کامیاب دورہ


لیجیے صاحب، مشرقِ وسطیٰ کو تسخیر کرنے کے بعد ہمارے وزیرِ اعظم امریکہ بھی فتح کر آئے ہیں۔ اس جملے کی بنیاد نسبتاً غیر جانبدار مبصّرین کی رائے ہے نہ کہ شاہ محمود قریشی صاحب کا سینہ پھلائے پھرنا۔ کچھ برس پہلے جب ہیلری کلنٹن بطور وزیر خارجہ پاکستان آئیں تھیں تو ہمارے قریشی صاحب اسی طرح چہچہاتے دکھائی دیے تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پچھلی بار پاک امریکہ تعلقات میں برف پگھلانے کے لئے حرارت فراہم کرنے کا سہرا وہ ’سب پر بھاری، کے سر باندھتے تھے، اس بار یہ سہرا انہوں خان صاحب کے سر سجایا ہے۔ ویسے تو قریشی صاحب بھلے آدمی دکھتے ہیں لیکن راقم ان کو سننے سے پرہیز کرتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ جہاں دیگر سیاسی عمائدین و تجزیہ نگاران کی اکثریت کو سن کر ذہنی کوفت ہوتی ہے وہاں قریشی صاحب کو سن کر جسمانی تکلیف بھی برداشت کرنا پڑتی ہے کہ چبا چبا کر الفاظ قریشی صاحب ادا کرتے ہیں اور جبڑا خاکسار کا دکھنے لگتا ہے۔

وزیرِ اعظم کے دورے کا آغاز واشنگٹن ڈی سی میں منعقدہ ایک جلسے سے ہوا۔ خان صاحب کے مداحین کے بقول تو واشنگٹن ڈی سی میں ایسا عظیم الشّان جلسہ نہ تو پہلے کبھی ہوا ہے اور نہ ہی خان صاحب کے آئندہ دورۂ امریکہ تک ہو گا۔ دل جلوں کی باتیں اپنی جگہ لیکن جن کو خان صاحب سے خدا واسطے کا بیر نہیں ہے وہ بھی اس جلسے کو انتہائی کامیاب قرار دیتے ہیں۔ اگرچہ کچھ لوگوں نے دبی زبان میں یہ شکوہ کیا کہ خان صاحب کی تقریر ملک کے وزیر اعظم کی تقریر نہیں بلکہ تحریکِ انصاف کے سربراہ کی تقریر تھی۔ اگر راقم کی رائے پوچھیں تو جن لوگوں نے جلسے کا اہتمام کیا تھا اور جو اس میں شرکت کے لئے پہنچے تھے، ان کی بڑی اکثریت ایک مدبّرانہ خطاب کی بجائے ’اوئے میں ٹبّر کھا جاواں تے ڈکار نہ ماراں، قسم کی تقریر سننے آئی تھی اور خان صاحب نے انہیں مایوس نہیں کیا۔ البتّہ کسی دل جلے کی اس پھبتی میں وزن ہے کہ بات اربوں کھربوں نکلوانے سے ٹی وی اور اے سی نکلوانے تک آ گئی ہے۔

دورے کا نقطۂ عروج بہرحال صدر ٹرمپ سے ملاقات تھی اور اس ملاقات کی کامیابی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ تادمِ تحریر صدر ٹرمپ نے اس کو سبوتاژ کرنے والی کوئی بچگانہ و احمقانہ ٹویٹ نہیں کی۔ انہوں نے افغانستان کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کی اہلیت رکھنے کا غیرضروری اور غیر مہذب دعویٰ ضرور کیا لیکن یہ امریکہ اور افغانستان کا آپس کا معاملہ ہے، ہم اس میں حمید گل کیوں بنیں۔ راقم کے نزدیک قابلِ اطمینان بات یہ بھی تھی کہ ہمارے وزیرِ اعظم نے اس ملاقات میں اور ’امریکی ادارہ برائے امن، میں اپنی گفتگو کے دوران جرمنی اور جاپان کی سرحدیں ملانے اور ان سرحدی علاقوں میں صنعتیں لگانے سے گریز کیا۔ ایرانی و عربی ذرائع ابلاغ تو شاید مروتاً ایسی باتیں نہیں اچھالتے لیکن مغربی صحافی ایسی فل ٹاس گیندوں کو چھوڑنے کے عادی نہیں۔

کچھ لوگ اس بات پر معترض ہوئے کہ خان صاحب نے میڈیا کی آزادی کے باب میں غلط بیانی کی۔ یہاں بھی راقم خان صاحب کے ساتھ ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ جو آزادی پاکستانی میڈیا کو میّسر ہے وہ امریکہ اور برطانیہ میں بھی نہیں۔ برطانیہ میں میڈیا اپنے وزیرِ اعظم کو مسخرہ تو بآسانی کہہ سکتا ہے لیکن کسی کو بلا خوف و خطر چور، ڈاکو، لٹیرا یا ملک دشمن قرار نہیں قرار دے سکتا کہ ایسا کرنے کی صورت میں لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل ملکِ عزیز کے حبّ الوطنی کے جذبے سے سرشار اور سیاستدانوں کی کرپشن کے خلاف جہاد میں مصروف ایک ٹی وی چینل نے اپنے ایک حریف چینل کے خلاف کچھ پروگرام کیے تھے جو برطانیہ میں بھی نشر ہوئے۔ چونکہ ان پروگراموں میں عائد کردہ الزامات کا کوئی ثبوت نہیں پیش کیا جا سکا لہذا ہمارے جہادِ کرپشن میں مصروف چینل کو نہ صرف بھاری جرمانہ عائد ہوا بلکہ رقیبِ رو سیاہ سے سر عام معافی بھی مانگنا پڑی۔ اب دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ اگر برطانیہ جیسے قوانین پاکستان میں بھی نافذ ہو جائیں تو ہمارے نڈر اور بیباک اینکرانِ کرام اور سینئر تجزیہ نگاران روزانہ رات سات سے گیارہ بجے تک ہماری ٹی وی سکرینوں پر جو رونق لگائے رکھتے ہیں اس کا کیا بنے گا؟

جہاں صدر ٹرمپ ہمارے وزیرِاعظم سے بظاہر متاثر ہوئے وہاں امریکی اراکینِ کانگریس بھی خان صاحب پر فریفتہ نظر آئے اور ان میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں جماعتوں کے اراکین شامل تھے۔ گویا ’تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے، والا معاملہ تھا۔ امریکی کانگریس میں جمع کرائی گئی جس قرارداد کا متن راقم نے دیکھا ہے اس کے ایک جملے کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ ’خان صاحب کی شکل میں پاکستان کو وہ دیدہ ور مل گیا ہے جس کی اسے برسوں سے تلاش تھی۔‘ مغرب کے کسی بھی پارلیمانی ادارے نے اس طرح باقاعدہ طور پر کسی پاکستانی سربراہِ حکومت کی بلائیں لیں ہیں تو راقم اس سے بے خبر ہے۔

چنانچہ سنکی قسم کے خواتین و حضرات اس دورے کے سرکاری اعلامیوں کو لے کر لاکھ پوچھتے رہیں کہ ’اس میں نیا کیا ہے؟‘ راقم کو تو اس دورے کی کامیابی کے بارے میں رتّی بھر شبہ نہیں۔ خان صاحب کی وطن واپسی پر ان کے استقبال نے بھی اس پر مہر ثبت کر دی۔ ویسے تو ہر وزیرِاعظم کی وطن واپسی پر سرکاری اور درباری لوگ قطار بنائے وزیرِاعظم کا استقبال کرتے ہیں لیکن چونکہ یہ کامیاب دورہ دیگر کامیاب دوروں سے ہٹ کر تھا لہٰذا اسلام آباد ائیرپورٹ پر جوانوں کی ایک ٹولی رقصاں تھی جس کا رقص قابلِ دید نہ سہی، جذبہ قابلِ رشک تھا۔ کابینہ کے اراکین بھی ہاتھوں میں ہار اور آنکھوں میں چمک لئے قطار میں لگے تھے۔ اس قطار میں سب سے آگے جہانگیر ترین تھے جو ویسے تو کئی لحاظ سے اپنے دیگر ساتھیوں سے ممتاز ہیں لیکن یہاں بھی وہ واحد راہنما تھے جنہیں آگے بڑھ کر تسلّی سے خان صاحب کو ہار پہنانے کا موقع دیا گیا۔ ان کے بعد اس قطار کا وہی حال ہوا جو ہر اس قطار کا ہوتا ہے جس میں دو سے زیادہ پاکستانی ہوں۔

ہمارے وزیرِ اعظم کی طرف سے امریکی حکمران اشرافیہ کے دل و دماغ کو مسخّر کرنے کے علاوہ اس دورے کی دوسری قابلِ ذکر بات صدر ٹرمپ کا یہ انکشاف تھا کہ بھارتی وزیرِاعظم نے انہیں کشمیر پر ثالثی کا کہا ہے۔ اس انکشاف پر بھارت کا جُزبُر ہونا تو قابلِ فہم ہے لیکن راقم کی رائے میں ہمارا بغلیں بجانا بھی بلا جواز ہے۔ اوّل تو ایسی کسی ثالثی کا دور دور تک کوئی امکان نہیں لیکن اگر ہو بھی تو خیال رہے کہ صدر ٹرمپ کے داماد آج کل مسٔلہ فلسطین کے حل کے لئے کوشاں ہیں جس میں وہ ہر فریق کی رائے لے رہے ہیں سوائے فلسطینیوں کے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان کے ذہن میں مسٔلہ فلسطین کا جو حل ہے اس میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی گنجائش نہیں۔ اپنی مدّتِ صدارت میں صدر ٹرمپ نے قومی اور بین الاقوامی مسائل سے نپٹنے میں جس ذہنی زرخیزی کا مظاہرہ کیا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے راقم کے خیال میں تو ہمیں صدر صاحب کی ثالثی کی پیشکش کے جواب میں دلی شکریہ ادا کرنے کے بعد پتلی گلی سے نکل جانا چاہیے۔

امید کی جانی چاہیے کہ اس کامیاب دورے کے دوران ہم نے جو عہد و پیمان کیے ہیں ہم انہیں پورا کرنے کا ارادہ اور صلاحیت رکھتے ہیں۔ صدر ٹرمپ مبیّنہ طور پر ستمبر تک اپنی پسند کے نتائج دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو سکا تو اس دورے کی تمام تر کامیابی محض ایک صدارتی ٹویٹ کی مار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).