قصرِ ابیض میں ٹرمپ، عمران ملاقات


یہ اور بات ہے کہ عمران خان عوام کا منتخب وزیراعظم ہیں یاپھر سلیکشن کی برکت سے وہ پاکستان کے وزیراعظم بنے ہیں۔ اس موقع پر اس بحث میں بھی الجھنے کی ضرورت نہیں کہ ایک سال بیت جانے کے بعدبھی خان حکومت کیوں عوام کو ڈلیور نہیں کرپائی؟ بلکہ اس مختصرسے کالم میں بات کرنے کا مدعا یہ ہے کہ عمران خان کا حالیہ امریکی دورہ کیسا رہا؟ امریکہ کی سرزمیں پر وائٹ ہاؤس میں صدرڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات سے لے کر پاکستانی کمیونٹی سے مخاطب ہونے اور میڈیا کو دیے گئے انٹرویوز میں عمران خان نے اپنے کارڈز صحیح یاغلط کھیلے؟ وغیرہ۔

کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ عمران خان دوسرے ہرپاکستانی وزیراعظم کے مقابلے میں عالمی فورم پر بولڈ اور آوٹ سپوکن ثابت ہوئے ہیں۔ اس موقع پر ان کے چہرے پرکبھی پریشانی اور جھجھک کے آثارنمودار ہوتے ہیں اور نہ ہی بات کرنے میں انہیں دقت پیش آتی ہے۔ مغرب کے حوالے سے شاید ان کی اس بولڈنیس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں پر طویل قیام کے دوران خان وہاں کے لوگوں کی مزاج سے کافی واقف ہوچکے ہیں۔

بائیس جولائی کوامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات میں بھی عمران خان بہت پراعتماد اور ہشاش بشاش نظرآئے۔ معذرت خواہانہ لہجہ اختیار کرنا تو کُجا، کیمروں کے سامنے بات چیت کے دوران انہوں نے ساتھ بیٹھے امریکی صدرکانام لیتے وقت ”مسٹرپریذیڈنٹ“ کہنابھی مناسب نہیں سمجھابلکہ آخرتک اسے ٹرمپ کہتے رہے۔ اس ملاقات میں اگرچہ مسئلہ کشمیر بھی زیربحث آیا اورڈونلڈ ٹرمپ نے اس بارے میں کردار ادا کرنے کاذکربھی کیا لیکن غالب گمان یہی ہے کہ بندکمرے میں ہونے والی میٹنگ میں ان دونوں رہنماوں کا بنیادی فوکس افغان قضیہ اور ایف اے ٹی ایف رہاہوگا۔

افغانستان سے اپنی افواج کونکلنے میں جتنی جلدبازی اس وقت صدر ڈونلڈ ٹرمپ دکھارہے ہیں، اٹھارہ سال میں شاید کوئی دوسرا امریکی صدر اتنا بے تاب رہاہو۔ پچھلے سال ستمبر سے اب تک عرب ملک قطرمیں امریکہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سات راونڈز ہوچکے ہیں جوکہ امریکہ کا اس دلدل سے جلدازجلد جان چھڑانے کی واضح دلیل ہے۔ دوسری طرف امریکہ کی مسلسل یہ کوشش یہ رہی ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے طالبان کو اشرف غنی حکومت کے ساتھ بات چیت پر راضی کیاجائے تاکہ دنیا امریکی انخلا کو مکمل ہزیمت اوررسوائی سے تعبیر نہ کرسکے، سوطالبان کومذاکرات کی میزپربٹھانے میں امریکہ کے پاس پاکستانی اسٹبلشمنٹ اور پاکستانی حکومت کی سہولت کاری کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔

امریکہ یہ بھی سمجھتاہے کہ ماضی میں پاکستانی میں بننے والی حکومتیں ایک پیچ پر کبھی نہیں رہی تھیں اس لئے پاکستان سے ماضی میں اپنی بات منوانا کافی مشکل تھا، لیکن اب کی بار امریکہ کو پورا یقین ہے کہ پاکستان میں اس وقت ”یک جاں دوقالب فوجی اور سول حکومت“ سے اپنی بات منوانے میں کوئی اسے کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ جس طرح ٹرمپ انتظامیہ کو افغان مسئلے کو نمٹانے میں پاکستان کی ضرورت ہے اسی طرح پاکستان کو اپنے آپ کوفنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی بلیک لسٹ سے بچانے میں امریکی تعاون کی اشد ضرورت ہے۔

