امریکہ میں عمران خان کی فتوحات


واشنگٹن ڈی سی میں کیپٹل ون ایرینا میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے پی ٹی آئی کی طرف سے منعقدہ جلسے میں بھرپور شرکت کی نیو یارک اور دُور دُور سے لوگ شریک ہوئے یوں لگ رہا تھا جیسے الیکشن سے پہلے جلسہ ہو رہا ہو۔ لوگوں میں عمران خان کی مقبولیت بے مثال تھی۔ لوگ وہاں صبح 10 بجے سے پہنچنا شروع ہوئے اور عمران خان لگ بھگ ساڑھے پانچ بجے وہاں پہنچے لیکن لوگ بے تابی سے اپنی لیڈر کا انتظار کرتے رہے۔ اس سے پہلے مودی نے بھی اسی ایرینا میں جلسہ کیا تھا لیکن لوگوں کی تعداد اتنی نہ تھی۔

بہرحال پاکستانی نژاد امریکیوں کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کر یقینا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو وزیرِ اعظم عمران خان کی عوامی مقبولیت کا بخوبی اندازہ ہوا۔ اس کا ذکر انہوں نے اپنی ملاقات میں عمران خان کے بارے میں توصیفی کلمات کہتے ہوئے کہا کہ وہ ایک نہایت مقبول اور عظیم پاکستانی وزیرِ اعظم کا پُرتپاک استقبال کرتے ہوئے بہت فخر محسوس کر رہے ہیں۔ حالاں کہ گذشتہ برس دونوں نے Twitter پہ ایک دوسرے کے خلاف سخت Tweets کیں جس میں دونوں ملکوں کی حکمتِ عملی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

لیکن اس حالیہ ملاقات کے بعد امن کی امیدوں کی زنگ آلودہ بند کھڑکیاں کھلنے لگی ہیں اور مثبت انداز میں دونوں ممالک میں آگے بڑھنے کے امکانات مزید روشن ہوگئے ہیں۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعدسے امریکہ کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رہے لیکن اب گذشتہ آٹھ دس برسوں سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات تنزلی کا شکار تھے۔ وزیرِ اعظم عمران خان کے اس حالیہ دورے سے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کی اہمیت کا احساس ہوا ہے اور لگتا ہے تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔

امریکہ اچھی طرح جانتا ہے کہ پاکستان امریکہ کے لیے مدد گار ثابت ہو گا۔ White House میں صدر ٹرمپ نے عمران خان سے ملاقات کے دوران پاکستانیوں کو سراہتے ہوئے کہا پاکستانی عمران خان کی طرح مضبوط لوگ ہیں۔ عمران خان نے صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا امریکہ ہمارے لیے بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔ امریکہ کے ساتھ ہمارے بہت پرانے لگ بھگ 67 سالہ تعلقات ہیں۔ جب افغانستان پہ سوویت حملہ ہوا تو پاکستان فرنٹ لائن پہ امریکہ کے ساتھ تھا۔

اب ہم چاہتے ہیں یہ تعلقات پھر سے برابری کی سطح پہ استوار ہوں۔ عمران خان نے مزید کہا کہ ہم کسی قسم کی کوئی ایڈ مانگنے کو نہیں آئے بلکہ ہم ٹریڈ کی بات کریں گے جو دنیا کی بھی ضرورت ہے۔ افغانستان کے معاملے پہ بات کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا پچھلے 19 سالوں سے افغانستان میں چِھڑی جنگ مضحکہ خیز بات ہے اس طویل ترین جنگ میں پاکستان نے ہماری مدد کی۔ صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ اس جنگ کو جیتنے کے لیے کئی لاکھ لوگوں کو میں مارنا نہیں چاہتا۔

جواب میں عمران خان نے کہا کہ میں ہمیشہ سے کہا کرتا تھا افغانستان میں امن قائم کرنے کا حل جنگ نہیں بلکہ سیاسی تصفیہ یا معاہدہ ہی اس کا حل ہے۔ 19 سال کی طویل جنگ میں یقینا ہر طرح کے جانی، مالی، اقتصادی اور سیاسی نقصانات ہوئے ایسی صورت حال کے بعد امریکہ خود افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے اور صدر ٹرمپ بھی پوری طرح طالبان کی مانگوں کو پورا کرنے کی کیفیت میں دکھائی دیتے نظر آتے ہیں۔ عمران خان کے برسوں سے افغان جنگ میں ایک اصولی مؤقف کی وجہ سے طالبان میں انہیں ایک خاص اہمیت حاصل رہی۔

عنانِ حکومت سنبھالتے ہی عمران خان صاحب پر اصلاحات کا بُھوت سوار ہو گیا بلکہ وہ تو اس سے پہلے ہی اپنے جلسوں میں اس چیز پہ زور دیا کرتے تھے۔ انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ وطنِ عزیز کا ہر شعبہ بری طرح بگڑا ہوا ہے اور اب عوام بھی پُر زور طریقے سے چاہتے ہپں کہ بگڑے ہوئے نظام کو درست کرنا وزیرِ اعظم پاکستان کا فرضِ منصبی ہے۔ اپنے دورے کے دوران عمران خان صاحب نے کہا کہ پاکستان کو استحکام اور امن کی اشد ترین ضرورت ہے تاکہ ملک ترقی کی راہوں پر دوڑنے لگے۔

کشمیر کے مسئلے پر ایک صحافی کی طرف سے سوال اٹھایا گیا تو صدر ٹرمپ نے کہا میری دو ہفتے پہلے نریندر مودی سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا میں آپ کی مدد چاہتا ہوں میں نے پوچھا کس سلسلے میں۔ بولے کشمیر کے مسئلے پر تو میرا جواب تھا میں ہر طرح سے مدد کرنے کو تیار ہوں اب ڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خان سے جاری ملاقات میں کہا کہ مسئلہ کشمیر کو حل کروانے میں ثالث  کا کردار ادا کرنے کو تیار ہوں۔ جواب میں عمران خان نے کہا کہ اگر آپ ایسا اقدام اٹھاتے ہیں تو بدلے میں آپ کو اربوں لوگوں کی دعائیں ملیں گی۔

صدرٹرمپ نے کہا یقینا کشمیر اپنے نام کی طرح دنیا پہ ایک خوب صورت جگہ ہو گی لیکن اب وہاں صرف بمباری ہوتی رہتی ہے۔ چلو کُفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔ وہ مانے تو سہی۔ شملہ معاہدے کے بعد سے کشمیر کے مسئلے کو دو طرفہ  معاملہ قرار دیا گیا ہے لیکن اگر کشمیریوں کودیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے تمام شہیدوں کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفناتے ہیں تو کیا یہ عمل ان کے جذبات کی عکاسی نہیں ہے؟ کشمیر کے مسئلے کا حل چاہنے والوں کے لیے یہ انتہائی خوشی کا مقام ہے کہ پہے کسی وزیراعظم نے کشمیر کے معاملے پر بات چھیڑی، اپنی زبان تو کھولی۔

کشمیر کی بہت معتبر شخصیت علی گیلانی صاحب نے بھی کہا ہے کہ میں نے پہلا وزیرِ اعظم دیکھا ہے جس نے امریکہ جا کر ان کے ہوم گراؤنڈ پہ کشمیر کی بات کی ہے۔ دوسری طرف بھارت میں غم و غصے کا بھانبڑ مچ گیا۔ کہیں کہا جا رہا ہے کہ نریندر مودی نے ٹرمپ سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا تو کہیں بھارتی پارلیمانی ہاؤس میں حزب اختلاف نے زور دیا کہ نریندر مودی پارلیمان کا احترام برقرار رکھتے ہوئے اس بات کی تردید یا تصدیق کرے لیکن اس کی طرف سے کوئی بیان نہیں آیا۔

بھارت ہمیشہ منہ کی کھانے کے بعد denial mode میں ہی رہا خواہ 1965 کی جنگ کی ہار ہو، ابھینندن کی واپسی کا معاملہ ہو یا کلبھوشن یادیو کا عالمی عدالت انصاف سے کیا گیا فیصلہ۔ کہا جاتا ہے قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جاتیں اس بات کا ادراک عمران خان نے صدر ٹرمپ کو احساس دلاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے لوگوں نے 70 ہزار قیمتی جانوں کا نذرانہ دیا ہے۔ بلاشبہ وزیر اعظم عمران کا یہ دورہ تاریخی دورہ تھا جس کی گونج ابھی بھی فضاؤں میں ہے۔

امریکہ اور ایران کی کشیدگی کے بارے میں عمران خان نے کہا کہ پاکستان اپنے پڑوس میں ایک اور جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ شاید اس بات کا اندازہ دنیا کے بیشتر ممالک کو بھی ہو گا اور اس سے مزید دہشت گردی کی لہر دنیا میں آئے گی۔ جنگ کسی بھی مسئلے کا نہیں۔ دوسری طرف آزاد جموں اور مقبوضہ کشمیر کی سیاسی قیادت نے عمران خان کو کشمیر کے حق میں اپنی آواز بلند کرنے پر زبردست خراج تحسین پیش کیا اور کہا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اب کشمیر کے تنازعے کا حل کشمیریوں کی عین خواہش کے مطابق کیا جائے۔

کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دینا ہی اصل حل ہے۔ 2020 کا سال امریکہ میں انتخابات کا سال ہو گا اس لیے ڈونلڈ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ ہر امریکی جنگ خصوصاً افغانستان کی جنگ کو صدارتی الیکشن سے پہلے ختم کر دیا جائے جس کا یقینامستقبل میں ان کو بہت فائدہ ہو گا۔ پاکستان کے وزیر اعظم کی عزت و توقیر یقینا پورے ملک و قوم کی تکریم ہے۔ مسٹر پرائم منسٹر! آپ نے یقینا پاکستان کا نقطۂ نظر بہترین انداز میں پیش کیا۔ پاکستان کے لیے سب سے بڑی یہ خوش خبری ہے کہ امریکہ نے پاکستان کی ماضی کی قربانیوں کو نہ صرف سراہا بلکہ اپنے ماضی کے حکمرانوں کی طرح ڈومور کے امکانات کی بات نہیں کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).