عمران خان کا امریکی دورہ ایک بڑی کامیابی


عمران خان کے امریکی دورے سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں تھیں۔ جب یہ خبریں آنے لگیں کہ اس دورے کی دعوت شہزادہ محمد بن سلمان کے توسط سے لی گئی ہے تو توقعات مزید کم ہو گئیں۔ مگر جس طرح امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کی ثالثی کی پیش کش کی ہے، بلکہ یہ کہہ کر نریندر مودی کو شدید مشکل میں مبتلا کر دیا ہے کہ ثالثی کی یہ خواہش نریندر مودی کی جانب سے ظاہر کی گئی ہے، اس کے بعد صورت حال مختلف دکھائی دے رہی ہے۔ باقی کسر صدر ٹرمپ نے نئے پاکستان کے واری صدقے جا کر پوری کر دی ہے۔

بھارتی پردھان منتری نریندر مودی کے دور میں ہند امریکہ تعلقات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ نے ہندوستان کو اپنے جدید ترین ہتھیاروں کی پیش کش بھی کی ہے۔ صدر ٹرمپ کا فوکس معیشت پر ہے اور بھارت دنیا کی ایک بڑی منڈی ہونے کی وجہ سے امریکہ اور باقی دنیا کے لئے دن بدن اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان سے تعلقات کو فوقیت دیتے ہوئے یہ بیان دینا بہت زیادہ اہم ہے۔

ہندوستان کا شملہ معاہدے کے بعد سے یہی موقف رہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ دونوں ممالک باہمی طور پر حل کریں گے اور اس میں کسی تیسرے فریق کو شامل نہیں کیا جائے گا۔ ایسے میں ٹرمپ کا یوں کہنا کہ نریندر مودی نے دو ہفتے پہلے اوساکا کی جی ایٹ کانفرنس میں کشمیر کے معاملے پر ثالثی کرنے کا کہا ہے، نریندر مودی کے لئے شدید پریشانی کا باعث بنا ہے۔

اب سوال یہ تھا کہ نریندر مودی اس بات کو مانیں گے کہ انہوں نے ایسا کہا تھا اور وہ ہندوستان کے دیرینہ موقف کے خلاف تیسرے فریق کو شامل کرنا چاہتے ہیں، یا پھر وہ یہ کہیں کہ صدر ڈانلڈ ٹرمپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ انہوں نے دوسری بات کا انتخاب کیا اور چند گھنٹے کے اندر اندر ہی بھارتی وزارت خارجہ نے ٹویٹ کی کہ بھارتی وزیراعظم نے ایسی کوئی درخواست امریکی صدر سے نہیں کی، پاکستان سے تمام تصفیہ طلب امور باہمی طور پر زیربحث لائے جائیں گے جس کے لئے شرط یہ ہے کہ پاکستان سرحد پار دہشت گردی بند کر دے، اور پاکستان اور انڈیا کے درمیان معاملات شملہ معاہدے اور اعلان لاہور کے تحت حل کیے جائیں گے۔

اب صدر ٹرمپ کے ماضی کو دیکھتے ہوئے یہ توقع ہے کہ وہ اپنے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو ایک طرف کر کے براہ راست ٹویٹ کے ذریعے ہی ان نابکاروں کی سرکوبی کریں گے۔ ستمبر میں نریندر مودی نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے امریکہ جانا ہے اور وہ ہوسٹن میں ہندوستانیوں سے خطاب بھی کریں گے۔ ان کے دورے میں ابھی تک واشنگٹن شامل نہیں مگر دونوں ممالک کے قریبی تعلقات کو دیکھتے ہوئے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ ان کی صدر ٹرمپ سے ملاقات بھی ہو گی۔ اب ٹرمپ کو جھوٹا قرار دینے کے بعد نہ جانے کیا ہو گا۔

بہرحال جس طرح عمران خان اور ڈانلڈ ٹرمپ کی بات چیت ہوئی ہے اور ٹرمپ نے کہا ہے کہ عمران خان پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔ انہوں نے عمران خان کو سامنے بٹھا کر ان کے اور پاکستان کے قصیدے پڑھے۔ شاہ محمود قریشی نے بتایا ہے کہ صدر ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان کی طرف سے دی جانے والی پاکستان کے دورے کی دعوت بھی قبول کر لی ہے۔ صدر ٹرمپ نے بتایا کہ عمران خان کے حکومت سنبھالنے سے پہلے پاکستان تعاون نہیں کر رہا تھا لیکن اب بہت کر رہا ہے۔

بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ دونوں لیڈروں میں یہ طے ہو گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی پریشانیاں ایک دوسرے کے سپرد کر کے نچنت ہو جائیں۔ بہرحال مسئلہ کشمیر کے بارے میں تو نائن الیون کو صدر بش کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے جنرل پرویز مشرف نے بھی یہی اعلان کیا تھا کہ امریکہ افغانستان میں تعاون اور بھارت کو باڑ لگانے کی اجازت دینے کے بدلے مسئلہ کشمیر حل کروا دے گا۔ دیکھتے ہیں اب کیا ہوتا ہے۔ بہرحال جس طرح ابھینندن کے معاملے میں دونوں ممالک جنگ کے قریب پہنچ گئے تھے اسے دیکھتے ہوئے امریکہ اور دیگر دنیا کی پریشانی قابل فہم ہے۔ معمولی سی غلط فہمی بھی اگر ایٹمی جنگ میں بدل گئی تو اس کے مہلک اثرات صرف برصغیر تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ یورپ اور دیگر دنیا کو بھی لپیٹ میں لیں گے۔ ان سب کو اپنی فکر ہے۔

صدر پاکستانی میڈیا کے بھی قتیل نکلے۔ ایک رپورٹر کو دیکھتے ہی پوچھا کہ ”کیا آپ کا تعلق پاکستان سے ہے؟ “، اس نے اثبات میں جواب دیا تو فرمانے لگے ”گڈ، میں پاکستانی رپورٹروں کا ایک جوڑا حاصل کرنا چاہتا ہوں، میں انہیں اپنے رپورٹروں سے زیادہ پسند کرتا ہوں“۔ گمان یہی ہے کہ وہ محترم صابر شاکر اور عارف بھٹی صاحب کا ذکر کر رہے ہوں گے کہ فی زمانہ ان سے بہتر رپورٹر کوئی دوسرا نہیں۔ بہرحال محترم ارشاد بھٹی وغیرہ بھی اچھے رپورٹر ہیں، شاید ان کا ذکر ہو۔

بہرحال وزیراعظم کا یہ دورہ سفارتی محاذ پر ایک بڑی کامیابی ہے اور یہ بھی ظاہر کر رہا ہے کہ اس وقت امریکہ افغانستان سے جان چھڑانے کے لئے بڑی قیمت ادا کرنے کو بھی تیار ہے۔ جہاں تک پاکستان پر اس کے اثرات کا تعلق ہے، تو صدر ٹرمپ بتا چکے ہیں کہ پاکستان کا میڈیا اور اپوزیشن اسی اچھے حال میں رہیں گے جس میں ہیں، اور اس میں سے اچھے میڈیا کی امریکہ بھی قدر دانی کرے گا۔

جہاں تک اپوزیشن کی بات ہے تو اگر امریکہ سے کیے گئے قول قرار پورے کیے گئے اور ڈانلڈ ٹرمپ اگلی ٹرم کے لئے دوبارہ منتخب ہو گئے، تو پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت ہی رہے گی۔ ہاں اگر پاکستانی عوام وغیرہ نے مسلسل بگڑتی ہوئی معیشت سے گھبرا کر کوئی گڑبڑ کر دی تو دوسری بات ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar