عرفان صدیقی اور قانون کرایہ داری


قانون وانصاف کی عملداری کسی بھی معاشرے کا طرہ امتیاز ہوتا ہے۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہوتے ہیں اور انصاف کی دیوی کی آنکھوں پر بندھی پٹی اس امر کی غماز ہے کہ منصف کٹہرے میں کھڑے ملزم کی سماجی حیثیت اور جاہ و حشمت سے بے نیاز ہوکر اپنے فرائض منصبی ادا کرنا ہے۔ یا اسے ایسا کرنا چاہیے۔

استاد اور معلم قوم کے معمار ہوتے ہیں۔ اور استاد کی عظمت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اساتذہ کی قدر ومنزلت کو پہچاننے والی اقوام کبھی ہزیمت و شرمندگی کا شکار نہیں ہوتیں اور استاد، صاحب فکر، قلم وقرطاس سے منسلک افراد کی تکریم نہ کرنے والا کوئی سماج کبھی باوقار نہیں ہوسکا۔ کبھی ہمارے سماج میں بھی ایسے نظارے دیکھنے کو ملتے تھے کہ استاد کے خوف سے گلی میں کھیلتے بچے کونوں، کھدروں میں دبک جاتے تھے اور بڑے بوڑھے بھی استاد کی تعظیم کو اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔

لیکن یہ سب باتیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ اب اس سماج میں کمترین سماجی حیثیت کا حامل اگر کوئی طبقہ ہے تو وہ استاد ہے۔ اور ہم اتنے ترقی یافتہ ہو چکے ہیں کہ استاد کی تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ یوں تو ہم بحیثیت مجموعی ہی اس اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو چکے ہیں لیکن سماجی تنزلی کے اس سفر کو موجودہ حکومتی بندوبست میں کافی مہمیز دی گئی ہے۔ سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر مجاہد کامران صاحب اور سابق وائس چانسلر سرگودھا یونیورسٹی پروفیسر اکرم چوہدری صاحب کو نیب کیسز میں ہتھکڑی لگا کر عدالتوں میں پیش کرنے سے لے کر اک پرائیویٹ ادارے کے استاد کو بعد از مرگ بھی ہتھکڑی پہنائے رکھنے تک کے کارنامے اسی دور احتساب میں انجام پائے۔

سیاسی مخالفین پر عرصہ حیات تنگ کرنے کا سلسلہ دراز ہے اور اس کی مثال رانا ثناء اللہ پر منشیات کے نادر روزگار مقدمے کی دی جاتی تھی۔ لیکن تین نسلوں کے استاد، صاحب طرز ادیب و دانشور عرفان صدیقی کی گرفتاری نے اس حکومتی بندوبست کے اخلاقی دیوالیہ پن کی قلعی کھول دی ہے۔ عرفان صدیقی صاحب کا حوالہ صرف نواز شریف اور مسلم لیگ ن نہیں ہے۔ بلکہ وہ اک استاد، کالم نگار اور دانشور کے حوالے سے ہی سماج میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔

صدیقی صاحب کو کرایہ داری ایکٹ کی مبینہ خلاف ورزی پر پولیس کی بھاری نفری نے ان کے گھر پر چھاپہ مار کر نہ صرف گرفتار کیا بلکہ کرایہ دار کے ساتھ ہتھکڑی میں جکڑا گیا اور یہ تصویر اولی لابصار کی عبرت کے لیے میڈیا پر نشر کروائی گئی۔ عرفان صدیقی صاحب کے ضمن میں پولیس کی پھرتی اور چابکدستی کا یہ عالم ہے کہ وہ پولیس جس کی ناک تلے منشیات فروش کھلے پھرتے ہیں اور قاتلوں کو پکڑنے میں مہینے لگ جاتے ہیں۔ وہی پولیس چھ دن پہلے ہونے والے کرایہ داری معاہدے میں ہونے والی بے ضابطگی پر فوری ایکشن لیتی ہے اور اک ستر سال سے اوپر کے بزرگ کو سمجھانے، سہواً ہوئی غلطی کو سلجھانے کا موقع دینے یا وارننگ دینے کی بجائے گرفتاری سے کم پر اکتفا نہیں کرتی اور جب اگلے روز 78 سالہ استاد کو ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تو عدالت ایک مہینہ قید اور تین سو روپے جرمانہ کی سزا والے جرم میں بزرگ استاد کی ضمانت لینے کی بجائے ان کو چودہ دن کے ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیتی ہے۔

میڈیا پر آئی اک تصویر میں عرفان صدیقی صاحب ہتھکڑی لگے ہاتھ میں قلم کو بلند کر رہے ہیں کہ میرا تعلق قلم قبیلے سے ہے اور ملک دشمن یا دہشت گرد نہیں ہوں۔ لیکن معاشرے میں قانون کی عملداری یقینی بنانے کے لئے عرفان صدیقی جیسے قانون کرایہ داری کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف نظام قانون وانصاف کو پوری قوت سے بروئے کار آنا چاہیے تاکہ لوگ سماج کی بنیاد اس قانون کرایہ داری کو آئین کا آرٹیکل چھ ہی نہ سمجھنا شروع کر دیں جس کا ملزم عدالت پیش ہونے کا روادار نہیں ہے۔ آرٹیکل چھ کے معمولی گناہ گار کو رعایت دینے سے کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا۔ لیکن اگر قانون کرایہ داری کے ملزموں نے معاشرے میں لا قانونیت پھیلا دی تو وطن کی سالمیت خطرے میں پڑ جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).