یہ غلطی ہے تو فاش ہے اگر مذاق ہے تو سنگین ہے


ہمارے ہاں مذاق سر سے گزر جائے تو طوفان اور طوفان سر سے گزر جائے تو مذاق کا چلن تو عام ہے لیکن مذاق مذاق میں پیٹ پھاڑنے کی ریت بالکل ہی نئی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی شکایت کرے تو کبھی مذاق غلطی اور کبھی غلطی مذاق بن جاتے ہیں مگر اس کا خمیازہ تو کسی نہ کسی کو بھگتنا ہی ہوتا ہے۔

پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو آنے والے وقت میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بری طرح متاثر ہوں گے ۔ ان ممالک میں قدرتی آفات کی شدت میں اضافہ ہونے کے خدشات ہیں نتیجتاً غریب ترین لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوں گے ۔ جس خطرے کی نشاندہی سب سے زیادہ ہوتی رہی ہے وہ لوگوں کی محفوظ مقامات کی طرف ہجرت ہے جس کی وجہ سے پہلے سے مخدوش شہری سہولیات کی حالت مزید ابتری اختیار کرے گی۔

پاکستان میں اکتوبر 2005 میں جس شدت کے زلزلے کی زد میں آیا اس سے نہ صرف ملکی معیشت بلکہ سماجی ڈھانچے کو بھی ناقابل برداشت نقصان پہنچا۔ اسی ہزار لوگ اس زلزلے میں لقمہ اجل بن گئے اور اس سے دگنی تعداد جسمانی معذوری کا شکار ہوئی اور اس آفت کی وجہ سے لوگوں کو پہنچی ذہنی اذیت اور اس کے مضمرات پر تو ہم نے توجہ ہی نہیں دی۔

آزاد کشمیر اور خیبر پختونخواہ میں گھروں کے علاوہ تعلیمی اداروں، صحت کی سہولیات کے مراکز، سڑکوں اور فراہمی آب جیسی سہولتوں کی بحالی اکیلے حکومت پاکستان کی بس کی بات نہیں تھی۔ ان حالات میں پورے پاکستان کی عوام نے جس جذبہ خیرسگالی کا مظاہرہ کیا وہ بھی فقید المثال ہے مگر بین الاقوامی برادری کی طرف سے دی جانے والی امداد اور تعاون کو بھلایا نہیں جا سکتا۔

امداد دینے والوں میں کمیونسٹ ملک کیوبا سے لے کر مشرق وسطیٰ کے برادر مسلم ممالک، یورپ اور مشرق بعید سمیت ہر ملک و قوم کے لوگ شامل ہیں۔ اس امداد میں نہ صرف پیسہ آیا بلکہ ہنر مند انسانی وسائل کی بیش بہا دولت بھی ملی جس نے یہاں نہ صرف متاثرین کی بحالی میں مدد دیا بلکہ یہاں قدرتی آفات کی صورت میں کام کرنے کے لئے لوگوں کی بڑی تعداد کو بھی تیار کیاجس کا ثبوت آج اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں میں قدرتی آفات کے شعبے میں کام کرنے والے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ اقوام متحدہ پاکستان کے زلزلے کی آفت سے نمٹنے کے منصوبے کو بڑے فخر سے اپنا فلیگ شپ کام کہتا ہے اور پاکستانی ماہرین ہنگامی حالات میں کام کرنے والے بہترین کارکن مانے جاتے ہیں۔ ایک مثال دیگر ممالک میں خدمات سرانجام دینے والے پاکستانی ماہرین کی ایک کثیر تعداد ہے جو عالمی اداروں کے ساتھ وابستہ ہے۔

بین الاقوامی امداد عالمی مالیاتی اداروں اور اقوام متحدہ کے علاوہ دوسرے ممالک کے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے ذریعے سے ملتی ہے۔ پاکستان میں ایسے سرکاری اداروں کے ذریعے امداد دینے والوں میں امریکہ، جاپان، جرمنی، یورپی یونین کے علاوہ سب سے نمایاں برطانیہ ہے جو اپنے ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (ڈی ایف آئی ڈی) کے ذریعے مختلف سماجی اور اقتصادی ترقی کے شعبوں میں گزشتہ کئی دہائیوں سے کام کرتا رہا ہے ہے۔

خاکسار کو اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں کم و بیش ان سب ادروں کے ساتھ کام کرنے یا ان کے کام کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا اور اس بات کا اقرار کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ برطانیہ کے ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی نے امداد اور ترقی کے شعبے میں نہ صرف طویل المدتی مثبت اثرات چھوڑے ہیں بلکہ اس شعبے میں تحقیق اور جستجو کے نتیجے میں جو علم کا خزانہ ہمارے پاس دستیاب ہے اس میں اس ادارے کا نمایاں حصہ ہے۔ آج علمی میدان میں بین الاقوامی سماجی ترقی باقاعدہ ایک شعبے کے طور پر مسلمہ ہے اور اس میں مزید تحقیق اور جستجو کا سفر جاری ہے۔

