیں اولیول، کہیں کیمرج سسٹم، کہیں فیڈرل بورڈ، کہیں کیتھولک بورڈ، کہیں دیسی بورڈز واقعی ہم بڑے باکمال لوگ ہیں۔ ہر شعبہ ہائے زندگی میں ابہام کا شکار۔ کنفیوز قوم۔

لیکن سب سے زیادہ ظلم ہم خود پر یہ کر رہے ہیں کہ تعلیمی ودیگر اداروں کو تو ایک طرف رکھیں ہم اپنی ذاتی زندگی میں بھی طے نہیں کر پاتے بھی کہ وسیلہ اظہار کے لیے ہم کون سی زبان اختیار کریں۔ ہمارے معاشرے میں ایک چھوٹا سا طبقہ ایساہے۔ جس نے انگریزی زبان کو ”علم کی معراج“ کے طور پر پیش کیاہے۔ ایسا سمجھا جاتا ہے ایسا ہے نہیں یقین کیجیے دنیا میں موجود سینکڑوں زبانیں محض رابطے کا ذریعہ ہیں۔ امارت کے اظہار کا ذریعہ ہرگز نہیں ہیں۔ علم کو علم کا مقام دیں اور رابطے کو رابطے کا ان دونوں کو آپس میں خلط ملط نہ کریں۔ کیونکہ ایسا کر کے ہم کسی اور پر نہیں خود پر ظلم کرتے ہیں۔

اظہار کے لیے اس ذریعے کو استعمال کریں جس سے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک آپ کا پیغام پہنچ سکے یہی کامیابی کی کلید ہے۔ ہمارے مشاہدے میں اکثر یہ بات آئی ہے کہ ہمارے بہت سارے نوجوان محض انگریزی زبان پر عبور نہ ہونے کی وجہ سے خواہ مخواہ کے احساس کمتری میں مبتلا رہتے ہیں۔ حالانکہ وہ علم، عقل دلیل ہر محاذ پر کہیں زیادہ بہتر اظہار رائے رکھتے ہیں۔ انگریزی زبان سے ہمیں ہر گز اختلاف نہیں ہے۔ جہاں ضرورت ہے وہاں استعمال کریں۔

لیکن اردو زبان کی حیثیت کم نہ کریں اسے اپنائیں۔ آپ کی زبان آپ کا فخر ہونا چاہیے آپ کی ندامت نہیں۔ دنیا کے کتنے ممالک کی مثالیں موجود ہیں بلکہ جنہوں نے اپنی قومی زبان کو اولیت دے کر ہی ترقی کی ہے۔ چائنا، جرمنی، ترکی، ایران، جاپان، کتنے ایسے ممالک ہیں جنہوں نے اپنی زبان کو اپنا ہتھیار بنایا ہے۔ آپ جرمنی کی کسی یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لیے پہلے جرمن لینگویج کورس کرنے کے پابند ہیں۔ آپ تہران یونیورسٹی جائیں تو پہلے فارسی میں مہارت ضروری ہے۔ آپ یورپ وامریکہ کے کسی یونیورسٹی جائیں تو انگلش کورسسز کرنے کے پابند ہیں۔

لیکن اپنی زبان کے معاملے میں اتنے غریب ہیں کہ غلط اسپییلنگ کی نشان دہی پر خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ گرامر کی غلطی ہو جائے تو ہماری ساری خوداعتمادی مجروح ہو جاتی ہے۔ یہ غلط رویہ ہے اس قسم کے رویے بیمار معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔ ضروری ہے کہ ہم اس فرق کو واضح کرلیں کہ کسی بھی زبان پر عبور حاصل کرنا اور کسی فرد کی قابلیت جانچنا دو علیحدہ موضوعات ہیں۔ قابلیت زبان سے مشروط نہیں ہے۔ زبان قابلیت کے اظہار کا ذریعہ ہے۔

اس کا انتخاب فرد کا بنیادی حق ہے۔ ہم کسی بھی فرد کی انفرادی قابلیت کو طے کرنے کے لیے کسی مخصوص زبان کو ہتھیار نہیں بنا سکتے۔ زبان امارت کے اظہار کا ذریعہ نہیں بنایا ہوتی اگر ایسا ہوتا تو اردو، فارسی، عربی دنیا کی سب سے دولت مند زبانیں ہیں اگر آپ کسی زبان کی امارت کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں تو اس زبان کا ادب پڑھیں۔ ادب سب سے بہترین پیمانہ ہے اس امارت کو جانچنے کا

جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی

کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی

کیا کسی اور زبان میں ہے اتنی امارت اس ایک شعر کی تشریح کریں جس زبان پر آپ کو عبور حاصل ہے۔ اس میں لکھیں۔ میرادعوی ہے کوئی ماہر لسانیات اس سے عمدہ الفاظ تشکیل دے ہی نہیں سکتا۔

کہ لہذا دوستوں خوفزدہ ہونا چھوڑیں اظہار کریں یاد رکھیں آپ سب سے بہتر انداز میں اپنی بات قارئین اور سامعین تک اس وقت پہنچا سکتے ہیں جب آپ جس زبان میں سوچتے ہیں اسی میں اظہار خیال کریں۔ کیوں کہ ایسی صورت میں الفاظ دل سے نکلیں گے۔ ان میں مصنوعی پن نہیں ہوگا۔

دل سے نکلی ہو جو بات اثر رکھتی ہے۔ اپنی مادری زبان اپنی قومی زبان کو اپنائیں اسی میں ترقی کا راز پنہاں ہے۔

بچپن نے ہمیں دی ہے یہ شیرینئی گفتار

اردو نہیں ہم ماں کی زباں بول رہے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).