قانون پر فوری عمل درآمد کی چند مثالیں


قانون کی موٹی موٹی کتابیں جرائم کی سزاؤں کی شقوں سے بھری پڑی ہیں۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے بارے میں قانون موجود نہ ہو لیکن اس پر عمل در آمد کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ برسوں پہلے انڈیا کی ایک آرٹ فلم ”کملا“ دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ فلم کا موضوع عورتوں کی خرید و فروخت کا دھندہ تھا۔ فلم کا مرکزی کردار صحافی اس دھندے کو منظر عام پر لانے کے لئے ایک عورت کو دور کے دیہات سے خرید لاتا ہے اور اپنے اخبار میں اس اسٹوری کو شائع کرتا ہے، پولیس اور انصاف کے ادارے اس مکروہ دھندے کی روک تھام کرنے کی بجائے اس صحافی کو ہی ایک عورت خریدنے کے جرم میں دھر لیتے ہیں اور وہ صحافی اپنی ضمانتوں کے چکر میں پھنس جاتا ہے۔

یہ صورتحال ہر ترقی پذیر اور پس ماندہ ملک میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہمارے یہاں بھی کرایہ داری قانون ایک عرصے سے موجود ہوگا لیکن اس قانون کو جو تشہیر ایک استاد اور صحافی کی گرفتاری سے ملی وہ شاید ہی کسی اور قانون کے حصے میں آئی ہو۔ عرفان صدیقی صاحب کی گرفتاری اور رہائی سے ایک اور شرمندگی حکومت نے سمیٹی ہے۔ اب اس کی تلافی کی کتنی جتنی بھی کوشش کی جائے اس ندامت کا تدارک ممکن نہیں۔ اولاً تو اس قانون کی مکمل تشہیر گاہے بگاہے میڈیا پر کی جانی چاہیے تھی تاکہ عام شہری کو اس کا علم ہوتا اور وہ قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے اہتمام کرتا۔

بالکل اسی طرح جس طرح فقط گزشتہ دس سال اقتدار میں رہنے والی سیاسی جماعتوں کی ”لوٹ مار“ کے قصے عوام کو صبح شام سنائے جاتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ کرایہ داری کے پچانوے فیصدی لین دین پراپرٹی ڈیلروں کے ذریعے عمل میں آتے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان پراپرٹی ڈیلروں کو پابند کیا جاتا کہ وہ ہر کرایہ نامہ کی کاپی متعلقہ تھانے میں جمع کروائیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح کیبل آپریٹروں کو کسی چینل کو بند کرنے یا اس کا نمبر تبدیل کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے۔

حیرت کی بات ہے کہ جہاں دنیا کو مطلوب ایک شخص سالوں سے روپوشی کی زندگی گزار رہا ہو اور جسے ہلاک کرنے کے لیے ہزاروں میل دور سے غیر ملکی فوج رات کے اندھیرے میں حملہ آور ہو مگر علاقے کے تھانے دار صاحب اس تمام واقعے سے بے خبر ہوں وہاں متعلقہ تھانے کے علم میں فوری طور پر یہ بات کیسے آگئی کہ ایک محلے میں مکان کرائے پر دیا گیا ہے اور اس کا اندراج تھانے میں نہیں ہوا؟ دوسرے یہ کہ اگر اتنا بڑا ”جرم “ سرزد ہو ہی گیا تھا تو ملزم کو ایک نوٹس دے کر تھانے بلا کر ہدایت کردی جاتی تو اس میں کیا امر مانع تھا؟ لیکن اداروں کی چابکدستی ملاحظہ فرمائیں کہ کس سرعت کے ساتھ اس سنگین ترین جرم کے مرتکبوں کو گرفتار کر لیا۔

ان مجرموں کو گرفتار کیا سو کیا مگر ملک کے ہر اس شریف شہری کی راتوں کی نیند اُڑا دی جس نے اپنی جمع پونجی سے تعمیرکیے مکان یا اس کے ایک حصے کو کرائے پر دے کر اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھا ہوا ہے۔ چابکدستی اور فرض شناسی کا ایک اور مظاہرہ چند روز قبل دیکھنے میں آیا کہ ایف سیون سیکٹر اسلام آبادکے مرکز میں ایک آٹھ منزلہ شاپنگ مال تقریباًچار سال میں تعمیر ہوا۔ جسے آباد ہوئے بھی کئی سال ہوگئے ہیں جہاں اور اب اسے یہ کہہ کر سیل (Seal) کیا جارہا ہے کہ اس کی تعمیر جس پلاٹ پرہوئی وہ کمرشل پلازہ کے لیے مختص نہیں تھا۔

قانون پر فوری عمل درآمد کی ایک اور مثال نیشنل ہائی وے سیفٹی آرڈینینس 2000 ء ایکسل لوڈ کا قانون ہے۔ جسے اٹھارہ سال بعد یکم جون 2019 ء سے وزارتِ مواصلات نے نافذ کردیا ہے۔ اس قانون سے ایکسل لوڈ کی حد پچاس فیصد کردی گئی ہے۔ یعنی جو ٹرک پہلے سات سو بوری سیمنٹ لوڈ کرتا تھا اب تین سو چالیس بوری سیمنٹ لوڈ کرے گا اور اسے کرایہ وہ ہی ملے گا جو سات سو بوری سیمنٹ کا ملتا تھا۔ حالیہ شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس کے اطلاق سے معیشت پر نہ صرف اضافی بوجھ پڑے گا بلکہ تجارتی سامان کی نقل و حرکت کے لیے تقریبا دو لاکھ ٹرک مزید درکار ہوں گے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں اس وقت تقریبا تین لاکھ تیس ہزار ٹرک اور آئل ٹینکر ہیں۔ ان ٹرکوں کی مقامی پیداوار نو ہزار سے دس ہزار سالانہ ہے۔ یعنی موجودہ تجارتی سامان کی نقل و حرکت کے لیے ٹرکوں کی مطلوبہ تعداد مہیا کرنے کے لیے بیس سال درکار ہوں گے، اس دوران ٹرکوں کی قلت سے ضروریات زندگی کی اشیاء کی جو قلت ہوگی اور آنے والے برسوں میں آبادی اور تجارتی حجم میں جو اضافہ ہوگا اس کے بارے میں شاید ہی کسی ادارے نے سوچنے کی زحمت گوارا کی ہو۔

اگر یہ ٹرک درآمد کیے جائیں تو ان کی درآمد میں دو سے تین سال کا عرصہ لگے جس کے لیے ساڑھے بارہ ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔ یہاں حال یہ ہے کہ چھ ارب ڈالر کے قرض کے لئے ملک کی معیشت اور اسٹیٹ بنک کو عالمی مالیاتی اداروں کے حوالے کردیا گیا ہے۔ اس قانون کے اطلاق کا ایک تشویشناک پہلو ملک میں ایندھین کی قلت کا بھی ہے۔ رپورٹ کے مطابق تقریبا بیس ہزار آئل ٹینکر آئل کی ترسیل کے لیے استعمال ہوتے ہیں جن میں سے دس ہزار ٹینکر ایکسل لوڈ کی شرط کو پورا کرتے ہیں جس کے سبب ملک میں بیس سے پچیس فیصد ایندھن کی قلت ہوجائے گی جس سے معیشت مزید سست روی کا شکار ہوگی۔ یکم جون کے بعد سے صورتحا ل یہ ہے کہ پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں گھی ملیں بند ہورہی ہیں جس کے سبب بیس ہزار لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ کاریں بنانے والی فیکٹریوں نے بھی اپنی پیداواری صلاحیت نصف سے بھی کم کردی ہے۔

مولانا مودودی صاحب مرحوم کے بقول غلطی بانجھ نہیں ہوتی وہ مزید غلطیوں کو جنم دیتی ہے، تحریک انصاف کی معاشی اور سیاسی پالیسیوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے جن سے عوام کو ایک مشکل کے بعد ایک اور مشکل کا سامنا ہے جیسے منیر نیازی صاحب نے کہا تھا کہ :
اِک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).