میں نے تصویر کشی سے توبہ کی!


\"waqar

پہلی تصویر: عمر یہی کوئی سات یاآٹھ سال ہو گی جب میں نے اپنی زندگی کی پہلی تصویر کھینچی
گرمی ایسی کہ کتے کی زبان باغی ہو چکی تھی
جبڑا گھر میں جانے سے انکاری تھی۔
بینڈا کی ٹیں ایسی مسلسل کہ کمبخت ایک لمحے کے لیے سانس لینے سے انکاری تھا،
دادا ، ہاتھ والے پنکھے کو پانی سے بھگو رہا تھا۔
پرندے یوں تو گھونسلوں میں دبکے بیٹھے تھے، لیکن پیاس سے نڈھال ایک بلبل نے گھڑوں تک آنے کا حوصلہ کیا تھا،
چونچ تر بھی نہ ہوئی تھی کہ مر گئی۔
گیلے گھڑوں نے گھڑونجی کے نیچے ریت گیلی کر دی تھی جس سے چار مربع فٹ خنک ہو گئی تھی۔ شہد کی مکھیاں روایتی نظم وضبط کو توڑتے ہوئے گھڑوں کے پاس سستی سے پانی اٹھا رہی تھیں تا کہ ان کو اس خنک جگہ میں زیادہ وقت گزارنے کا موقع مل سکے۔ چھتے کی ملکہ شہد کی پیداوار کی سست رفتار سے رنجیدہ ہو کر ایک نالی نما گھر میں الٹی گھس گئی تھی جیسے وہ صدیوں سے پائے جانے والے نظم و ضبط اور شہد کی پیداوار کی یکساں رفتار کے اچانک ٹوٹنے سے کائنات میں جو قیامت آنے والی ہے اس کو نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔
اور ٹھیک اس وقت تین جی ایسے تھے جو خوش تھے۔ \"waqar-malik-2\"
ایک گدھا ، کہ جیسے جیسے گرمی بڑھتی اس کے چہرے کی رونق میں عجب بڑھاوا ہوتا۔ لاکھ چھاؤں میں باندھ کے آتے تھوڑی دیر بعد دھوپ پہ کھڑا ہوتا۔
دوسرا میں اورتیسرا وقاص، جو اس ہو کے عالم میں، فطرت بیزار گھر والوں کی نظریں بچا کر ڈھوک سے نکل آتے۔
میں وقاص کی ڈھوک کی جانب جا رہا تھا جب ایک اونچی جگہ سے دور تک سر نیہوڑے درخت ایسے لگے جیسے گرمی میں سر جھکائے کھڑے ہوں۔ ایک دو درخت ایسے لگے جیسے سر جھکائے جھکائے انہوں نے پلکوں کو اٹھایا اور مجھے حیرت سے دیکھا، ایک کابلی کیکر مجھے امی کی طرح دکھائی دیا جیسے آنکھیں نکال رہا ہوں اور واپس جانے کے لیے کہہ رہا ہو۔ معلوم نہیں یہ سب کچھ مجھے کیوں اتنا خوبصورت لگا ۔ ایک تو عمر کے اس دور میں یوں لگتا ہے جیسے صدیوں کی عمر پڑی ہے اور یہ تو پارٹی کی شروعات ہیں۔ مجھے لگا کہ یہ منظر اس ”صدیوں کی عمر“ میں بھول جائے گا۔ احساس ہوا کہ توجہ کی جائے اور اس منظر کو یاد کرنے کی کوشش کی جائے ۔ میں نے توجہ کی اور فقط دو یا تین سیکنڈ میں تصویر کھینچی اور محفوظ کر لی۔

دوسری تصویر: ایک ایسا منظر کہ ہزار جنتیں قربان۔۔ عمر یہی کوئی دس سے گیارہ سال۔
اس سال سوکھا پڑا تھا۔ بارش نہ ہونے کی وجہ سے زمین میں ڈالا گیا بیج ، پودا بن کر اوپر آنے سے باغی ہو گیا تھا۔ پوہلی اس باغیانہ روش کی وجہ سے خوش تھی کہ اس کو اگنے کے لیے زیادہ جگہ دستیاب تھی۔ تاحد نظر پیلے پھولوں والی پوہلی نظر آ رہی تھی۔
اس صورتحال میں جانوروں کے لیے مشکل وقت تھا۔ اتنے بڑے پیٹ لیے جانور کھانے کے لیے پوہلی میں منہ مارتےہوئے زخمی ہوتے تھے اور کہیں کہیں ان کو ”لیہلی“ کی شکل نظر آتی تھی۔ پیٹ کو بھرنے کے لیے توجہ ادھر ادھر نہیں کرتے تھے۔ آس پاس کے اس ہزار جنتوں موافق منظر سے ناواقف تھے۔
تاحد نظر پیلے پھولوں والی پوہلی ، توجہ کیے جانور ۔۔اور ان کے علاوہ ۔۔ایک دوشیزہ بھی اس منظر کا حصہ تھی۔
وہ ایسی دوشیزہ تھی کہ منظر اس پر فدا ہو رہا تھا،
لگتا تھا دور تک پھیلے کھیتوں میں اچانک پوہلی کے یہ ہزاروں پودے جو پیلے پھول لیے ہوئے تھے ، اس دوشیزہ کو دیکھنے کے لیے اچانک زمین سے نکلے تھے ۔ وہ دوشیزہ، میری ماں، ایک اونچے کھیت کے بنے پر بیٹھی تھی ۔ جیسے حسن کی ایک خاصیت لاپرواہی اور بے نیازی ہے وہ اس کی مکمل تصویر بنی ہوئی تھیں۔ وہ \"waqar-malik-1\"سویٹر بن رہی تھی ۔ (ماں کی محبت کی وجہ سے مبالغہ نہیں کر رہا وہ واقعی ایک خوبصورت لڑکی تھی ، ہماری نظر میں تو آج بھی ہے)۔
کبھی کبھار جانوروں کو دیکھ لیتی کہ کہیں دور کسی اور کے کھیت میں تو نہیں گھس رہے۔ میرے اور امی کے درمیان کو ئی آدھے کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔ مجھے یقین ہے اپنی خوش بختی پہ کہ وہ کن اکھیوں سے مجھے بھی ضرور دیکھتی ہو گی۔
میرے پاس دادا کی ایک خالی نسوار کی سبز ڈبیا تھی جس میں، میں پھدکتے تیلو پکڑ کر اکھٹے کر رہا تھا کہ چچا زاد آصف کے پالتو تیتر کے لیے بطور خوارک لے کر جا سکوں۔ مجھے کل کی طرح یہ منظر یاد ہے کہ کیسے لمحوں میں افق پر بادل نمودار ہوئے تھے اور پھر ٹھنڈی تیز ہوا آئی تھی۔ دور دور تک تمام خواتین اور بچے چیخ رہے تھے۔ جانوروں کو اکٹھا کرنے کے لیے ہر طرف آوازیں تھیں۔ بچے خوشی سے ناچ رہے تھے پوہلی کے پودے سرمست ہو گئے تھے ۔ کائنات تلہ گنگ کے اس چھوٹے سےٹکڑے کو دیکھنے کے لیے ساری توجہ مرتکز کر بیٹھی تھی۔ دوشیزہ بھاگ بھاگ کر جانوروں کو اکھٹا کر رہی تھی، تیز ہوا کو واسطہ بناتی امی کی آواز مجھ تک ٹکڑوں میں پہنچ رہی تھی کہ بھاگو بھاگو ڈھوک کی جانب۔ میرے ایک ہاتھ میں نسوار کی ڈبیا تھی میں منظر میں یوں منہمک تھا کہ تیلو فائدہ اٹھا کر ڈبیا سے نکل چکے تھے ۔ مجھے اچانک خیال آیا اور اس منظر کی تصویر کھینچ لی۔

تیسری تصویر: میری عمر بارہ یا تیرہ سال ہو گی ۔ابو کی پوسٹنگ بہاولپور تھی۔ دوسرے فوجیوں کی مانند گرمیوں کی چھٹیوں پر وہ ہمیں ساتھ لے جاتے ۔ چھٹیوں کا اختتام تھا۔ ہم بس پر سوار تھے اور براستہ میانوالی تلہ گنگ آ رہے تھے۔ میانوالی سے کافی پہلے ملتان کی جانب ہی بس ایک ٹرک ہوٹل پر رکی۔ وہ ٹرک ہوٹل ایک ویرانے میں تھا۔ آس پاس جھاڑیاں اور ریت کے ٹیلے سے تھے اور تاحد نظر تھے۔
\"waqar-malik-3\"رات تین بجے کا وقت ہو گا کیونکہ اس کے دو تین گھنٹوں بعد ہی صبح ہو گئی تھی۔
میں ”شوشو“ کرنے کے لیے سڑک سے دوسری طرف گیا اور تھوڑا آگے تک چلا گیا۔ جب میں شوشو کر رہا تھا تو آس پاس جھاڑیوں کے سامنے ہی ایک ٹنڈ منڈ سا کسی درخت کا ادھورا تنا تھا۔ درخت کی اس ادھوری لاش کے دو بازوؤں کے درمیان چودھویں کا چاند تھا۔ ریت لشکتی تھی۔ ریت پر جھاڑیاں یوں لگتیں جیسے تھک کر ریت پر چند ثانیوں کے لیے اکڑوں بیٹھی ہیں اور جیسے ہی یہاں سے بس روانہ ہو گی اٹھ کر بیٹھ جائیں گی۔ درخت کی ادھوری لاش بغل میں چاند لیے ایستادہ تھی۔ میں ازار بند کھولے درخت کی جانب رخ کیے کھڑا تھا۔ زمیں پر گرتے شوشو کی آواز ختم ہوئے مدت گزر چکی تھی۔ میں نے ازار بند باندھنے سے پہلے ہی اسی حالت میں ایک تصویر کھینچ ڈالی ۔

ساکت تصویر ایک تصویر ہوتی ہے ، متحرک ویڈیو کی مانند ایک سیکنڈمیں پچیس یا تیس تصویریں نہیں گزر رہی ہوتیں۔ اس رفتار سے تصویریں گزرنے سے حرکت کا فریب نظر لاکھ دلکش سہی لیکن ساکت تصویر پر زیادہ وقت ارتکاز کرنے کی وجہ سے یہ مستقل یاداشت کا حصہ بن جاتی ہے۔
یوں زندگی میں تصویریں کھینچتا رہا۔ ایسا بھی ہوا کہ کوئی سال بغیر تصویر کھینچے گزر گیا اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ ایک سال میں چار یا پانچ تصویریں بن گئیں۔
بچپن لڑکپن کی وہ تصویریں آج بھی میرے پاس ہیں۔
محسوس ہوا کہ تصویریں کھینچنے میں کوئی بڑا تعطل تو کبھی نہیں آیا لیکن یہ بعد کی کھینچی گئیں تصویریں یاد نہیں رہتیں۔ تصویریں کھینچ رہا ہوں لیکن کہیں رکھ کر بھول جاتا ہوں ۔
کیا میں مر رہا ہوں؟ کیا اب مجھے تصویر کشی سے توبہ کر لینی چاہیے؟

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments