منٹو کا نام لوح جہاں پر حرف مکرر نہیں تھا


سعاد ت حسن منٹو جسے بر صغیر کا سب سے بڑا افسانہ نگا رمانا جاتا ہے کو ہم سے بچھڑے 64 بر س بیت گئے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ جس نے منٹو کو پڑھا اور سمجھا وہ پھرمنٹو کا ہی ہو گیا۔ ادبی دنیا کا طاقتور نام منٹو آج بھی لو گو ں کے دلو ں میں زندہ ہے اور ادبی دنیا سے وابستہ لو گو ں کے لیے ایک تحر یک کا کام دے رہا ہے۔ منٹو کی قلم نے اپنے دور کا وہ سچ اگلا جسے پڑھ کر اس دور میں انسانیت پر ہو نے والے سیاسی و مذہبی اور جنسی ظلم پڑ ہ کر آج بھی رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

منٹو نے اپنے زمانے کے معا شر ے کی حقیقتو ں کو افسانو ی کر دار وں کا لبا س پہنا کر میں اس دور کی حقیقتو ں کو اس قد ربیان کیا کہ جس کو جھٹلا نا یا چشم پو شی کر نا ممکن ہی نہیں ہے۔ منٹو نے کبھی بھی اپنے لکھے ہو ے ایک لفظ سے منہ نہیں چھپا یاتھا بلکہ جو لکھا اس کا دفا ع کیاتھا، منٹو پر مقد ما ت درج کیے گئے منٹو کوسزائیں سنا ئیں گئیں جر ما نے کیے گئے لیکن منٹو نے پھر بھی وہی لکھا جو اس نے دیکھا اور جو اس دور میں ہو رہا تھا منٹو کا ایک مضمو ن مر لی کی دھن (جو اس نے اپنے فلم انڈسٹر ی کے دوست شیا م کے بارے میں لکھا تھا) پر سیا لکو ٹ کی ایک خاتو ن نیر بانو صا حبہ نے منٹو کو شدید تنقید کا نشا نہ بنا یا اور بہت بر ا بھلا کہا۔

اسی طر ح کے تنقیدی تیر اور بھی کئی اطر اف سے آتے تھے تو منٹو نے اپنے مضمو ن گنجے فر شتے میں لکھا کہ ”میر ے اصلا ح خانے میں کو ئی شانہ نہیں، کو ئی شمپو نہیں، کو ئی گھو نگر پید ا کر نے والی مشین نہیں۔ میں بنا ؤ سنگھا ر کر نا نہیں جانتا“ منٹو نے جو بھی لکھا ڈنکے کی چو ٹ پر لکھا۔ منٹو ایک انقلا بی شخص تھا، منٹو ایک نظر یا تی شخص تھا، منٹو جذبات، تعلقات، انسانیت اور رشتوں پر یقین رکھتا تھا۔ منٹو نے جہاں اپنے دور کی مشہور شخصیا ت کے بار ے میں وہی لکھا جو جیسی تھیں وہی اس نے سر خ انقلا ب، کسان، مزدور، سر مایہ داراور زمیند ار پر بھی لکھا۔

منٹونے وہی لکھا جو انسانیت اور معا شر ے میں پسے ہو ئے لو گو ں کے ساتھ اس وقت کے جاگیر دار، سر ما یہ دار اور حکمر ا ن کر رہے تھے یا کر وا رہے تھے۔ منٹو کی تحر یرو ں میں کہیں بھی اپنی پر یشانی یا کسمپر سی کا ذکر نہیں کیا۔ منٹو نے اپنا قصہ نہیں بلکہ دوسر و ں کا در د لکھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جو جو منٹو کے ساتھ کیا گیا اور جس جس مشکلا ت کا سامنا بر صغیر کے اس سب سے بڑ ے افسا نہ نگار کو کر نا پڑا وہ کہا نی منٹو کی زبانی کبھی نہیں سنی گئی بلکہ منٹو نے ہر حال میں اپنا درد چھپا نے کی کو شش کی۔

منٹو نے جہاں کالی شلو اراور کھو ل دو جسیے افسانے لکھے وہیں پر اس نے جلیانو الہ باغ کے واقعے پر تماشا جیسا شہکا ر افسانہ لکھا۔ منٹو نے نیا قانو ن افسانے میں کس قد ر ہند وستان کی غلامی کی تصو یر کھینچی۔ منٹو نے اپنے دور میں لکھنے والو ں کے لیے بھی آواز اٹھا ئی کہ انہیں پو ا معا وضہ دیا جائے اور منٹو نے اپنے قلمی دوستو ں کو کہا کہ ایک جھنڈ ے تلے جمع ہو جاؤ اپنا ایک محاذ بنا ؤ اور جنگ شر وع کر دو۔ اپنے قلمو ں کو کچھ عر صے کے لیے روشنا ئی سے دور رکھو۔ کاغذ کی دنیا تمہارے قد مو ں میں سر رکھ دے گی۔

منٹو کی اگر تقسیم سے پہلے والی زند گی پر نظر ڈالی جائے تو منٹو ایک کامیا ب انسا ن تھا جو بھاری فیس کے عوض فلمی کہا نی لکھتا تھا اور باقی وقت اپنی فیملی کو دیتا تھا۔ لیکن تقسیم کے بعد جب وہ پاکستا ن آیا تو اسے یہ ہجر ت راس نہ آئی اور اس کے حالا ت اور صحت دونو ں دن بد ن خراب ہو تے گئے نوبت یہا ں تک پہنچ گئی کہ اسے پاگل خانے میں داخل کر انا پڑ ا۔ منٹو جو آزاد خیال انسا ن تھا لیکن اس نے پاکستا ن سے محبت کی اور پاکستان بننے پر پہلے اپنے بیو ی بچو ں کو پاکستا ن بھیجا پھر خو د بھی ہمیشہ کے لیے پاکستان منتقل ہو گیا۔

منٹو کے پاکستان آنے پراس کے بھارتی دوست خو ش نہیں تھے اور وہ کئی دنو ں تک منٹو کوپاکستان جانے سے روکتے رہے، منٹو کے ایک دوست واچا صا حب نے منٹوکے بار ے کہا تھا کہ جو منٹو بمبئے ٹاکیز میں مسلما نوں کے داخلے کے خلا ف۔ سب سے پہلا آدمی خو د منٹو ہی نکلا جو پاکستان بھا گ کر چلا گیا اور خو د کو اپنے نظر یے کا شہید بنا یا۔ لیکن ان سب دوستو ں کے منع کر نے کے باوجو د بھی منٹو پھر بھی پاکستان آگیا۔ اور پھر جب منٹو یہاں پاکستان آیا تو یہاں کا کو ئی اخبار اس کا مضمو ن چھا پنے تک تیا ر نہیں تھا منٹو پاکستان آنے پر اپنے دوست شیا م کی روح سے مخا طب ہو کر کہتا ہے کہ پیا رے شیا م میں تو بمبئے ٹاکیز چھو ڑ کر چلا گیا تھا کیا پنڈ ت جو اہر لا ل نہر و کشمیر نہیں چھو ڑ سکتا۔ منٹو اس طر ح کئی دوسر ی ہز اروں خو اہشو ں کو لیے 18 جنو ری 1955 کو اس قبر میں جا سو یا جس کا کتبہ خو د اپنے ہاتھو ں سے کچھ یو ں لکھ کے گیا تھا کہ ”سعا دت حسن منٹو کی قبر کی قبر ہے جو اب بھی سمجھتا ہے کہ اس کا نام لو ح جہا ں پر حر ف مکر ر نہیں تھا۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).