مجاہدینِ سوشل میڈیا اور سیاسی اخلاقیات کا زوال


عام انتخابات کو ایک سال ہوا۔ تاریخ کے دھارے میں ایک سال کچھ زیادہ نہیں۔ لیکن اس کا کیا کیجیے کہ تاریخ کا آخری تجزیہ بہت متوازن مگر بہت بے رحم ہوتا ہے۔ حکومت کے گزشتہ ایک سال اور آنے والے چار سالوں میں کارکردگی کا آخری تجزیہ تو بہت برسوں بعد ہو گا۔ عمران خان کی حکومت اور اندازِ حکومت سے بہت پرامید نہ ہونے کے باوجود یہ خواہش ہے کہ آنے والے سال وطنِ عزیز کے لئے بہتر ثابت ہوں۔

کسی بھی حکومت کی کارکردگی جانچنے کے لئے عام طور پر معاشی اعشاریے اہم ہوتے ہیں، خارجہ محاذ پر کارکردگی، ملک میں امن و امان، لوڈ شیڈنگ اور عام آدمی کے تعلیم اور صحت جیسے معاملات اہم ٹھہرتے ہیں۔ یہ معاملات تاریخ کے آئینے میں اپنا جائز مقام پائیں گے۔ جس معاملے کو اس وقت موضوع بنانا مقصود ہے وہ سیاسی کارکنوں کی اخلاقی تربیت ہے۔ جس طرح ناچیز نے کئی مرتبہ اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ ن لیگ سے پہلے کی سیاست اور ن لیگ کے ظہور کے بعد کی سیاست میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

سیاست میں پیسے کی مداخلت، اخلاقی قدروں کی پامالی، کاروباری مفادات کے لئے سیاست کا استعمال، وطنِ عزیر کی سیاست ان سب لغویات سے کافی حد تک پاک تھی، کرپشن اگر کہیں تھی بھی تو راشن کارڈ کے کوٹے سے بسوں کے کوٹے تک یا چند ہزار روپے کمیشن، اس سے زیادہ کسی نے سوچا ہی نہ تھا۔ ن لیگ نے سیاست میں کاروباری طبقے کو داخل کیا اور پیسے کا بے دریغ استعمال کیا۔ مختصر یہ کہ جیسے کہا جاتا ہے کہ نائن الیون کے بعد دنیا بدل گئی اور نئی دنیا پہلے کی دنیا سے بہت مختلف ہے، اسی طرح ن لیگ کے ظہور کے بعد سیاست اور سیاست میں اخلاقیات بدل گئیں۔

سیاست میں بدگوئی، دشنام طرازی اور یاوہ گوئی متعارف تو مسلم لیگ ن کے متوالوں نے کروائی، لیکن اس کو فن کی جن بلندیوں پر تحریک انصاف کے کارکنوں نے پہنچایا وہ انہی کا خاصا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ ن لیگ کے بڑے قائدین عموماً شائستہ زبان استعمال کرتے تھے (نوے کی دہائی میں ) اور مخالفین کو آڑے ہاتھوں لینے کے لئے عموماً شیخ رشید ٹائپ کے لوگ ہوتے تھے۔ مجھے نہیں یاد کہ میاں نواز شریف کے منہ سے کبھی کوئی ناشائستہ لفظ سنا ہو۔

اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو وہ شخص تھے جنہوں نے اپنے مخالفین کے لئے قدرے ناشائستہ الفاظ کا استعمال شروع کیا۔ جیسے ائیر مارشل اصغر خان کو آلو کہہ دیا، مولانا مودودی کو اچھرے کا پوپ کہہ دیا، وغیرہ۔ ن لیگ کا دور آیا تو مخالفین کو خریدنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ن لیگی سیاست کا بنیادی اصول یہی تھا ہر شخص کی ایک قیمت ہے۔ چھانگا مانگا بھی سجائے گئے، فلور کراسنگ بھی ہوتی رہی۔ اسی دوران محترمہ بینظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کی ایڈٹ کی گئی فحش تصاویر پھیلائی گئیں، اور انتہائی فحش القابات کا استعمال کیا گیا۔ اس پوری مہم کے روحِ رواں کوئی اور نہیں فرزندِ والپنڈی تھے۔

تحریک انصاف جس وقت ایک چھوٹی پارٹی تھی، تو اس پارٹی کو میڈیا میں زندہ رکھنے والا میڈیا گروپ وہی ہے جو آج سب سے زیادہ معتوب ہے۔ پکار فاؤنڈیشن ہو یا میڈیا میں بہت زیادہ کوریج، مخالفین کو ہمیشہ یہ اعتراض رہا کہ ایک چھوٹی پارٹی کو ان کے برابر وقت کیسے دیا جا سکتا ہے۔ خان صاحب چونکہ بہت سوچ سمجھ کر بولنے پر یقین نہیں رکھتے تو اس دور میں بھی کئی بار زبان چوک جاتی تھی۔ کرنی خدا کی یہ کہ پھر سوشل میڈیا کا دور آیا۔

ہر شخص کے ہاتھ میں ایک ماچس بم آ گیا۔ اب کچھ تو وہ لوگ تھے جو سیاسی کارکن تھے، صحافی تھے، وسیع المطالعہ تھے یا کسی بھی طرح سیاسی معاملات اور اخلاقیات کی تربیت رکھتے تھے۔ ایسے لوگ آج بھی پہچانے جاتے ہیں۔ لیکن ایک بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی آ گئی جو نہ تو سیاست یا صحافت کا پس منظر رکھتے تھے، نہ ان کی سیاسی تربیت تھی، مستزاد یہ کہ ان کے ہاتھ میں موبائل نامی ایک ہتھیار آ گیا، جس نے انہیں یہ اختیار دے دیا کہ کسی کو کچھ بھی کہہ لیں۔

تحریک انصاف کو جہاں اس بات کا کریڈٹ دیا جاتا ہے کہ اس نے ملک کے مڈل کلاس طبقے کو فعال کیا، اور ایسے لوگوں کو سیاست میں انوالو کیا جو پہلے اس میں دلچسپی نہیں لیتے تھے، وہیں یہ تمغہ بھی پی ٹی آئی کے سر ہے کہ گزشہ چند سالوں میں اخلاقیات نام کی کوئی چیز سیاست میں رہی نہیں۔ خان صاحب کی اپنی پچھلے پانچ چھ سالوں کی تقاریر سن لیں۔ جب خان صاحب کی تقریر ہی ”اوئے نواز شریف“ سے شروع ہو گی تو کارکنوں کی لفظی جنگ کن الفاظ پر ختم ہو گی۔ خان صاحب اگر دھرنے کے کنٹینر پر کھڑے ہو کر شلواریں گیلی ہونے کا تذکرہ کریں گے تو کارکن کہاں تک جائیں گے۔ سو ان بائیس سالوں میں بالعموم اور 2011 کے بعد بالخصوص خان صاحب نے نہ تو اپنے کارکنوں کی تربیت پر کوئی توجہ دی اور نہ ہی اپنے حسنِ عمل سے کوئی مثالی نمونہ پیش کیا۔

اب صورتِ حال یہ ہے کوئی صحافی، کوئی لیڈر، کوئی فنکار، کوئی کھلاڑی یا کوئی عام سوشل میڈیا صارف، خان صاحب کی کسی بات سے اختلاف کرنے کی جرات کر دے، مجاہدینِ سوشل میڈیا اسے گھر تک پہنچا کر ہی آتے ہیں۔ ہم ایسے ہما شما تو کسی شمار میں نہیں۔ ذرا کسی دن ان صحافیوں کے ٹویٹر اکاؤنٹ چیک کر لیں جو کسی بھی وجہ سے تحریک انصاف سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد ان صحافیوں کی ہے جنہوں نے سالہا سال عمران خان کو سپورٹ کیا لیکن دھرنے کی مخالفت کی یا بعد میں کسی بھی اور طریقہ کار کی وجہ سے راستے الگ ہو گئے۔

یہ ایک طویل فہرست ہے۔ جاوید چودھری، حامد میر، حسن نثار اور بزرگ کالم نگار ہارون الرشید ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اس وقت عمران خان کو سپورٹ کیا جب ایک سیٹ کی پارٹی تھی اور یار لوگ تانگہ پارٹی کی پھبتی کستے تھے۔ ہارون الرشید صاحب سے زیادہ شاید ہی کسی نے سپورٹ کیا ہو خان صاحب کو۔ لیکن کسی کالم میں انہوں نے جزوی سا اختلاف کیا نہیں، لوگ بزرگ صحافی کو ماں بہن کی گالیاں دینے سے لے کر لفافے اور پتہ نہیں کن کن القابات سے پکارتے ہیں۔

پھر ایک طویل فہرست ان صحافیوں کی ہے جنہوں نے گزشتہ دور میں ن لیگ کے سکینڈلز بریک کیے، لوگوں میں ان کے خلاف شعور پیدا کیا اور بالواسطہ طور پر خان صاحب کی مدد کی۔ صحافی کا کام غلطیوں کی نشاندہی کرنا اور مثبت تنقید کرنا ہے۔ اب اس کیٹگری کے صحافی چار کالموں میں تعریف کرنے کے بعد ایک کالم میں تھوڑی سی تنقید بھی کر دیں تو خان صاحب اور پی ٹی آئی کی لیڈرشپ سے لے کر کارکنوں تک، چڑھ دوڑتے ہیں۔

ایک اور کیٹگری ان لوگوں کی ہے جو باقاعدہ طور پر تحریک انصاف کے بانی ممبران ہیں لیکن خان صاحب کے مقتدر اداروں سے تعلق کی وجہ سے اپنے راستے الگ کر چکے۔ اب ان کی بھی شامت آتی ہے۔ شیریں مزاری پی ٹی آئی کی سینئیر لیڈر ہیں، انسانی حقوق کی وفاقی وزیر ہیں اور مشکل وقت میں پارٹی کے ساتھ کھڑی رہیں۔ ایک مرحلے پر اختلافات کی وجہ سے پارٹی چھوڑ دی تو مجاہدینِ سوشل میڈیا نے شیریں مزاری کی کردار کشی کے علاوہ ان کی بیٹی کی سچی چھوٹی تصویروں سے بدکرداری کی وہ مہم چلائی کہ بچاری ملک چھوڑ کر چلی گئیں، اور چند سال بعد واپس آ کر اس مہم سے جان چھڑوائی۔ اب کیوں کہ وہ پارٹی میں واپس آگئیں تو ان کا اور ان کی بیٹی کا کردار قومی مسئلہ نہیں رہا!

ہارون الرشید صاحب کبھی تھوڑی سی تنقید کر دیں تو وہ دشنام طرازی ہوتی ہے کہ خدا کی پناہ، تعریف کر دیں تو سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ حسن نثار کبھی تنقید کر دیں تو ان کے لائف سٹائل کو ن لیگ کے لفافوں سے ملایا جاتا ہے، حالانکہ کوئی تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص جانتا ہے کہ حسن نثار ن لیگ کے کٹر مخالف ہیں۔ شاہد آفریدی نے ہمیشہ عمران خان کی تعریف کی۔ کتاب میں ایک آدھا جملہ ایسا تھا کہ جس کے معنی مختلف لئے گئے۔ اب ایسے ایسے شخص نے شاہد آفریدی پر تنقید کی جن نے شاہد کی کتاب تو کیا زندگی میں کوئی کتاب نہیں پڑھی۔ اس کی بیٹنگ میں ان خامیوں کی نشاندہی کی گئی کہ بڑے سے بڑا کوچ بھی نہ بتا سکے۔ اسی شاہد آفریدی کی ایک ملاقات خان صاحب سے ہو گئی تو سب کچھ ٹھیک ہو گیا۔

گزشتہ دنوں مریم نواز شریف نے منڈی بہاؤ الدین میں ایک جلسہ کیا۔ پی ٹی آئی کے مجاہدین نے بھرپور محنت سے ٹویٹر ٹرینڈ چلایا “رنڈی ان منڈی”۔ خان صاحب نے ایک روز قوم سے خطاب کرنا تھا جو بوجوہ لیٹ ہو گیا، اور رات گئے ممکن ہو پایا۔ ایک صحافی نے ٹویٹ کیا کہ اتنی رات گئے کیوں خطاب کیا؟ جذبہ سیاست سے معمور کارکنوں نے جواب دیا، تاکہ تمہاری ماں چکلہ بند کر کے خطاب سن سکے! اب ایسے میں کیا کوئی سیاست کرے اور کیا سیاست پر تبصرہ۔

پی ٹی آئی کا ایک المیہ یہ ہے کہ ابھی تک خان کی ہیروشپ سے نہ تو خود خان صاحب نکلے ہیں اور نہ ہی ان کے حامی۔ تحریک انصاف اور اس کے حامی کارکنوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خان صاحب اب ایک قومی قائد ہیں۔ ان پر تنقید ہو سکتی ہے۔ دوسرا تنقید کا مطلب کٹر مخالفت یا دشمنی نہیں ہے۔ تنقید ذات پر نہیں کسی فعل پر کی جاتی ہے۔ بہت سے ایسے صحافی ہیں جو ہر بات پر تنقید نہیں کرتے، لیکن جب کوئی بات ان کی دانست میں صحیح نہیں ہوتی تو وہ اس کا اظہار کرتے ہیں۔

ان میں سے کئی خان صاحب کے حامی بھی ہوتے ہیں۔ لیکن جب گالیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے پھر وہ باقاعدہ ہر چیز پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک اور اہم بات کہ نناوے فیصد تنقید ہمیشہ حکومت پر ہوتی ہے۔ اس کو پاکستان میں حکومت کا حصہ سمجھیں۔ جیسے خاکسار نے ہمیشہ ن لیگ پر تنقید کی۔ اب وہ اپوزیشن میں ہیں، ان کی کس بات پر تنقید کروں میں؟ جب آپ حکومت میں نہیں ہوں گے، تب آپ کے ہر قول و فعل کی اس طرح سکروٹنی بھی نہیں ہو گی۔ پی ٹی ائی کو یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو شخص بھی آپ پر تنقید کر رہا ہے ضروری نہیں کہ اس کام کا اسے لفافہ ہی ملا ہو۔ وہ اس شخص کی ذاتی رائے بھی ہو سکتی ہے جس کا احترام کیا جانا چاہیے۔ احترام ممکن نہ ہو تو کم از کم برداشت کیا جانا چاہیے۔

ن لیگ کے گزشتہ دورِ حکومت میں ن لیگ نے بھی بداخلاقی کے اپنے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ لیکن اس کام کے لئے رانا ثنا اللٰہ، طلال چوہدری، عابدشیرعلی اور دانیال عزیز ٹائپ کے لوگ استعمال کیے۔ آپ نے کبھی نواز شریف، شہباز شریف یا ان کے کسی صفِ اول کے سیاستدان سے فحش اور ذومعنی گفتگو نہیں سنی ہو گی۔ لیکن یہاں جب جلسے میں خان صاحب نے بلاول صاحبہ کہا تو سامعین نے خوب داد دی اور خان صاحب بھی محظوظ ہوئے۔

میرا ہرگز یہ مقدمہ نہیں کہ پی ٹی آئی ہی وہ واحد جماعت ہے جس کے کارکنان اور حامی بداخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ اس فن کو جس مقام پر پی ٹی آئی نے پہنچا دیا ہے وہاں کسی اور کا گزر مشکل ہے۔ اب مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کے بہت سے لکھنے والوں کو لئے صورتحال یہ ہے کہ عزت سے رہنا ہے تو اگنور کرو۔ جس دن تنقید کر بیٹھو اس دن گالیوں کے لئے بھی تیار رہو۔ چپ رہو تو عافیت، بولو تو گالی۔ وہ غالب کیا کہتے ہیں کہ، جس کو ہو دین و دل عزیز، اس کے گلی میں جائے کیوں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).