جدید مسلم ذہن میں علم کی دوئی کا مسئلہ


آپ کسی بھی روایتی مذہبی گھاٹ کا پانی پی کر دیکھ لیجیے، اس مخصوص طبقاتی بھاشا میں خدا اور اس کے نبی کا ’مطلوب انسان‘ کبھی ریاضی دان یا کیمیا دان وغیرہ نہیں ہو گا۔ لہٰذا یہ ہرگز حیران کن نہیں کہ ہم قرونِ وسطٰی کی مسلم معاشرت میں کبھی الخوارزمی یا ابن الہیثم وغیرہ کے ناموں کے ساتھ ’امام‘ کا سابقہ نہ لگا سکے اور یہ بھی خارج از امکان ہے کہ مستقبل بعید کے مسلم معاشروں میں کسی چوٹی کے سائنسدان یا فلسفی کو کسی دینی مبلغ یا فقیہ جتنی پذیرائی میسر آ سکے۔ صاحبو، ہود بھائی اور تقی عثمانی کا کیا مقابلہ۔ بھلا دنیا اور آخرت بھی کبھی ایک جتنے اہم ہوئے ہیں؟

اگر بات یہیں تک رہتی تو کچھ ایسی وحشت کی بات نہ تھی۔ ہم اپنی جدو جہد اسی سست رفتاری سے جاری رکھتے اور اپنے مذہب پسند دوستوں کوریت میں ’مسلم نشاة ثانیہ‘ کے خیالی محل تعمیر کرتے دیکھ کر مسکراتے ہوئے منہ دوسری طرف کر لیتے۔ لیکن مسئلہ اب صرف اپنے مخصوص آدرشوں کے لئے جدوجہد کرنے کا نہیں بلکہ بنیادی انسانی حقوق کا ہے۔ وحشت ناک امر یہ ہے کہ انسانی ترقی کے ایک مخصوص جدید تصور سے ظاہری طور پر اختلاف کرتے ہمارے یہ مذہب پسند نقادتعبیر پر اپنا اجارہ قائم رکھنے کی خواہش میں ایک طرف تو آزادانہ سوچنے، سمجھنے اور سوال اٹھانے کے بنیادی حق پر اخلاقی استعمار کے ذریعے قدغن لگاتے نظر آتے ہیں اور دوسری طرف سائنسی مادیت و افادیت پرستی کی انتہا پر کھڑے ہو کر سر ے سے سائنس کی مابعدالطبیعاتی فلسفیانہ بنیادوں کا انکار کر دیتے ہیں۔

کسی بھی درجے کی پاکستانی جامعہ کے فزکس، ریاضی یا انجینئرنگ کی جماعت میں طالبعلموں سے یہ سوال پوچھ کر دیکھئے کہ ریاضی کی کتاب پوری دل جمعی سے پڑھنے سے خدا کے خوش ہونے کی کوئی امید ہے تو آ پ کو معلوم ہو جائے کہ مرض کی جڑیں کتنی پختہ ہیں۔ اس استدلال کے لئے بہت زیادہ لفاظی کی ضرورت نہیں کہ اس مخصوص مذہبی نفسیات میں کم و بیش تیرہ صدیوں سے گندھے انسان کی جینیاتی ماہیت کبھی اسے اس مرحلے کو اتنی خوش اسلوبی سے طے کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی کہ خدا اور وصال ِ صنم ایک ساتھ ہی مل جائے۔

ہم نے بحیثیت استاد اپنی کلاس میں ایک سے زیادہ بار دیکھا کہ وضع قطع سے مذہبی معلوم ہونے والے طالبعلم نے بہت اعتماد سے اپنا مذہبی فریضہ ادا کرتے ہوئے ایک پیچیدہ اور نہایت دلچسپ ریاضیاتی بحث کے دوران ہمیں بیچ میں ٹوک کر اذان سننے کی ترغیب دی۔ یقین جانئے ہمیں اس روک ٹوک سے کوئی شکایت نہیں کیوں کہ ہماری نگاہ میں مسئلہ خالصتاً مذہبی نہیں بلکہ دوئی میں پھنسی مذہبی نفسیات کی ترجیحات کا ہے جس کی مذہبی اور غیر مذہبی دونوں جہتیں سراسر افادیت پرستی کے فلسفے پر قائم ہیں جو خود تردیدی کے مجسم پیکروں پر مشتمل نسلوں کی مسلسل ترسیل جاری رکھے ہیں۔ یہ تیسری دنیا کی پسماندہ مذہبی معاشرت کا ایک ایسا جدید انسان ہے جو اپنی قدیم فطرت میں موجود عقلی و جبلی وحدت اس طرح بانٹ چکا ہے کہ اب اس وحدت کو محض ایک خوبصورت آدرش مان کر اس کی طرف قدم اٹھانے کی فکری قوت بھی نہیں رکھتا۔

ان حالات میں فلسفے کے کچھ ایسے مذہب پسند نقاد جو عملی سائنس کی مابعدالطبیعاتی نظری بنیادوں کے وجود کے ہی انکاری ہیں، قرونِ وسطیٰ کے محبوب مناظرانہ متون سے ’تہافت الفلاسفہ‘ کشید کر کے پوری دیانت داری سے ایک ایسی نادیدہ بیماری کی دوا بنانے میں مصروف ہیں جو زمانہ جدید میں اپنا وجود ہی نہیں رکھتی۔ جب تشخیص ہی درست نہ ہو تو دوا اکسیر نہیں بلکہ زہر کا کام کرتی ہے۔ ہمارے ہاں مختلف سائنسی علوم کے طلبا کچھ اس سطحی طرز سے حصول علم کی منزلیں طے کرتے ہیں کہ دیکارت، اقلیدس، فیثا غورث، کیپلر اور نیوٹن وغیرہ کے فکری منہج کا سایہ بھی اپنے تک نہیں پہنچنے دیتے۔

نتیجتاً پیچیدہ مسائل کے خدوخال مرتب کرنے کی تکنیکی اہلیت تو دور کی بات وہ اس نفسیاتی تجربے سے ہی بہت فاصلے پر رہتے ہیں ہیں جو انہیں نفس علم کے ساتھ ایک جذباتی لگاؤ ¿ میں جوڑ دے۔ اس پر فلسفیانہ مباحث سے کامل لا تعلقی اور سائنس کی مابعد الطبیعاتی بنیادوں سے کامل ناواقفیت انہیں یہ باور کراتی ہے کہ سائنس، مذہب اور فلسفے کو کسی ایسی کلی وحدت میں نہیں باندھا جا سکتا جس میں ان تینوں چشموں سے ایک ساتھ فیض یاب ہوتا انسان اپنے وجدان اور عقل کو ایک ایسے لطیف اور ماورائے سخن بندھن میں پرو سکے جس میں اس کی پوری ذات ایک کامل تسکین کے تجربے کے قابل ہو۔

ظاہر ہے کہ عوامی سطح پر فلسفے اور سائنس کے کسی ایسے عام فہم تدریسی بیانیے کی روایت نہ ہونا، جو سائنس کے نفس علم میں فلسفے سے مستعار لئے گئے مابعدالطبیعاتی اور نیم مابعد الطبیعاتی مفروضوں کی موجودگی کو اجاگر کرے، مذہب پسندوں کے اس خاص طبقے کی وحشت ناک تنقیدوں کو کسی کم از کم درجے میں بھی معقولیت نہ بخشنے کی اولین علت ہے۔ ہماری رائے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے آپ کو ہماری رائے سے متفق پانے والے سائنس کے اساتذہ اور شوقین والدین فلسفے کے بنیادی مباحث سے واقفیت پیدا کریں اور اسکولوں اور کالجوں کی سطح پر سائنس کی تدریس میں ان طبیعاتی و مابعدالطبیعاتی فلسفیانہ مباحث پر گفتگو کا آغاز کیا جائے جو سولہویں صدی سے سائنسی استدلال کی بنیادوں میں موجود ہیں۔

کون جانے کب خدا کو ہمارے حال پر رحم آ جائے اور نیوٹن، گیلیلیو، ڈارون اور دیکارت وغیرہ کو تو خیر دور کی بات ہے، ہماری تہذیب میں کم ازکم ابن رشد، ابن طفیل، الخوارزمی، ابن الہیثم اور ابن باجہ ہی کو وہی پذیرائی مل جائے جو اس وقت غزالی، ابو حنیفہ اور بخاری و مسلم وغیرہ کو ملتی ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جو ایک نوجوان مسلم ذہن کو سطحی ٹیکنالوجی کی بھیڑچال اور محض ایک افادیت پسند سائنسی تعلیم کے فنی شوق سے اوپر اٹھ کر ندرتِ فکر، تحقیق و جستجو اور ایجاد علم کی طرف راغب کر سکتا ہے۔

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments