کراچی اور امن کی فاختہ


\"KARACHI,   مجھے یاد ہے، ہماری کہکشاں کا نام محبت تھا۔ ہمارے پیار کا ابدی سورج طلوع ہو رہاتھا۔ اس سے ایک سنہری راستہ نکلتاتھا، روشنی کاراستہ، ہم نے ایک دوسرے کے نام کے دیئے جلائے اوردیئے گہرے سمندر کے حوالے کر دیئے۔ ہمیں یقین تھا کہ یہ افق کے پار اسی سورج سے جا ملیںگے۔ تب ہماری بولیاں جدا تھیںلیکن بول باہم ملے ہوئے تھے، ہما رے کئی مشرب تھے مگر شراب ایک سی تھی۔ ڈھلے ہم مزارقائد کی سیڑ ھیوں پر بیٹھے ایک دوسرے سے عہدوپیمان لے رہے تھے وہاںآج پچاس برس بعد ©پھولوں کی بھینی بھینی مہک قائد کا پیغام لئے ہم سب کی منتظرہے”ایمان، اتحاد، تنظیم اور ایثار“

   ”کراچی “جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب کبھی” دیبل“ کہلاتا تھا، یعنی ہند میں پیام امن وسلامتی کا افتتاحیہ، سطح مرتفع بلوچستان اور وادی مہران دونوں کے ساحلی سنگھم پر واقع ”کلاچی“، سندھ کے مسلم حکمرانوں کیلئے ماہی گیروںکی ایک بستی تھی، کلاچی ایک بڑھیاکانام تھا، بعض وقتوںمیں یہ گاوں خان آف قلات کی ملکیت بھی رہا، اس میںکچھ شک بر طانوی سامراج نے اسے شہری خدوخال بخشے، اور اس کے دامن کوایمپر یس مارکیٹ، لائٹ ہاوس اور میری وید ٹاورجیسے نقش و نگار سے مزین کیا، گوتھک طرز تعمیرکے فریئیرہال اوراجستھانی عمارت سازی کے شاہکارموہٹہ پیلس بھی گوروں کی عہد کی یاد گاریں ہیں، قیام پاکستان کے بعدکراچی مہاجرین کیلئے آغوش مدینہ کی طرح تھا، اس طرح یہ شہر ”اجڑتی ہوئی دلی“کی مسلم تہذیب وثقافت کاایک بقیہ تھا۔

کراچی کے اولین باشندوں میں سندھی، کچھی، بلوچی، گجراتی اور میمن، پارسی، مسیحی، ہندواوریہودی وغیرشامل تھے۔ پھرمہاجریں کی آمد سے یہ شہرسب رنگ کا مجموعہ ہو گیا، مگر یہ سب سہانے وقتوں کی باتیں ہیںبحیرہ ¿ عرب سے بڑاد ل رکھنے والے اس شہر نے زخمی حالت میں بھی، برمی، عربی، ویتنامی اورافغانی متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھا اور انہیںگوشہءنجات مہیا کیا، آج بھی کراچی ایک سرائے عام کی طرح ہے، جہاں لاکھوں دینی اور عصری علوم کے پیاسے یہاں کشاں کشاں چلے آتے ہیں، ہزاروں سرمایہ کارواں کیلئے مواقع کی جنت ہے، اور ایک مزدور کیلئے دو وقت کی روٹی بھی ہے، اس کے باوجود، ملک کو ۵۶فیصدآمدنی کما کر دینے والا کراچی، سراسر تہذیبی شہر ہے، جسے” روشنیوں کاشہر“ کہاجا سکتا ہے۔

 قرار داد پاکستان کو سب سے پہلے منظور کرنے والی سند ھ اسمبلی، اس سے وابستہ افراد، ان سے ملے حلقوں سے آتی ہوئی ”سندھودیش اورجناح پور“کی آوازیںاور ہمارے چھٹتے ہوئے ہاتھوں کی کہانی ایک داستانہ پوش قاتل کے رنگین ہاتھوں سے شروع ہو تی ہے، جو ایک عرصے سے اس شہرکے خون میں مصروف ہے۔ مگراپنی جہد، محنت اورخلوص پرہمیںیقین ہیکہ ضرور ایک نہ ایک دن آستین کالہو پکار کر خونی کوبے نقاب کرے گا۔ سپہ سالارنے بجا کہا”کراچی کا امن پاکستان کا امن ہے“ملکی اقتصادی ترقی اور خوشحالی کا راز اسی بستی میں ہے۔ کراچی ایک منی پاکستان ہے اور ملک کااقتصادی دار الحکومت ہے۔ اب ہمیںاچھی طرح جان لیناچاہیئے کہ شہر قائدکی جان، امن کی فاختہ میں ہے۔

ایک حدیث رسول کا مفہوم ہیکہ مدینہ کو زیادہ وسعت نہ دینا، بلکہ نئے شہر آباد کرنا، یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام ؓمفتوح علاقوں کئی شہر بسائے۔ اقبال ؒ کے مطابق شہر کی وسعت منفی سرگرمیوں کو جگہ فراہم کرتی ہے۔ اورکراچی رقبہ کے لحاظ سے دنیا آٹھواں بڑا شہر ہے، چناچہ حکومت کو چاہیئے کہ کراچی کے انتظامات میں نئی جہات متعارف کر وائے اور اضافی اقدامات کرے۔ تاکہ منفی سرگرمیاں پنپ نہ سکیں۔ مزید اور

سچا اور صحیح دینی شعور بیدار کیا جائے۔

ثقافتی وادبی تقریبات کاانعقاد کیا جائے اور تہذیبی اقدار کو فروغ دیا جائے۔

ہر شہری کوآزادی  رائے کا موقع دیا جائے۔

کمیونٹی ریڈیو سروس کا اجرا کیا جائے۔

امن کے حصول کیلئے انصاف کا راستہ اپناےا جائے۔

کراچی گورنمنٹ کو ہر ماہ تین ارب روپے کا بجٹ حالات کی درستگی کیلئے دیا جاتاہے۔ اس کادیانت سے استعمال کیا جائے۔

کسی شہری کی طرف سے بدامنی کی شکایت، احتجاج کی ایک شکل ہو سکتی ہے۔ سو شہریوں کی سہولیات وضروریات پورا خیال رکھا جائے۔

ان سب تجاویز میں دینی مدارس کے طلبہ کو شریک کیا جائے۔

موٹروہیکل ٹیکس کراچی کی انتظامیہ ہی کو ملنا چاہیئے، تاکہ حاصل شدہ آمدنی سے کراچی کی سڑکوں کی مرمت کی جائے۔

بمبئی جیسے شہر کو ”وفاق وصوبہ“دونوں اشتراک سے سنبھالتے ہیں۔ ایسی بھی کسی تجویز پر غور ہو سکتا ہے۔

پولیس وانتظامیہ کو سیاسی دباو سے آزادکیا جائے۔

شاہ لطیف، ؒسندھ کی عظیم روحانی ہستی، ”سرگھاتو“میں”کلاچی“کے سات بھائیوں کی محبت واخوت کا واقع نقل کرتے ہیں۔ آج پھرکراچی کو اسی زاد محبت کی ضرورت ہے۔

محمد ابوبکر صمدانی
Latest posts by محمد ابوبکر صمدانی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments