یونیورسٹیوں میں ایم فل کے داخلہ کے لیے جی اے ٹی ٹیسٹ ضروری کیوں؟


گزشتہ ہفتے کی بات ہے، میں ایک معروف جامعہ میں ایم فل کے داخلہ ٹیسٹ کے لیے کمرہ امتحان میں بیٹھا تھا۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان سے منظور شدہ تمام جامعات میں ایم فل کے لیے صرف بی ایس آنرز یا ایم اے کی ڈگری کافی نہیں ہوتی بلکہ ایم فل کا داخلہ ٹیسٹ بھی پاس کرنا پڑتا ہے۔ بطور طالب علم مجھے ہمیشہ ایسے موضوعات پہ بحث کرتے ہوئے دلی راحت محسوس ہوا کرتی تھی کہ جن میں مختلف اداروں کے ایسے اقدامات پہ تحفظات اٹھائے گئے ہوں مگر ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی اس داخلہ ٹیسٹ کی شرط پر تمام تحفظات تب دور ہو گئے جب ایم فل کے داخلہ ٹیسٹ کے لیے ایک دوسری جامعہ سے آئے طالب علم سے گفت و شنید ہوئی۔ ابھی ٹیسٹ کے آغاز میں آدھا گھنٹا باقی تھا اور ایسے وقت میں پڑھنا یا تیاری کرنا ویسے ہی سمجھ سے بالاتر بات ہے۔ میں نے اپنے ساتھ بیٹھے ایک لڑکے سے سلام و دعا کی۔ تعارف ہوا، حال احوال پوچھنے کے بعد دانستاً نظامِ تعلیم کی خرابیوں پہ بات شروع کی تو وہ بھائی صاحب تو پھٹ ہی پڑے۔

موصوف کسی مشہور جامعہ کے سب کیمپس سے کیمسٹری پڑھ کر آئے تھے۔ رام کتھا سنانے لگے۔ کہنے لگے کہ ان کی شعبہ کی سربراہ اسسٹنٹ پروفیسر کو لگایا گیا جو برسٹل کی کسی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر کے آئی تھیں۔ ان کا سرکاری وقت صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک مقرر ہے مگر مجال ہے جو کسی دن ان کو سہ پہر چار بجے سے پہلے آتا دیکھا ہو۔ سارا سمیسٹر انہوں نے اپنے مضمون کی ایک کلاس تک نہ لی۔ چونکہ سائنسز میں تو تھیوری کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل کی کلاس بھی ہوا کرتی ہے سو لازمی طور پہ انہوں نے یہ کلاس بھی ضائع کی۔

جب ہم لوگ آخری دنوں میں دیے گئے نوٹسز سے رَٹے لگا کر تھیوری کا پرچہ حل کر گئے تو حکم صادر فرمایا گیا کہ اگلے روز پریکٹیکل کی کلاس ہو گی۔ ایک ہی دن میں تین گھنٹے کی کلاس کے دوران سارے سمیسٹر کے پریکٹیکلز سرسری طور پر کروا کر انہیں اگلے روز تک کاپی پر لکھنے اور ان کی بھرپور تیاری کر کے آنے کا کہا گیا۔ اگلے روز اس کا فائنل امتحان لیا گیا، زبانی امتحان میں وہ وہ پوچھا گیا جو کبھی خواب میں بھی نہ دیکھا تھا اور نتیجتاً سبھی طلبا و طالبات کو فیل قرار دے دیا گیا۔

