سینیٹ کی دھکا سٹارٹ گاڑی


سینیٹ چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ساتھ جو اندوہ ناک سانحہ رونما ہوا اس سے ملکی تاریخ کا یہ سیاہ ترین ریکارڈ بھی خان صاحب کی حکومت کے حصے میں آیا۔ خان صاحب کی حکومت جو مہنگائی، افراط زر، روپے کی قیمت میں کمی، پیٹرول کی قیمتوں کو آسمان کی بلندیوں پہ پہچانے، ٹیکس ریونیو میں کمی، برآمدات و درآمدات میں کمی اور محض ایک سال میں زیادہ قرضے لینے کے ریکارڈ پہلے ہی اپنے نام کر چکی ہے، آج بدنمائی کا یہ دھبہ بھی اپنے سینے پہ سجا چکی۔

عمران خان صاحب جو ہمیشہ سے ملکی سیاست میں ہارس ٹریڈنگ کے سخت خلاف رہے، وہ ہمیشہ مقتدر اداروں کی سیاسی معاملات میں مداخلت پہ کھلا اور واضح مؤقف رکھتے رہے، وہ آزاد حیثیت سے انتخاب لڑنے اور جیتنے والوں کو ضمیر فروشی کے اعزازات سے نوازتے رہے ہیں، وہ اقتدار میں آکر اس طرح اپنے ماضی کے مؤقف کے برخلاف یوٹرن لیں گے یہ کبھی سپنے میں بھی نہ سوچا تھا۔ خان صاحب جو ان تمام معاشرتی سیاسی قباحتوں کے حامی بن کر خود سر تا پا اس میں ڈوب چکے ہیں وہ ان کی سیاست اور سیاسی بیانئے کو بدنامی اور رسوائی کی گہری دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔

2018 میں ہونے والے سینیٹ انتخابات میں پیپلز پارٹی نے خیبرپختونخواہ میں اپنی عددی اکثریت سے زیادہ نشستیں حاصل کیں تو خان صاحب نے ہارس ٹریڈنگ اور الزامات کا طوفان بپا کردیا جبکہ ان کا اپنا امیدوار چودھری سرور پنجاب اسمبلی میں سولا سے زیادہ ووٹ خرید کر سینیٹر بنے تو وہ درست قدم تھا یعنی حرام خود کھاؤ وہ حلال باقیوں کے لئے حرام۔ خان صاحب نے سینیٹ انتخابات میں سیکریٹ ووٹ کو پارٹی بنیادوں پر انتخابات کی دھجیاں اڑانے اور پارلیمنٹ کی توہین قرار دیا تھا، لیکن کل جو کچھ چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران تحریک انصاف اور ان کے حامیوں نے جمہوریت اور ایوان بالا کے تقدس اور احترام کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے اس سے نہ صرف جمہوریت شرمندہ ہوگئی بلکہ سینیٹ جیسے ادارے کا تقدس بھی پامال ہوچکا ہے۔

سینیٹ جو پاکستان کی فیڈریشن کا نشان ہے کل کی بدترین خرید وفروخت نے اس کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ سینیٹ میں اپوزیشن کے 66 اور حکومت کے 36 ووٹ تھے صورتحال بالکل واضح تھی آئین کے مطابق ارکان نے چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جس کے جواب میں حکومت نے ڈپٹی چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی مگر اپوزیشن پُر اعتماد تھی کہ ان کی تحریک کامیابی سے ہم کنار ہوگی، مگر کسے پتہ تھا کہ سیاست میں شرافت ایمانداری اور اصول پسندی کا راگ الاپنے والا، ملک کو مدینہ کی طرز کی ریاست بنانے کے دعوے کرنے والا وزیراعظم ہارس ٹریڈنگ کا بدترین ریکارڈ قائم کردے گا۔

چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد سرکاری ترجمانوں کی فوج ظفر موج بڑے اعتماد سے یہ دعوے کرتی نظر آتی تھی کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجائے گی، خود وزیراعظم صاحب فرماتے رہے کہ سینیٹ کے باضمیر ارکان ضمیر کے مطابق تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنادیں گے جبکہ خان صاحب نے ضمیر فروشوں کا ضمیر خریدنے کے لئے اپنے ماہر ”ترین“ کھلاڑی کو میدان میں اتارا ہوا تھا جس نے تحریک عدم اعتماد سے چند روز قبل ہی کہہ دیا تھا کہ تحریک عدم اعتماد ہر قیمت پہ ناکام ہوگی۔

اس وقت حکومتی اکابرین کی باتیں دیوانے کی بڑکیں لگ رہی تھیں، اپوزیشن بھی پر اعتماد تھی کہ ان کے پاس تحریک کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لئے مطلوبہ تعداد سے بھی زیادہ نمبرز ہیں۔ اسی دوران اپوزیشن کی میٹنگز، ظہرانوں، عصرانوں میں اپوزیشن کے تمام کے تمام سینیٹرز کی متحد موجودگی اس بات کی غماز تھی کہ حکمران اتحاد کے پاس چیئرمین سینیٹ کو بچانے کا کوئی راستہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔

کل جب تحریک عدم اعتماد قائد حزبِ اختلاف نے ایوان میں پیش کی تو 64 اراکین نے کھڑے ہوکر اس تحریک کی حمایت کی اور اپنے باضمیر ہونے کا ثبوت دیا مگر صرف آدھے گھنٹے کے بعد ضمیر نے نجانے کیا الم غلم کھا لیا کہ اسے کھاتے ہی چودہ ارکان کا ضمیر ہی سو گیا، اور تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی، ضمیروں کو خریدنے والے ’قابل ترین‘ کی بات درست ثابت ہوگئی۔

سرکاری بھونپو جو تحریک کی ناکامی کے حق میں پہلے سے ہی بج رہے تھے وہ بھی ایک بار پھر ضمیروں کے اچانک جاگنے کی وجہ سے تیزی سے بجنے لگے، مگر اس ساری رسوا کن صورتحال میں اگر کوئی چیز بری طرح ٹوٹ کے ریزہ ریزہ ہوگئی تو وہ تھی ایوان بالا کی ساکھ، اس کی بالادستی، اس کی سالمیت، اس کی عزت و تکریم، اس کی غیرت و آبرو جسے کسی اور نے نہیں اس کے اپنے مکینوں نے پیروں تلے روند دیا، اس کے اپنے چیئرمین نے صرف اپنی جھوٹی شان اور کرسی بچانے کے لئے دنیا بھر میں پامال کردیا، رسوائی اور بدنامی کا نہ مٹنے والا داغ لگا دیا اور پارلیمانی تاریخ کی بدترین مثال قائم کردی۔

اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کی جنگ ہار کر بھی اخلاقی طور پر جیت گئی، اور خان صاحب اور ان کی حکومت جیت کر بھی ہار گئی۔ اس تحریک عدم اعتماد کے بعد ڈپٹی چیئرمین کے خلاف جب تحریک پیش ہوئی تو اپوزیشن ایوان سے غیر حاضر ہوگئی تو ڈپٹی چیئرمین کے خلاف تحریک کے حق صرف 32 ووٹ پڑے جو حکومتی اتحاد کے کل ووٹ تھے اس کا مطلب یہی ہے کہ چیئرمین کے خلاف تحریک کی ناکامی کے پیچھے قابل ترین شخص کی قابلیت، ڈنڈے کی دھمک، دھونس دھمکی سب کچھ استعمال کیا گیا، اپنے حاصل اختیارات کا بے دریغ اور کھلا استعمال کیا گیا اور ضمیر خریدے گئے۔

چیئرمین سینیٹ کو مبارک ہو کہ وہ اتنی رسوائی اور بے عزتی سہنے کے بعد بھی چیئرمین کی کرسی پہ براجمان ہوکر ان اراکین کے سامنے سر اٹھا کر ایوان چلائیں گے جنہیں اب ان پر اعتماد ہی نہیں رہا، وہ واقعی بڑے دل گردہ رکھنے والے شخص ہیں کہ اس ہزیمت اور ذلت میں بھی انہیں اپنی کامیابی نظر آتی ہے، لیکن بہرحال ہماری ملکی پارلیمانی سیاست کی یہ بدنما تاریخ ہے کہ دھونس دھاندلی بے ایمانی سے کامیابی حاصل کرکے بھی اصولوں اور نظریات پہ کاربند رہنے اور اصول پسندی اور نظریات کی سیاست کا ہم راگ الاپتے ہیں۔

چیئرمین سینیٹ کے دفتر میں کام کرنے والے ایک دوست نے مجھے رات ہی بتا دیا تھا کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جائے گی مگر خدا کی قسم مجھے ذرا برابر بھی یقین نہیں تھا اس کی بات کا مگر وہ بڑے اعتماد اور یقین کے ساتھ مجھ سے شرط لگانے پہ بھی تیار تھا، لیکن مجھے بھی تحریک کی کامیابی کا اتنا ہی یقین تھا جیسے رات کے بعد صبح ہونے کا یقین ہوتا ہے۔ آج پاکستان کے اداروں، پارلیمنٹ کی جس طرح جگ ہنسائی ہوئی ہے اس کی مثال شاید ہی کسی جمہوری نظام حکومت کی تاریخ میں کبھی مل سکے۔

ملک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کی بالادستی اور استحکام کے دعوے کرنے، فوج، سیکیورٹی ایجنسیز اور عدلیہ کو اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے ذمے داریاں ادا کرنے کا بھاشن دینے والا وزیراعظم بڑی بری طرح ایکسپوز ہوکر سامنے آیا ہے کہ وہ جو کچھ ماضی میں کہتا آیا ہے وہ سب ڈھونگ ہے، وہ جو جو کرتا آیا وہ سب عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے تھا، اس وزیراعظم کو نہ تو جمہوریت سے کوئی سروکار ہے نہ اداروں اور ان کی بالادستی، غیرجانبداری، مضبوطی سے، یہ وزیراعظم صرف اپنی انا کا قیدی ہے اور اپنی انا اپنی آن اور شان کے لئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے اور یہ اس وزیراعظم نے اپنے ایک سالہ دور اقتدار میں ثابت کردیا۔

چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی نے اپوزیشن جماعتوں کو بھی سوچنے سمجھے کا موقع فراہم کیا ہے، وہ جماعتیں جو اقربا پروری، مصلحت پسندی، دولت اور حیثیت کی بنیاد پہ انتخابات میں پارٹی ٹکٹ جاری کرتی ہیں انہیں اپنی نظریاتی اثاث کو اہمیت دینی ہوگی اپنے پڑھے لکھے، نظریاتی اور مخلص سیاسی کارکنوں کو ایسے اداروں میں بھیجنا ہوگا جو نہ صرف اداروں کی مضبوطی و استحکام کے لئے کام کرسکیں بلکہ اپنی کارکردگی سے اپنی جماعتوں کا سر بھی فخر سے بلند کر سکیں۔ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی پر آپا نور الہدیٰ شاہ نے کیا خوب پھبتی کسی ہے کہ

پہلے کی طرح اب بھی
یہ ملک یونہی رہے گا
پنکچرڈ گاڑی
دھکا اسٹارٹ

جو بِک جائے گا وہ بے ضمیر کہلائے گا
جو افراد خریدے گا وہ باضمیر کہلاتا ہی رہے گا
عوام پنکچرڈ گاڑی کو دھکا دیتے رہیں گے
ہانپتے رہیں گے
یہ جو پیسہ ان کے خون پسینے سے بنے گا
وہ اِسی خرید وفروخت پر خرچ ہوتا رہے گا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).