یاد رہے کہ ایف اے ٹی ایف کا اگلا اجلاس اکتوبر میں ہونے والا ہے جس میں پاکستان کوکل اڑتیس ارکان میں سے کم ازکم پندرہ ارکان کی حمایت درکار ہوگی۔ بلیک لسٹ ہونے کی صورت میں پاکستان دہشتگردوں کا مالی سہولت کار ڈکلیئرہونے کے علاوہ اس کابین لاقوامی امداد بند ہونے اور کاروباری سرگرمیاں معطل ہونے کا قوی خدشہ ہے۔ ایف اے ٹی ایف میں امریکی تعاون کے علاوہ بھی اس وقت پاکستان کواپنی خراب معاشی صورتحال اورکشمیر کے مسئلے پربھارت کی طرف سے چیلنجزدرپیش ہیں جس پر پاکستان کو امریکہ کا تعاون حاصل کرنا انتہائی ناگزیرہے۔

غورکیاجائے تواس ملاقات میں ڈونلڈٹرمپ نے اپنی اس بے ہودگی اور بچگانہ پن کا اظہار بھی کیا جو ان کی سرشت کا ایک اہم جزوہے۔ افغانستان کوصفحہ ہستی سے مٹانے کی انہوں نے جو بڑھک ماری، نہ صرف افغان عوام، افغان حکومت اور افغان طالبان کی دل آزاری کاباعث بنا بلکہ پاکستان میں رہنے والے کروڑوں پشتونوں میں بھی اس سے کافی غم وغصہ پیداہوا ہے۔ ٹرمپ کی اس بڑھک اور غیر ذمہ دارانہ بیان پر افغان حکومت نے باقاعدہ طور پرامریکہ سے اس کی وضاحت پیش کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ افغان حکومت امن کے پراسس میں امریکی کوششوں کی حمایت کرتی ہے لیکن وہ افغانستان کے مستقبل کافیصلہ کرنے کا حق کسی دوسرے ملک کو نہیں دیں گے۔

افغان طالبان نے اس بیان کے ردعمل میں اپنا اعلامیہ جاری کیا کہ ٹرمپ کی باتیں غیرذمہ دارانہ ہیں جس کی وہ شدید مذمت کرتے ہیں۔ طالبان نے مزید لکھاہے کہ افغان وطن کو صفحہ ہستی سے محو کرنے کایہی ارمان چنگیزخان، برطانوی استعمار اور روسی حکومت بھی قبر تک لے گئے، مگراللہ کے کرم سے افغان ملت اب تک سربلند اور موجودہے ”۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی نے ٹرمپ کے ان ریمارکس کو افغانوں کی توہین سمجھتے ہوئے کہا کہ اگرامریکہ افگانستان سے نکلتاچاہتاہے توہم برضا ورغبت اسے خداحافظ کہیں گے، ہم افغان ملت جانیں اور ہماری بربادی وزبوں حالی جانیں۔

” ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے علاوہ وزیراعظم عمران نے اس دورے کی آڑ میں امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب بھی کیا۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ وزیراعظم خان نے امریکہ کی سرزمیں پر اپنی تقاریر میں ایک مرتبہ پھر اسی زبان کا استعمال کیاجس کا استعمال کسی معقول سیاسی رہنما کواپنے ملک کے اندربھی زیب نہیں دیتا۔ میں سمجھتاہوں کہ امریکہ سے اپنے سیاسی حریفوں کوگالیاں بھجوانا اور ان کوجیلوں میں فراہم کردہ سہولتیں واپس لینے کی دھمکیاں دے دے کر وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر اپنی وقار کی نفی کردی۔

تاہم جس ایک ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو کے دوران ان کی اکثرباتیں دل کولگنے والی تھیں۔ مثلاً یہ کہ مالی امداد لینے کی بجائے وہ امریکہ سے برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے بدلے شکیل آفریدی کی رہائی کا عندیہ دینا، افغان طالبان کو غنی حکومت سے بٹھانے کے لئے خود طالبان سے ملنے کے عزم کا اظہار کرنا اور مسئلہ کشمیر کے حل

پرزوردیناوغیرہ۔ اگرچہ بہت سے لوگ وزیراعظم عمران خان اور فوجی قیادت کے اس دورے کو ”بیڑا پارہوگیا“ سے تعبیر کررہے ہیں لیکن سردست اتناکہا جاسکتاہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کے طویل تعطل کے بعد ازسرنو تعلقات کی بحالی میں یہ ملاقات ایک اچھی پیش رفت ہے جس سے پاکستان اگرچاہے، توآنے والے وقت میں بڑے فوائداٹھاسکتاہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).