پاکستان میں 2005ء کے زلزلہ کے بعد برطانیہ کے ادارہ برائے بین الالاقوامی ترقی کی طرف سے امداد اور تعاون کے پیچھے وہاں بسنے والے پاکستانیوں کی طرف سے وہ سیاسی دباؤ بھی تھا جو وہ بطور شہری اپنے ووٹ کے حق کو استعمال کرتے ہوئے پیدا کرتے ہیں۔ چونکہ برطانیہ میں بسنے والے پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے جو زلزلے میں سب سے زیادہ متاثر بھی ہوا تھا جس کی وجہ سے امداد اور تعاون بھی فقید المثال رہی۔ نہ صرف آزاد کشمیر بلکہ پنجاب کے اضلاع گجرات، سیالکوٹ اور جہلم وغیرہ سے بھی بڑی تعداد برطانیہ میں مقیم ہے اور وہ وہاں کی سیاست میں بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ برطانیہ میں بسنے والے پاکستانیوں نے اپنی حکومت کو اپنے ملک میں ہونے والی مصیبت میں امداد دینے پر آمادہ کیا۔ ہمارے ایک پڑوسی ملک کو حکومت برطانیہ کی طرف سے پاکستان کی طرف اس نظر کرم پر شکایات بھی رہی ہیں۔

پاکستان کی بساط سیاست پر چور اور سپاہی کا کھیل اتنا ہی پرانا ہے جتنی اس ملک کی اپنی تاریخ۔ ایک باری میں چور کہلانے والے دوسری باری میں سپاہی بن جاتے ہیں اور پہلی باری کے سپاہیوں کو چور بنا کر شور مجاتے ہیں اور باری بدلتے ہی کردار بھی بدل جاتے ہیں۔ چوری اور چکاری کے الزامات غلط بھی نہیں جو 1947ء میں تقسیم ہند کے نتیجے میں ہونے والی ہجرت کے ساتھ جعلی کلیموں کے ذریعے یہاں سے جانے والے غیر مسلموں کی جائیدادیں ہتھیانے سے شروع ہوئی اور ہنوز جاری ہے۔ بدعنوانی، چوری اور کرپشن میں طبقہ اشرافیہ ہی ملوث رہا ہے جس میں ف فوجی اور سول بیورو کریسی، جاگیردار، سرمایہ دار، سیاستدان اور علمائے دین سب ہی شامل ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف چور سپاہی کا کھیل کھیلنے اور شور مجانے کے علاوہ ملک سے کرپشن ختم کرنے کے لئے آج تک کسی حکومت یا سیاسی جماعت نے سنجیدگی نہیں دکھائی اور کرپشن کا طوفان مذاق بن کر رہ گیا ہے۔

کسی دوست ملک کی طرف سے امداد میں ملنے والے قیمتی زیورات کے ہار کو اٹھا کر شور مجانے پر مذاق قرار دینا بھی سب ہی نے دیکھا۔ زلزلے کے دوران امداد میں دیے گئے پر تعیش خیموں اور دیگر سامان پر اشرافیہ نے اپنا حق جتاتے ہوئے غریب متاثرین کو مستحق تو کیا ایسے قیمتی سمان کو استعمال کرنے کا قابل ہی نہیں سمجھا۔ زلزلے اور سیلاب کے طوفان پر یہ مذاق تو ہوتا رہا مگر پہلی بار حکومت کی طرف سے برطانیہ کے بین الاقوامی ادارے کے پیسے چرانے کا سنجیدہ الزام سامنے آیا ہے جو کسی صورت فروگزاشت نہیں کیا جا سکتا ہے۔

اس الزام کی سنگینی کی ایک وجہ یہ ہے کہ برطانیہ پاکستان کو امداد دینے والے بڑے ممالک میں سر فہرست ہے اور ایسے الزامات سے غریب لوگوں، پسماندہ علاقوں اور مصیبت زدگان کو ملنے والی امداد میں فرق آجائے گا۔ آنے والے وقتوں میں موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مصائب کے پیش نظر امداد دینے والے ممالک کے اعتماد کو بحال رکھنے کے لئے ایسے الزامات کی شفاف تحقیات بہت ضروری ہیں۔

چونکہ برطانیہ کا ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی ایک سرکاری ادارہ ہے جو اپنے پارلیمان کو جواب دہ ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ میں موجود پاکستانی ووٹروں کے نمائندے جو اپنی حکومت کو پاکستان کی امداد کے لئی لئے سیاسی دباؤ ڈالتے رہیں ان کی ان الزامات سے سبکی ہوئی ہے جو شفاف تحقیقات کے ذریعے دور کرنا انتہائی ضروری ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ زلزلہ زدگان کی امداد کے رقوم میں خرد برد کے اس طوفان کو سنجیدگی سے لے کر شفاف تحقیقات کرے جس میں برطانیہ کے سفارت خانہ اور ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی کے نمائندے بھی شامل ہوں۔ اگر الزامات صحیح ہیں تو اس میں ملوث افراد کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔ اگر یہ بھی چور سپاہی والا مذاق ہے تو انتہائی سنگین ہے اس پر معذرت کرے اور ایسے بھونڈے الزامات لگانے والوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچا ئے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan