خانہ بدوشی اور گھروں کے دکھ


ڈاکٹر بنے اور فوراً ہی پیا گھر وداع ہو گئے۔ سسرال کے گھر میں رہنے کا موقع ہی نہ ملا کہ صاحب فوجی تھے اور ہر سال یا دو سال بعد شہر بھی بدل جاتا تھا اور گھر بھی۔ یوں ہم نے بے شمار ٹھکانے بدلے۔ہمیں سب ہی گھر عزیز رہے کہ زندگی کے اس سفر میں ہمارے دکھ سکھ کے ساتھی ہوۓ۔ لیکن جو گھر عمر عزیز کے خاص لمحوں میں ہمارے ہم دم بنے، وہ آج بھی یادوں کی کھڑکیوں سے جھانکتے ہوئے ہمیں ناسٹلجیا میں مبتلا کرتے ہیں۔

منگلا کینٹ کا طویل وعریض لان، گھنے درختوں اور لال اینٹوں والا گھر ،پرانے وقتوں میں سانس لیتا ہوا، کھلے آسمان اور معطر فضا کے ساتھ ہمیں مسحور کرتا تھا۔ ہم ماں بنے اور ہماری بڑی بیٹی نے اسی گھر میں پاؤں پاؤں چلنا سیکھا۔ اسی گھر کی دیواروں نے اس کے لبوں سے ماما پاپا کے الفاظ سنے۔اسی دوست گھر نے ایک نوآموز ماں کی بے چینیاں اور بے خواب راتیں دیکھیں، مسقبل کی امیدیں باندھتے دیکھا۔

وقت کی گردش کے ساتھ ہم ملتان جا پہنچے اور ایک نئے گھر کے ساتھ ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ ہمیں پودوں کا خوب شوق تھا اور ہمارا باہر کا برامدہ گملوں میں لگے پودوں کے ساتھ ملتان کی گرمی میں ایک سکون آمیز ٹھنڈک سے ہمارا استقبال کرتا۔ شام کو ہم ایروکیریا کی شاخوں اور بوگن ویلا کی بیلوں کے ساۓ میں بیٹھ کر چاۓ پیتے اور اپنے پودوں سے کہی سنی کرتے۔

اسی گھر نے ہماری بیٹی کے تعلیمی سفر کا آغاز دیکھا، اے بی سی اور الف بے پے سے شروع ہونے والا سفر۔جب ماں میڈیکل کی سپیشلائزیشن کی کتابوں میں الجھی ہوتی، وہ میری گود میں بیٹھ جاتی اور اپنا کام مجھے دکھاتی۔ صاحب کو ترقی کا زینہ چڑھتے اسی گھر نے دیکھا۔ سو یہ گھر ہم سب کی جہد مسلسل کا گواہ بنا!

ہمارا گوجرانوالہ کینٹ کا گھر بہت یاد گار ٹھہرا، دو بچے دنیا میں آئے اور دو امتحانوں میں کامیابی پائی۔ ہم نے یہ کارنامہ تین سالوں میں کیسے انجام دیا، اس کا حال پھر کبھی۔

خوبصورت لان اور درخت اس گھر میں بھی ہماری زندگی کا حصہ تھے۔ دو منزلہ گھر جہاں ہم نے اوپر والی منزل میں اپنے بیڈروم کے ساتھ بچوں کا بیڈروم اور پلے ایریا بنایا۔ ساتھ میں بنے ٹیریس پہ لان میں لگے درختوں کے ساۓ میں بچوں کا سوئمنگ پول اور اس میں ہمارے بچوں کی قلقاریاں بھلاے نہیں بھولتیں۔ ہمارے بچوں کا پہلا قدم، پہلا دانت، پہلی سالگرہ میں ہمارا یہ گھر پوری طرح ہمارا ساتھی بنا۔ کبھی قمقموں سے جگمگایا تو کبھی ڈھیروں بچوں کے ساتھ سالگرہ مبارک کا گیت گایا۔ پرانی تصاویر میں بچوں کی شرارتوں کے ساتھ ساتھ گھر کی بازو پھیلائے ممتا بھری وارفتگی بھی نظر آتی ہے۔ دل میں ایک کسک سی اٹھتی ہے کہ وہ یادوں بھرا سٹیشن زندگی کے سفر میں کہیں پیچھے رہ گیا۔

