پنجاب کی قومی زبان کون سی ہے؟


تئیس جولائی صبح نو بجکر تیس منٹ پر تحریک انصاف کی پنجاب حکومت کے وزیر تعلیم ڈاکٹر مراد راس کیطرف سے اپنے آفیشل سوشل میڈیا فین پیج پر شناخت اور ماں بولی (مادری زبان) سے محروم پنجاب کے سوئے ہوئے عوام کو یہ خوشخبری سنائی گئی کہ

”پاکستان تحریک انصاف کا منشور تھا کہ پرائمری سطح پر تعلیم اردو میں دی جائے

محکمہ سکول ایجوکیشن کی جانب سے پنجاب کے 22 اضلاع میں طلباء، والدین اور اساتذہ سے ذریعہ تعلیم (Medium of Instruction) سے متعلق سروے کیا گیا

ہر کیٹگری میں 85 فیصد سے زائد رائے اردو کے حق میں آئی

انشاءاللہ مارچ 2020 سے پرائمری کی سطح تک ذریعہ تعلیم (Medium of Instruction) اردو میں کر دیا جائے گا اور انگلش بطورِ زبان (Language) پڑھائی جائے گی ”۔

انکے اس سوشل میڈیا سٹیٹس پر مٹھی بھر بلکہ محنت کش کسان کی مٹھی میں پاک دھرتی پنجاب کی جمی ہوئی تھوڑی مٹی برابرقوم پرستوں کا ردعمل دیدنی تھا۔ ان چند لوگوں کا جذبہ ہزاروں برابر اور چند سطور کے دلائل کتابوں برابر تھے۔ دلا بھٹی، رائے احمد خان کھرل، مہاراجہ رنجیت سنگھ، ہری سنگھ نلوا اور بھگت سنگھ کے ان بھگتوں کے دلائل اور سوالوں کا جواب پاور پالیٹیکس اور پنجابی سیاسی اشرافیہ کا حصہ بنے کسی نام نہاد پنجابی کے بس کی بات بھی نہیں تھی۔

سو اس سوشل میڈیا پوسٹ کے کمینٹس میں کم از کم مجھے وہاں ڈاکٹر مراد راس کا کوئی جواب بھی نظر نہیں آیا۔ تحریکِ انصاف نے ڈگریوں کے حامل بعض نوجوانوں کو منسٹریاں تو سونپ دی ہیں مگر ان میں علم و حمکت اور دانش کا شدید فقدان نظر آتا ہے۔ اب ان کے مندرجہ بالا شوباز اسٹائل اشتہار کو ہی لے لیجیے کہ سروے کنڈکٹ کروایا ہے مگر تفصیلات بتانا گوارا نہیں کیں کہ اسے کس نگاہ سے دیکھا جائے یا اس کی ساکھ تعین کیسے کیا جائے۔

میرا پنجاب کے اس شناخت اور مہذب دنیا کے مادری زبان کی اہمیت کے تصورات سے محروم نوجوان وزیر تعلیم سے سوال ہے کہ ’پنجاب بائیس اضلاع کے جن سکولوں میں یہ سروے کروایا گیا اُنکا میڈیم کیا تھا؟ پنجاب کے سرکاری اور متوسط طبقہ کے نجی سکول تو پہلے ہی اُردو میڈیم ہیں۔ تو ایسے سکولوں میں سروے کروا کر پنجاب دھرتی کی زبان اور ہماری ماں بولی کو رجیکٹ اور نگلیکٹ کر کے کون سا نیا تیر مارا آپ نے ماں دھرتی کے سینے پر؟

اور کیا آپ نے سروے میں اردو انگریزی کے علاوہ پنجاب کی قومی اور مادری زبان پنجابی کی آپشن رکھی تھی؟ اور یکساں نظام تعلیمم کی بات تو انگش میڈیم نجی الیٹ سکولز کے ساتھ تھی جو کیمبرج کے تحت امتاحانات لیتے ہیں اور کروڑوں اربوں روپے کا ذرمبادلہ امتحانی فیس کے طور پر بیرون ملک بھیجتے ہیں۔ تو کیا ہم یہ سمجھیں کہ اس فیصلے کے بعد پنجاب کا کوئی بھی نجی سکول کیمبرج کے تحت امتحان نہیں لے گا؟ اورایچی سن کالج، بیکن ہاؤس، لاہور گرائمر سمیت سب الیٹ سکولز انگریزی میڈم چھوڑ کراُردو میڈیم ہو جائیں گے؟

اقتدار کی بھوکی، بیرونی سامراجی ایجنڈوں پر کاربند پنجاب اور وفاق کی حکومتوں اور سیاسی اشرافیہ نے پنجابیوں کو پولیس والوں کی لیبارٹری سمجھ رکھا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ کسی بھی دھرتی پر بولی جانے والی زبانیں قدیم ہوتی ہیں اور ان کا ان پر آنے والے مذاہب سے براہ راسط کوئی واسطہ نہیں ہوتا کبھی ضیا ء الحق جیسا فوجی آمر آ کر یہاں مذہب کے نام پر عربی لازمی قرار دے دیتا ہے۔ اور کبھی اس دھرتی پر سات ہزار کلومیٹر دور کی دھرتی یو پی سی پی کے مسلمانوں کی ہندی کا میڈیم مسلمانان ِہند کی زبان کے نام پر تھونپ دیا جاتا ہے۔

جبکہ پنجابی مسلمانانِ اُردو کی پیدائش سے صدیوں پہلے سے بول اور لکھ رہے تھے۔ دوسری طرف عام پنجابی بھی صدیوں کی غلامی کے بعد اِسقدر پست ذہن ہو چکا ہے کہ وہ اپنا شعور استعمال کیے بغیر ہر قسم کا سرکاری ریاستی اور سامراجی بیانیہ من و عن تسلیم کر لیتا ہے۔ اور قصور اس کا بھی نہیں، جب عام پنجابی کو باور ہی یہی کروایا جائے گا کہ اُردو مسلمانانِ ہند کی زبان تھی اور یہی تمھاری قومی زبان ہے۔ اور اسے انگریزی اور اُردو کے علاوہ اُسے کوئی چوائس ہی نہیں دی جائے گی تو ظاہر ہے کہ وہ انگریزی سے قطعی نا آشنا ہونے کے سبب گلابی اُردو میڈیم کو ہی ترجیح دے گا۔

واضح کرتا چلوں جناح صاحب نے اُردو کو کبھی قومی زبان نہیں کہا۔ انھوں نے اسے لنگوا فرینکا یعنی رابطے کی زبان قرار دیا تھا۔ اور اس حوالے سے ہم بھی اُردو کو وفاقِ پاکستان کی زبان تسلیم کرتے ہوئے احترام دیتے ہیں۔ مگر اُردوصوبہ پنجاب کی قومی زبان کیسے ہو گئی؟ سندھ میں سندھی میٹرک تک پڑھائی جا رہی ہے، شناختی کارڈ ڈومیسائل سندھی میں، ایف آئی آر سندھی میں، سڑکوں کے بورڈ سندھی میں، اندرون سندھ یونیورسٹیوں کے بورڈ سندھی میں۔

ہمیں سندھیوں سے کوئی تعصب نہیں بلکہ ہم ان کے دھرتی اور ماں بولی سے پیار اور وفا کو لائق تحسین و تقلید سمجھتے ہیں، دنیا کی ہر قوم کو اپنے ورثے سے محبت کرنی چاہیے، سندھ واسی اپنی دھرتی اور اپنی ماں بولی کو مان سمان دے رہے ہیں مگر ریاست بتائے سندھ اور پنجاب میں یہ دوہرا معیار کیوں؟ تعلیم صوبائی مسٔلہ ہے اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد تو اس امر کی سرے سے کوئی گنجائش نہیں رہ گئی کہ وفاقِ پاکستان صوبائی معاملات میں دخل اندازی کرے۔

چنانچہ پنجاب اسمبلی میں بیٹھے اپنی مادری زبان اور شناخت پر شرمندہ، وطن فروش، اقتدار کے بھوکے تحریکِ انصاف، نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے زرد خون بے پہچان، بے شناخت، سامراجی اور اغیار کے ایجنڈوں پر کاربندایم پی اے حضرات بتائیں صوبہ پنجاب کی قومی زبان کیا ہے؟ پنجاب دھرتی پر سات سے پانچ ہزار سال سے بولی جانیوالی زبان پنجابی پنجاب کی قومی زبان ہے؟ یا انگریز سامراج کی انگریزی؟ یا پھر یو پی سی پی کے لوگوں کی زبان پنجاب کی قومی زبان ہے؟ ستر سال سے پنجاب کو اُردو میڈیم بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن آج بھی اگر آپ کسی خالص دیہاتی سے اُردو میں بات کریں تو وہ سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے۔ وجہ؟ وجہ یہ ہے کہ اُردو اس کی مادری اور پنجاب دھرتی کی زبان نہیں ہے۔

پنجاب دھرتی کے عظیم صوفیائے اکرام کی اُس زبان کے ساتھ تعصب اب ختم ہونا چاہیے جس میں انھوں نے اپنے شہرہ آفاق کلام لکھے۔ آپ کسی دھرتی پر کسی دوسری دھرتی کی زبان مسلط نہیں کر سکتے کیونکہ زبانیں قدیم ہوتی ہیں اور دھرتی کے ساتھ جُڑی ہوتی ہیں (اگر جُڑی نہ ہوتیں تو صدیوں سے محلاتی سازشوں کی شکار پنجابی زبان کب کی مر چکی ہوتی) ۔ آپکو اُردو بطور رابطے اوروفاقِ پاکستان کی زبان پڑھانا ہے تو شوق سے پڑھائیے۔ جناح صاحب کی اُردو ہمارے سر آنکھوں پر۔ لیکن اگر آپ اُردو کو پنجاب کی ماں بولی (مادری زبان) کا متبادل بنانے کی کوشش کریں گے تو ہم مزاحمت کریں گے۔ کیونکہ ہم پنجاب کی ستر سال سے چلی آ رہی سیاسی اشرافیہ کی طرح ماں دھرتی کے نمک حرام نہیں ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).