امریکی پروفیسر اور پاکستان کی بہادر عورتیں


امریکی پروفیسروں کے بارے میں میرا (محدود) تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ ان کا انداز گفتگو کچھ کھوجتا اور کریدتا ہوا ہوتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر جین کے انداز و اطوار بھی کچھ ایسے ہی تھے۔ ایک اضافی چیز وہ چھوٹی ڈائری تھی جس میں دوران گفتگو وہ کچھ نہ کچھ لکھتی رہتی۔ ہم دونوں آزادی صحافت پر بات کر رہے تھے۔ جب اچانک اس نے موضوع بدلا اور آزادی نسواں پر بات کرنے لگی۔ پوچھنے لگی کہ پاکستان میں خواتین کی آزادی اور حقوق کی کیاصورتحال ہے؟

میں نے کہاکہ کافی اچھی۔ اب تو پاکستانی عورتیں بہت سے غیر روایتی شعبوں میں بھی سرگرم عمل ہیں۔ جنگی جہاز اڑا تی ہیں۔ انسداد دہشت گردی فورس کا حصہ ہیں۔ جبکہ روایتی شعبوں میں بسا اوقات مردوں سے آگے نکل جاتی ہیں۔ ڈاکٹر جین کے چہرے سے صاف ظاہرتھا کہ اسے میری بات پر یقین نہیں آ رہا۔ کہنے لگی کہ شہری خواتین کے حالات شاید ایسے ہی ہوں، جیسا تم بتا رہی ہو۔ مگر میں نے سن رکھاہے کہ پاکستان میں دیہاتی عورتوں کی حالت، انتہائی ابتر ہے۔

میں نے جواب دیا کہ شہروں اور دیہاتوں کی صورتحال یقینا مختلف ہے۔ تاہم پاکستان میں حقوق نسواں کی کیفیت اس قدر بری نہیں جیسا کہ دنیا میں تاثر ہے۔ یہ دراصل ادراک (perception) اورصورت گری (portrayal) کا معاملہ ہے۔ کبھی پاکستان آو تو تب ہی اصل حقائق جان سکو گی۔ پوچھنے لگی کہ کیا پاکستان میرے آنے کے لئے ایک محفوظ ملک ہے؟ اتفاق سے چند دن پہلے میں نے تھامس رائٹرز فاونڈیشن کی تازہ ترین رپورٹ پڑھی تھی۔ اس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے میں نے کہاکہ پاکستان کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی دنیا کے ان دس ممالک کی فہرست میں شامل ہے جنہیں خواتین کے لئے انتہائی خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ لہذا میرا ملک پاکستان خواتین کے لئے اتناہی محفوظ اور غیر محفوظ ہے جتنا تمہارا ملک امریکہ۔

جنوبی ایشیا کی سیاست پر بات ہوئی تو پتہ چلا کہ ڈاکٹر جین اندرا گاندھی کے نام سے آگاہ ہے۔ پوچھنے لگی کہ کیا پاکستانی سیاست میں بھی خواتین موجود ہیں؟ انتہائی فخر کے ساتھ میں نے بتایا کہ ہمارے ہاں ایک خاتون دو مرتبہ وزیراعظم پاکستان منتخب ہوئی۔ اگر وہ مزید زندہ رہتی، تو یقینا تیسری بار بھی وزیراعظم بن سکتی تھی۔ بے نظیربھٹو کا نام سن کر ڈاکٹر جین کو جیسے کچھ یاد آ گیا۔ اپنی یاداشت کو کوستے ہوئے کہنے لگی۔ ارے ہاں۔ بے نظیر بھٹو کو میں کیسے بھول سکتی ہوں۔ وہ بڑی شاندار عورت تھی۔ میں نے کہا۔ بلا شبہ انتہائی شاندار۔ اور اسے بتایا کہ اب بے نظیر بھٹو کا بیٹا بلاول اپنی ماں کی سیاسی جماعت کا سربراہ ہے اور ملکی سیاست میں کافی متحرک ہے۔

ڈاکٹر جین اس موضوع پر مزید معلومات چاہتی تھی۔ ایسے موقعوں پر ہمیشہ میرادل چاہتا ہے کہ چودہ سو سال پہلے حضرت خدیجہ کی تجارت (business) سے بات شروع کی جائے اور آج کے دن پر ختم ہو۔ ہم چونکہ سیاست اور جمہوریت پر بات کر رہے تھے، میں نے ڈاکٹر جین کو بتایا کہ اگرچہ پاکستان ایک قدامت پرست ملک ہے۔ تاہم ہماری سیاسی تاریخ بہادر خواتین سے بھری پڑی ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے بھی مسلمان خواتین تحریک آزادی کا حصہ تھیں۔

انہوں نے جدوجہد آزادی میں بھرپور حصہ ڈالا۔ گرفتار ہوتی رہیں۔ جیلوں میں ڈالی گئیں۔ مگراپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹیں۔ اس زمانے میں بھی ان خواتین کے شٹل کاک برقعے، چوغے، حجاب اور نقاب ان کی راہ میں حائل نہ ہو سکے تھے۔ میں نے بتایا کہ ہماری ستر سالہ سیاسی تاریخ آمرانہ حکومتوں سے بھری (بلکہ اٹی) ہوئی ہے۔ لیکن جب بھی میرے ملک پر کسی غاصب کا قبضہ ہوا۔ کوئی نہ کوئی بہادر خاتون خم ٹھوک کر میدان میں اتری۔