وقت نے اڑان بھری اور ہم تبوک سعودی عرب کے ملٹری کینٹونمٹ جا پہنچے۔ سنٹرلی ائر کنڈیشنڈ ، وال ٹو وال قالین اور سب لوازمات سے سجا ہو ا خوبصورت گھر، آنگن میں لگے ہوئے کجھور کے درختوں کے ساتھ۔ جب کھجوریں اترتیں تو کہیں رکھنے کی جگہ نہ ملتی۔ ہمسایوں میں بانٹی جاتیں، ایک دفعہ ہم نے پاکستان بھجوائیں تو سب حیران پریشان کہ اتنی لمبی کھجور کسی نے پہلے نہیں دیکھی تھی۔ ہماری انڈونیشین ہیلپر آسیہ، جسے آج بھی ہمارا بیٹا یاد کرتا ہے اور وقت کے سمندر میں کھوجنا چاہتا ہے، لیکن کوئی سرا نہیں ملتا۔ آسیہ نے ہم سے آٹا گوندھ کے پراٹھا بنانا، بھرے کریلے ، پلاؤ اور جانے کیا کیا کچھ سیکھا اور اس مہارت سے بناتی کہ بعض دفعہ صاحب حیران رہ جاتے۔

وہ سب لمحے ہماری رواں زندگی سے جا چکے مگر جانے ہمیں کیوں یہ لگتا ہے کہ زندگی کا ایک ٹکڑا بھی وہیں کہیں رہ گیا، تپتے صحرا اور سرحد پار اردن سے پہنچنے والی ٹھنڈی ہواؤں کے ول نشین شہر تبوک میں۔

اور اب ہمارا آج کا گھر! تیل کھوجنے آئے انگریزوں کا بنایا ہوا پرانا گھر، وسیع لان میں لگے برگد اور نیم کے درخت۔

یہ گھر دیکھ رہاہے ہمارے جگر گوشوں کے بچپن کو رخصت ہوتے، انہیں نئے افق پہ اڑان بھرتے، ہماری عمر کی منزلیں طے ہوتے ہوئے اور وطن عزیز کی دوریاں سہتے ہوئے۔

یہ گواہ ہے ہمارے پچھلے دس برسوں کے ان دن رات کا جو اب کبھی نہ لوٹیں گے۔ ہمارا گھر تکتا ہے اداسی سے لان میں پڑے جھولے کو جہاں ہماری ماں بیٹھتی تھیں اور ہماری راہ تکتی تھیں۔ ہمارے دیر سے گھر آنے پہ وہ اتنا ہی فکر مند ہوتیں جیسے کہ ہمارے بچپن میں اور میں خوب ہنستے ہوئے کہتی، امی، میں اب بہت بڑی ہوچکی ہوں۔ وہ کہتیں، میرے لئے نہیں!

وہ پل، وہ یادیں, وہ وقت اب خواب ہوا، کتاب حیات میں کچھ مٹے مٹے سے نقوش چھوڑ کے۔

یہ گھر ہماری کہانی کا ایک باب ہے جو گزاری تو ہم نے ہی ہے پر خبر نہیں، سوچی کس نے تھی۔ اس گھر میں ہمارا پڑاؤ کب تک، کچھ معلوم نہیں کہ مسافر تو حکم کاپابند ہوا کرتا ہے۔

اور اب تو یہ سمجھ آتا ہے کہ خانہ بدوشوں کا کوئی بھی گھر نہیں ہوا کرتا۔ وہ تو ان دیکھی منزلوں کی پکار سنتے ہوئے انہونی کے اشتیاق میں پڑاؤ بدلا کرتے ہیں۔

میں نہیں جانتا کہ جب پرندے سردیوں کے کوچ سے

بہار میں واپس آئیں گے

تو ہمارا گھر اسی گلی میں ہو گا یا نہیں اور وہ

ہمارا گھر ڈھونڈ نہیں پائیں گے

میں آسمان پر اپنا اور اپنی گلی کا نام

کندہ نہیں کر سکتا ہوں

جب میں نے انگوروں کا ایک گچھا تمہیں دکھایا

اور تمہارے لئے میرا ترکہ ایک گچھا انگور تھے

تو پرندے گواہ تھے

ہم بارش میں بھیگے ہوئے

روزوشب سے گنگ

پرندوں کویہ نہ کہہ سکے

ہم آخر کار یہ گھر چھوڑ دیں گے

(ایرانی شاعر احمد رضا احمدی؛ ترجمہ معین نظامی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2