یہ حالات صرف ان صاحب کی جامعہ میں نہیں۔ میں نے اپنے آنرز کے دوران پنجاب بھر کی جامعات کے دورے کیے، وہاں مختلف مقابلہ جات کی صورت میں جانا ہوا، وہاں کے طلبا و طالبات سے دوستیاں ہوئیں اور اکثر ایسے موضوعات پہ مفید مکالمے بھی کیے۔ تمام جامعات میں آنرز سطح کی تعلیم سمیسٹرز میں تقسیم کر کے دی جاتی ہے اور ان سمیسٹرز میں فقط دو سے تین ماہ کلاس ورک کرایا جاتا ہے۔ اسائنمنٹس، کوئز، پریزنٹیشنز، مڈٹرمز، فائنلز کے چکروں میں سٹوڈنٹس کو خوب خوار کیا جاتا ہے مگر ان کی قابلیت کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ نظام مرتب نہیں کیا جاتا۔ وہی دفتری و کاغذی کارروائی کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے۔ انہی چکروں میں سمیسٹرز کٹتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ ڈگری مکمل ہو جاتی ہے۔

اب یہ تو پہلا رُخ ہے اس جہانِ خراب کا

اس کے بعد کی سنیے، جب ایم فل کے داخلہ امتحان کا پرچہ ہمارے ہاتھ آیا تو متذکرہ موصوف کے ہوش کے طوطے اُڑ گئے۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ چار سال ان کے ساتھ مذاق کیا گیا ہے یا اب کیا جا رہا ہے۔ آنسو ان کی آنکھوں سے گرتے گرتے بچے۔ اُن کی چھوڑیے میرے اپنے اوسان خطا ہوئے پڑے تھے۔ فکر یہ ستائے جا رہی تھی کہ بجائے یہاں آٹھ سمیسٹر کے چار پانچ لاکھ فیس بمعہ دیگر نصابی و ہم نصابی اخراجات و ہاسٹل اخراجات کی مد جو رقم لگائی تھی، آیا وہ حلال تھی یا حرام۔

اس سے تو بہتر تھا کہ سات آٹھ ہزار میں کسی نجی جامعہ سے ایک ہی سال میں بی اے کیا جاتا اور پھر سات آٹھ ہزار میں گھر بیٹھے بٹھائے ایم اے کر لیتے مگر ایسا کیسے ممکن ہوتا، ہمارے معاشرے میں تو تعلیمی مستقبل کے لیے کہیں سے کچھ جائز معلومات نہیں ملتیں۔ پوری دنیا میں کیرئیر کونسلنگ ایک اہم شعبہ تصور کیا جاتا ہے جہاں ہر بچے کو خصوصی طور پر اپنے مجوزہ تعلیمی مسقبل کے بارے میں تفصیلی طور پر آگاہی دی جاتی ہے۔

نیز دنیا بھر کی جامعات بچوں سے جو رقم ان کے تعلیمی اخراجات کی مد میں لیتی ہیں انہیں طلبا و طالبات پر من و عن خرچ بھی کیا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں یہ فنڈز بھی ایمانداری سے خرچ نہیں کیے جاتے۔ جامعات کے شعبہ جات میں اساتذہ ذاتی پسند نا پسند اور تعلقات کی بنیاد پر آتے ہیں اور پھر زندگی بھر ان کی قابلیت پر کسی کو سوال اٹھانے کی اجازت نہیں ہوتی۔

سوال یہ ہے کہ ہر سال درجنوں جامعات کے صرف ایم فل داخلہ جات کے موقع پر ہزاروں طلبا و طالبات لاکھوں کروڑوں کی رقم ان جامعات کے فنڈز میں جمع کرواتے ہیں، کیا وہ سب جامعات کے زنبیلیں بھرنے کے لیے ہیں؟ کیا معیاری تعلیم خواہ وہ ایم فل کی ہو یا آنرز کی سطح کی، وہ یہاں پاکستان کے بچوں کا بنیادی حق نہیں؟ اگر انہی جامعات سے آنرز کر کے آنے والے ہزاروں بچے ایم فل کے داخلہ امتحان میں فیل ہو جاتے ہیں تو ان کی اس ناکامی اور نا اہلی کا ذمہ دار کون ہے؟ یا پھر ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہمارے پاس اتنے ادارے نہیں کہ ہم اتنے سارے بچوں کو بہترین تعلیمی مستقبل مہیا کر سکیں اور انہیں ایم فل داخلہ امتحان کے چکروں میں ڈال کر اس دوڑ سے باہر کرتے رہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).