میں نے محترمہ فاطمہ جناح کا ذکر کیا، جنہوں نے ایوبی آمریت کو للکارا تھا۔ بیگم نصرت بھٹو کا تذکرہ کیا جو اپنے خاوند کی پھانسی (بلکہ عدالتی قتل) کے بعد ضیاء آمریت کے خلاف برسر پیکار رہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی جدوجہد کا حوالہ دیا جو انہوں نے جمہوریت کی بحالی کے لئے کی تھی۔ بیگم کلثوم نواز کے متعلق بتایا جنہوں نے آمر وقت پرویز مشرف کو ناکوں چنے چبوا ڈالے تھے۔ عاصمہ جہانگیرکاذکر کیا جو ہر زمانے میں آمریت کے سامنے ڈٹ کر کھڑی رہیں۔

میں نے ڈاکٹر جین کو بتایا (بلکہ جتایا) کہ امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار کسی خاتون (ہیلری کلنٹن) نے محض چند سال پہلے صدارتی انتخاب لڑا ہے۔ جبکہ پاکستان میں ہم برسوں پہلے اس مرحلے سے گزر چکے ہیں۔ میرے ملک میں ایک بہادر عورت نے 1965 میں صدارتی انتخاب لڑا تھا۔ وہ بھی ایک فوجی حکمران کے خلاف۔ یہ بات سن کر امریکی پروفیسر نے اپنے دونوں ہاتھ فضا میں بلند کیے اور ہنستے ہوئے کہنے لگی۔ OK۔ You win (ٹھیک ہے۔ تم جیت گئی) ۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹر جین نے دریافت کیا کہ وہ کون عورت تھی جس نے پاکستان میں صدارتی انتخاب لڑا تھا اور اس آمر کا نام کیا تھا؟ میں نے بتایا کہ محترمہ فاطمہ جناح اور فیلڈمارشل ایوب خان۔

اس نے اپنی ڈائری میں یہ دونوں نام لکھے اور کہنے لگی کہ مجھے پاکستانی خواتین کے متعلق تمہاری باتیں سن کر حیرت ہوئی ہے۔ میں ضرور اس موضوع پر کچھ تحقیق کروں گی۔ یہ کہہ کر ڈاکٹر جین تو چلی گئی۔ مجھے مگر وہ تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا کرگئی۔

میں نے سوچا کہ کاش ڈاکٹر جین کبھی نہ جان سکے کہ ان شاندار عورتوں کے ساتھ ہم نے کیسا ”شاندار“ سلوک کیا۔ کاش اسے کبھی معلوم نہ ہو سکے کہ میرے ملک میں، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی لاڈلی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو امریکی اور بھارتی ایجنٹ کہا جاتا رہا۔ اسے ”غدار“ کا لقب دیا گیا۔ ۔ ۔ ”چڑچڑی بڑھیا“ کہہ کر پکارا گیا۔ یہ کہا گیا کہ مادر ملت (قوم کی ماں ) ہے تو ماں بن کر رہے۔ نصرت بھٹو کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا۔

نفاذ اسلام کی گردان کرتے آمرکے دور میں اس نہتی عورت پر ڈنڈے اور لاٹھیاں برستی رہیں۔ اسے (بیٹی سمیت) اپنے خاوند کے جنازے میں شرکت اور آخری دیدار سے روک دیا گیا۔ نظربندی کے نام پر برسوں قید تنہائی میں رکھا گیا۔ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون اور کم عمر ترین وزیراعظم، بینظیر بھٹو کو کبھی ٹک کر حکومت نہیں کرنے دی گئی۔ اسے سیکیورٹی رسک کہا جاتا رہا۔ اور آخرکار اسے مار ڈالا گیا۔ کلثوم نواز کے ساتھ بھی انتہائی غیر انسانی سلوک ہوا۔

اس کے مرض کا مذاق اڑایاگیا۔ اس کی بیماری کو ڈھونگ اور ڈرامہ قرار دیا گیا۔ بستر مرگ پر پڑی اس کینسر زدہ مریضہ کے کمرہ ہسپتال میں خاص طور پر ایک آدمی کو بھیجا گیا تاکہ اس کی تصویریں لا کر اس کے ناٹک کا بھانڈہ پھوڑا جا سکے۔ عاصمہ جہانگیر پر غداری کے ساتھ ساتھ اسلام دشمنی کے آوازے کسے جاتے تھے۔ نا صرف اس کی زندگی میں بلکہ موت کے بعد بھی۔ اس کی تدفین کے بعد یہ بحث ہوتی رہی کہ اس کی نماز جنازہ پڑھنا جائز تھا بھی یا نہیں۔

اس وقت، میں نے صدق دل سے دعا کی کہ کاش ڈاکٹر جین تمہاری یہ ڈائری کہیں کھو جائے، جس میں تم نے ان خواتین کے نام لکھے ہیں۔ تم کبھی ان عورتوں کے بارے میں تحقیق نہ کر سکو۔ کبھی وہ برہنہ حقائق نہ جان سکو، جنہیں یاد کر کے ہم تاریخ سے اپنا منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔

۔ ۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).