ہماری تقدیر کے بدلتے موڈ


ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں گُذرا ہم سب بھنگڑے اور لڈیاں ڈال رہے تھے کے بس اب دن دُور نہیں جب سی پیک اپنی تکمیل کو پہنچے گا تو دودھ اور شھد کی ندیاں بہنے لگیں گی ہمارا جغرافیائی محل۔ وقوع ہی کچھ ایسا ہے کے ہم کچھ کریں گے نہیں بس دُنیا اپنی مجبوریوں کی وجہ سے پیسوں کی برسات لگا دے گی۔ چین کیا روس کیا ایران کیا تُرکی کیا ہمیں تو آمریکا اور یورپ کی بھی بقا اسی میں نظر آرہی تھی کے آئیں اور سی پیک کا حصہ بن جائیں، عرب ممالک تو اُمید تھی کے درخواستیں لئے کھڑے ہوں گے اور ہم بصد مجبوری کے اپنے ہی برادر اسلامی ممالک ہیں سی پیک کا حصہ بنانے پے مجبور ہوں گے۔

نئی حکومت آئی اور آھستہ آھستہ ہم یہ جانتے گئے کے اصل مسئلہ تو کہیں اور ہے مُلک تو مالامال ہے روزانہ کی بنیاد پر زرعی اجناس، ٹیکسٹائل مصنوعات۔ قیمتی دھاتیں، اور طرح طرح کی چیزوں کے بحری جھاز ہیں جو پوری دُنیا کو ہماری مصنوعات پہنچاتے ہیں اور پئسا ہی پیسا لاتے ہیں بُرا ہو حکمرانوں کا جن کے جھاز کھڑے ہیں جو یومیہ، ماہانہ اور سالانہ کی بنیاد پر اربوں ڈالرس کا زر۔ مبادلہ بابر لے جاتے ہیں اور مُلک کو کنگال کر دیتے ہیں۔

بس اُنکا سلاخوں کے پیچھے جانا تھا اور حالات نے کروٹ لینی تھی اور ہر طرف سے ہن برسنا تھا بس 90 دن درکار تھے۔ 90 دن آئے گئے ہوگئے اب ہماری قومی تقدیر کا موڈ ذرا تبدیل ہو چُکا تھا۔ ہم عقل کے اندہوں کو ہوش کے ناخن نہ تھے ورنہ تو قسمت کی دیوی نے بے پناہ خزانے اپنے اندر چھپائے ہوئے تھے۔ ہمارے زیرک اور سچے حکمرانوں پر قدرت نے وہ راز آخر آشکار کر ہی دیے اور ہمیں معلوم ہوگیا کے سمندر کی بے پناہ گہرائیوں میں تیل اور گیس کے اتنے ذخائر پڑے تھے کے ہم اتنے امیر ہو چکنے والے تھے کے خدشہ پئدا ہوگیا کے ملازمتوں کے لئے 22 کروڑ لوگوں کی آبادی کم پڑ جانی تھی، اور ہم نے بھی تہیہ کیا ہوا تھا کے یورپ اور آمریکا کے لوگوں کو رحم کھا کر اپنے پاس بُلا لینگے پر بُرا ہو کسی سنگین بین الاقوامی سازش کا کے سمندر سے تیل شاید کہیں بہا دیا گیا۔

لیکن تقدیر پھر بھی مھربان تھی بس اُسکا ذرا سا موڈ بدلا ہوا تھا سو تقدیر نے طئے کیا کے کچھ عرصے کے لئے ذرا سا ہمارے عزم اور حوصلے کو آزمایا جائے اور اسی نیت سے ہمارے حکمرانوں کو یہ سوجھی کے ہم شاید بہت زیادہ خوشحال ہیں اس لئے ہمارے پاس جو اربوں گھروں میں پڑے ہیں اُن پر جائز ٹیکس دیں اور پھر قسمت کی دیوی کی مھربانیاں دیکھیں ہم تو اتنے خوشحال ہونے والے ہیں کے ہمارے پُرانے کرم فرما آمریکا بھادر نے جب کہا بھی کے ماضی کی طرح پھر سے امداد بحال ہو سکتی ہے تو ہمارے خوددار اور عظیم رہنما نے جھٹ سے کہہ دیا ”ایڈ نہیں ٹریڈ“ اور کیوں نہ کہتا پورے ایک سال کی قومی محنت اور مشقت سے ہم نے اپنی صنعت کا پہیہ چلا دیا تھا۔ زائد پیداوار تھی جو اسٹورز میں پڑی سڑ رہی تھی، کھیتوں کو جدید کاشتکاری سے ہم نے کیا سے کیا بنا دیا تھا۔ بس دُنیا کی منڈیوں تک رسائی درکار تھی اور ہم نے چین تک کو پیچھے چھوڑ دینا تھا

اور اس طرح ایک مسلسل تبدیلی ہے جو ہماری قومی تقدیر کے موڈ شریف میں پائی جاتی ہے۔ کیونکہ ہم نے تہیہ کیا ہوا ہے کے ہم نے کوئی مستقل پالیسی اختیار کرنی ہی نہیں۔ ہم نے اقوام۔ عالم کی طرف دیکھنا نہیں کے اقوام نے ترقی اور خوشحالی کی منازل کس طرح طے کیں۔ ہم نے ماھرین معیشت کو بٹھا کر اُن سے پوچھنا نہیں کے ہم نے کیا کرنا ہے۔ ہم نے ادارہ جاتی تشکیل کرنی نہیں ہم نے شارٹ ٹرم یا مختصر مدت کے منصوبے بنا کر اپنا وقت پورا کرنا ہے اور انتظار کرنا ہے کہ تقدیر کا موڈ بدلے، اب بھی شاید ایران اور افغانستان کے تناظر میں تقدیر ہماری طرف مھربان ہونے جا رہی ہے اور شاید کچھ عرصے کے لئے سب ٹھیک ہو جائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).