کشمیر: سانس لینا بھی مشکل ہو گیا


\"edit\"بھارتی فورسز نے مقبوضہ کشمیر کو عملی جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ عید الاضحی کے دوسرے روز بھی سخت ترین کرفیو نافذ تھا اور ٹیلی فون و انٹرنیٹ کی سہولتیں معطل ہیں۔ دو ماہ کے دوران مظاہرین پر بھارتی سکیورٹی فورسز کے ظلم و تشدد کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد 80 ہوگئی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ چھروں بھرے کارتوس استعمال کرنے کے بعد اب مرچوں بھرے گولوں کا استعمال شروع کیا گیا ہے۔ بی بی سی کے رپورٹر نے صورت حال پر تجزیہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اب مقبوضہ وادی میں عملی طور پر سانس لینا بھی دشوار ہو چکا ہے۔ مرچوں والے گولے گنجان آبادیوں میں پھینکے جاتے ہیں اور ان کا اثر کھڑکیاں دروازے بند کرنے کے باوجود گھروں میں محبوس لوگوں پر بھی ہوتا ہے۔ اس طرح بچے اور خواتین بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر زید رعد الحسین نے آج جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے 33 ویں اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اقوام متحدہ کے غیر جانبدار مبصرین کا جانا لازمی ہو چکا ہے، کیوںکہ وہاں پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے نمائندے نے اس تصور کو غلط قرار دیا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کسی ملک کا اندرونی معاملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ویانا ڈکلریشن کے مطابق انسانی حقوق کا معاملہ قومی نہیں عالمی مسئلہ ہوتا ہے۔ اگر آپ کچھ چھپانا نہیں چاہتے تو ہمارے نمائندوں سے کیوں خوفزدہ ہیں۔

بھارت نے حسب دستور اقوام متحدہ کی طرف سے صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے مبصر بھیجنے کے مطالبہ کو مسترد کیا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سروپ نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی جمہوریت صورت حال سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے زیر انتظام اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں یہ فرق ہے کہ بھارتی کشمیر میں ایک جمہوری حکومت ہے لیکن پاکستانی کشمیر میں حکمران مسلط کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے ایک بار پھر دہشت گردی کو انسانی حقوق کی سب سے بڑی خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ یہی انسانی حقوق کمیشن کو ہمارا جواب ہے۔ بھارتی ردعمل سے واضح ہوتا ہے کہ اپنی تمام تر سفارتی قوت اور معاشی کشش کے باوجود کشمیر کے سوال پر بھارتی لیڈروں کے پاس جھوٹ بولنے اور اس پر اصرار کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ کشمیر کو ایک قید خانہ میں تبدیل کرکے اور وہاں کے عوام پر مواصلت کے تمام راستے بند کرنے کے باوجود بھارت نہایت ڈھٹائی سے یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ وہاں ایک جمہوری حکومت قائم ہے اور بھارتی جمہوریت اس صورت حال سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کا جمہوری چہرہ کشمیر میں سکیورٹی فورسز کے مظالم اور دو ماہ سے زائد عرصے تک کشمیریوں کو ہراساں کرنے کے طریقہ کار کی وجہ سے داغدار ہوچکا ہے۔ بھارت اپنی مرضی مسلط کرنے کو جمہوریت کا نام دیتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں منعقد ہونے والے انتخابات کو کشمیری عوام اور ان کے نمائندوں نے کبھی قبول نہیں کیا۔ اسی لئے ان کے نتیجے میں جو بھی حکومت قائم ہوتی ہے وہ عوام دوست کم، نئی دہلی سرکار کی تابعدار زیادہ ہوتی ہے۔ ان جاہ پسند لیڈروں کو صرف اپنے مفادات اور سیاسی کیریئر کی فکر ہوتی ہے۔ نہ وہ عوام کے نمائندے ہیں اور نہ ہی عوام کے مصائب اور تکلیفوں میں ان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔

کشمیر کی صورت حال کے حوالے سے بھارتی ترجمان کا بیان براہ راست غلط بیانی اور جھوٹ پر مبنی ہونے کے علاوہ حقیقت حال کا عکاس بھی نہیں ہے۔ کسی بھی وفاقی انتظام میں انتظامی اور سیاسی اکائی کو کسی بھی قسم کی صورت حال سے نمٹنے اور اس کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق اور اختیار ہوتا ہے۔ مرکزی حکومت اس کے فیصلوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں کرتی۔ مقبوضہ کشمیر کی نام نہاد ’’منتخب‘‘ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی ریاست میں سیاسی حل، برہانی وانی جیسے نوجوانوں کے ساتھ بات چیت کرنے اور عوام کے ساتھ تعلق اور مواصلت بحال کرنے کی بات کر رہی ہیں۔ اس کے برعکس نئی دہلی سرکار کشمیری عوام کے حق خود اختیاری کے مطالبہ کو غداری اور ملک دشمنی قرار دے کر ان تمام لوگوں کی آوازیں بند کروانے کی خواہشمند ہے جو کشمیری عوام کے بنیادی جمہوری حق کی بات کرتے ہیں۔ اس طرح اس وقت مقبوضہ وادی میں عوام کے احتجاج کا سامنا کرنے کے لئے ریاستی ادارے بے اختیار اور جزو معطل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ نئی دہلی کی حکومت وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کی براہ راست سرکردگی میں کشمیر میں کارروائی کی نگرانی کر رہی ہے۔ اس طرح وفاقی جمہوریت کے بنیادی تصور کو مسترد کرتے ہوئے آمرانہ طور طریقے اختیار کئے گئے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں اس وقت 4 لاکھ بھارتی فوج، ڈیڑھ لاکھ پولیس اور ایک لاکھ کے لگ بھگ مختلف سکیورٹی اداروں کے اہلکار متعین ہیں۔ عوام کے احتجاج کے خلاف آپریشن کرنے کا سارا اختیار فوج کے پاس ہے۔ اس کی نگرانی اور ہدایت پر مختلف علاقوں میں جلوس منتشر کرنے، لوگوں کو جمع ہو کر بات کرنے اور اپنے حق کے لئے آواز بلند کرنے سے منع کرنے کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ اب بھارت کو مجبوراً تسلیم کرنا پڑا ہے کہ بھارتی حکومت مظاہرین پر کنٹرول کرنے اور تشدد پر قابو پانے کے لئے فوج کو استعمال کر رہی ہے۔ دو ماہ سے عوام کی آواز کو گولیوں، چھروں اور چلی (مرچوں والے) بم سے دبانے کی ناکام کوششوں کے باوجود بھارتی حکومت نام نہاد جمہوریت کی کامیابی کا کھوکھلا اور مضحکہ خیز دعویٰ کرنے میں مصروف ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کشمیر کی بند گلیوں اور بازاروں، آزادی کے لئے ہر موقع پر آواز بلند کرتے نوجوانوں اور پرامن مظاہرین پر اسلحہ اور ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کرنے والے فوجیوں کی بے بسی کی صورت میں بھارتی جمہوریت کا جنازہ نکل رہا ہے۔ جمہوری لیڈر اور حکومتیں عوام کی آواز کو دبانے کی بجائے انہیں سننے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن بھارتی حکومت وہ واحد جمہوری گروہ ہے جو مذاکرات کی بجائے بندوق کا سہارا لے کر جمہوریت کی فتح کا اعلان کر رہا ہے۔

بھارت کے دانشوروں، سیاستدانوں اور اہل الرائے نے مسلسل تشدد بند کر کے کشمیری عوام اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ یہی مشورہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن پارٹیوں نے بھی دیا ہے۔ کشمیر میں حریت کانفرنس کے لیڈر بھی مذاکرات کی بات کر رہے ہیں۔ پاکستان نے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے مذاکرات کی باقاعدہ دعوت دیتے ہوئے یہ پیشکش بھی کی تھی کہ دیگر معاملات کو چھوڑ کر دونوں ملک صرف کشمیر کے معاملہ پر بات چیت شروع کر لیں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی توقعات و خواہشات کے مطابق کوئی حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ مذاکرات اور مہذب طریقے سے رائے کا اظہار یا اس سے اختلاف بنیادی جمہوری اصول ہے۔ بھارت کی حکومت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی دعویدار ہونے کے باوجود اس بنیادی جمہوری اصول سے انکار کرر ہی ہے۔ وہ کشمیری عوام کے احتجاج اور آزادی کی خواہش کو دہشت گردی اورسرحد پار سے مداخلت قرار دے کر طاقت کے استعمال کو جائز کہنےکی ناکام کوشش کر رہی ہے۔

پاکستان نے کشمیر کی صورت حال پر اصولی موقف اختیار کیا ہے اور دنیا بھر کی توجہ اس خطہ کے عوام کی صورت حال کی طرف مبذول کروائی ہے۔ لیکن نہ تو اس نے ماضی کی طرح مسلح عناصر کو سرحد پار جانے کی اجازت دی ہے اور نہ ہی اسلام آباد دہشت گردی کی سرپرستی کی پالیسی پر گامزن ہے۔ آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے ماضی کی غلطیوں کو سدھارنے، اچھے برے دہشت گرد کی تخصیص ختم کرنے اور مسلح تصادم کی بجائے بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ لیکن بھارت مسلسل پاکستان کو دہشت گردی کا گڑھ اور شرپسند عناصر کا سرپرست قرار دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس میں اتنا حوصلہ نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے نمائندوں کو بھارتی زیر انتظام کشمیر میں آ کر صورت حال کا جائزہ لینے کا موقع دینے پر تیار ہو جائے۔ ماضی میں بھی اس قسم کے ہر وفد نے بھارتی مظالم کا پردہ چاک کیا تھا۔ اس بار بھی غیر جانبدار مبصر اور انسانی حقوق کی تنظیمیں انسانوں پر بھارتی مظالم کی تفصیلات منظر عام پر لا رہی ہیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر نے آج یہی سوال کیا ہے کہ اگر بھارت جیسے ملکوں میں حالات شفاف ہیں اور ان کے ادارے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب نہیں ہو رہے تو وہ اقوام متحدہ کے نمائندوں سے گھبراتے کیوں ہیں۔ جب بھی کوئی ملک اس قسم کا رویہ اختیار کرے گا تو اس کی نیت پر شبہ کرنا فطری ہو گا۔ زید رعد الحسین نے بتایا ہے کہ پاکستان نے 9 ستمبر کو ایک خط میں اقوام متحدہ کو آزاد کشمیر آنے کی دعوت دی تھی لیکن اسے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں وفد بھیجنے سے مشروط کیا ہے۔ البتہ بھارت نے اقوام متحدہ کو کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ کشمیر کی صورت کے حوالے سے پاکستان کا نہ تو خفیہ ایجنڈا ہے اور نہ ہی اسے کچھ چھپانے کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں آزاد کشمیر میں انتخابات منعقد ہوئے ہیں اور برسراقتدار جماعت کو شکست ہوئی ہے اور دوسری سیاسی جماعت نے حکومت قائم کی ہے۔ اس کے باوجود بھارت آزاد کشمیر کو مقبوضہ خطہ اور وہاں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا پروپیگنڈا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان کو اس حوالے سے کسی شرط کے بغیر عالمی ادارے کو آزاد کشمیر میں مدعو کرنا چاہئے۔ اس طرح بھارت پر بھی مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے عالمی نمائندوں کو مدعو کرنے کے دباؤ میں اضافہ ہو گا۔

اقوام متحدہ اور دنیا کی بڑی طاقتوں کو اب بھارت کی طرف سے پاکستان پر دہشت گردی کی اعانت کرنے کے دعوؤں کے جواب میں بھارت کے کردار کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ بھارت مسلسل جھوٹ بولنے کی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے پاکستان کو کشمیری عوام کے حقوق کی بات کرنے سے روکنا چاہتا ہے۔ پاکستان پر دہشت گردی کی سرپرستی کا الزام لگاتے ہوئے وہ بلوچستان اور کراچی میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے انتشار پھیلانے کی سازش کو چھپانا چاہتا ہے۔ اسی طرح تحریک طالبان پاکستان کی سرپرستی اور اعانت کرنے میں بھارت کا کردار اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ بھارتی حکومت افغانستان کی حکومت کو ساتھ ملا کر برصغیر میں خطرناک پراکسی وار کا آغاز کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ افغانستان میں صورت حال پہلے ہی کشیدہ اور کنٹرول سے باہر ہے۔ اب امداد اور سفارتی و سیاسی تعلقات کے لالچ میں افغان لیڈر بھارت کی زبان بولنے پر آمادہ ہیں۔ اس سے صورت حال مشکل اور پیچیدہ ہو جائے گی۔ افغانستان میں پندرہ برس تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے والے ملکوں کو اس تبدیلی کا خاص طور سے نوٹس لینا چاہئے۔

جس وقت بھارتی فورسز کشمیری عوام کا جینا حرام کررہی ہیں، عین اسی بیچ افغان صدر اشرف غنی بھارت کے دو روزہ دورہ پر نئی دہلی پہنچے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ملاقات کے دوران مزید ایک ارب ڈالر کی امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ افغان صدر اور امریکہ کو خبر ہونی چاہئے یہ امداد افغانستان کی حالت زار پر ترس کھا کر نہیں بلکہ اس کے ذریعے پاکستان کے خلاف محاذ آرائی کرنے کے لئے دی جا رہی ہے۔ اگر اس پیش رفت کو نہ روکا گیا تو افغانستان میں طالبان سے مذاکرات اور امن بحال کرنے کا خواب کئی برس دور جا سکتا ہے۔

افغان صدر کی طرح دنیا کے درجنوں مسلمان ملکوں کو بھی کشمیری عوام پر بھارتی مظالم دکھائی نہیں دیتے۔ اسی طرح مہذب دنیا کے سارے نمائندے فی الوقت منہ میں گھنگنیاں ڈالے ہوئے ہیں۔ لیکن ظلم سے نظریں چرا کر کوئی بھی ملک اپنی انسانی دوستی کو ثابت نہیں کر سکتا۔ نہ ہی ایسے رویہ سے کشمیری عوام کے آزادی کے خواب کو ہمیشہ کے لئے کچلا جا سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments