کشمیر تنازع سے جڑی کچھ یادیں


بہت ابتدائی بچپن سے مسئلہ کشمیر کے متعلق سنتا چلا آ رہا ہوں۔ کس طرح قبائلی لشکر کےسرینگر پہنچنے میں تاخیر ہونے پر کشمیر ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ میں ساتویں میں پڑھتا تھا جب بھارت اور چائنا کے مابین سرحدی جھڑپیں ہوئی تھیں۔ بعد میں قدرت اللہ شہاب سے لے کر بہت سے دانش وران ملت کو یہ کہتے سنا کہ ایوب خان کی بزدلی نے کس طرح کشمیر پر قبضہ کرنے کا یہ سنہری موقع ضائع کر دیا۔ اس کے بعد کشمیر پر بھٹو سورن سنگھ مذاکرات کے کئی دور ہوئے۔ شیر کشمیر شیخ عبداللہ کو بھارت نے رہا کر دیا اور وہ ایوب خان سے ملاقات کے لیے اسلام آباد تشریف لائے۔ لیکن دہلی میں وزیر اعظم بھارت، پنڈت جواہر لال نہرو کے انتقال سے مذاکرات کا یہ دور ختم ہو گیا۔

ایوب خان نے 1965 میں کشمیر لینے کا ایک نیا منصوبہ بنایا جسے آپریشن جبرالٹر کا نام دیا گیا۔ ایک نئے ریڈیو سٹیشن صدائے کشمیر کی نشریات سنائی دینے لگیں۔ میں اس وقت آٹھویں جماعت میں تھا۔ بہت جوش و جذبے کے ساتھ رات کو یہ نشریات سنا کرتا تھا اور کشمیر کو آزاد ہوتا دیکھ کر سو جاتا تھا۔ یکم ستمبر کو پتہ چلا کہ پاکستانی افواج نے چھمب جوڑیاں محاذ پر پیش قدمی شروع کر دی ہے۔ اس کے ساتھ دل میں اک نیا ولولہ پیدا ہوا۔ دو تین روز بعد جب رات کو یہ خبر سنی کہ ہماری بے مثال فضائیہ نے کارروائی کرتے ہوئے بھارت کے تین جنگی جہازوں کو مار گرایا ہے تو خوشی کے مارے ساری رات نیند نہ آئی۔ اس کے بعد چھ ستمبر آ گیا اور ہم کشیمیر کو آزاد کرانے کے بجائے لاہور کو بچانے میں مصروف ہو گئے۔

اس کے چھ برس بعد ہمیں سقوط مشرقی پاکستان کا سانحہ دیکھنا پڑا اور ہمارے نوے ہزار لوگ بھارت کے قیدی بن گئے۔ پھر شملہ معاہدہ ہوا۔ اس کے بعد کچھ عرصہ تک ہمارا کشمیر آزاد کرانے کا جذبہ کچھ سرد پڑ گیا۔

سنہ 1973 کی بات ہے جب وزیر اعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو نے آزاد کشمیر کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے میں کئی مقامات پر خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کشمیر کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی تجویز پیش کی تھی۔

ان دنوں سردار عبد القیوم خان آزاد کشمیر کے صدر تھے۔ یہاں جماعت اسلامی والوں نے انھیں سر پر بٹھا رکھا تھا کہ انھوں نے آزاد کشمیر میں اسلامی نظام نافذ کر دیا ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں وائی ایس یو کے انتخابات میں اسلامی جمعیت طلبہ کے پینل پر شہباز شیخ صدر اور حافظ سلمان بٹ سیکریٹری منتخب ہوئے تھے۔ انھوں نے مجھے کہا کہ وہ یونین کی افتتاحی تقریب میں سردار عبد القیوم خان کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ سردار صاحب لاہور میں سرکٹ ہاوس میں مقیم ہیں۔ میں ایک دوست کو ساتھ لے کر سردار صاحب سے ملاقات کی غرض سے سرکٹ ہاوس پہنچا تو اس کے لاونج میں سردار صاحب تشریف فرما تھے اور لاہور کے تعلیمی اداروں کے کشمیری طلبہ ان سے ملاقات کرنے آئے ہوئے تھے۔ وہ سب طلبہ بھٹو صاحب کی تقریروں پر بہت برہم تھے اور اپنے غم و غصہ کا اظہار کر رہے تھے۔ سردار صاحب کے کسی ساتھی نے کہا کہ ہم نے پاکستان کی خاطر اپنے بزرگوں کی قبریں بھی منگلا جھیل کی نذر کر دی ہیں لیکن پاکستان ہماری قربانیوں کی قدر نہیں کر رہا۔

کسی طالب علم نے پوچھا کہ صوبہ بنانے کا یہ کام کس طرح کیا جائے گا؟ سردار صاحب نے جواب دیا وہ آزاد کشمیر کی اسمبلی میں ایک قرارداد لائیں گے کہ آزاد کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنا دیا جائے اوراس میں صوبہ بننے کے فوائد بھی بیان کیے جائیں گے۔ اسمبلی کثرت رائے سے اس قرارداد کو منظور کر لے گی۔

ایک طالب علم نے بہت غصے کے عالم میں کہا ہمیں اس کو روکنا چاہیے۔ کسی دوسرے نے کہا کس طرح روکا جا سکتا ہے۔ اس پر سردار صاحب نے کہا اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جس دن اسمبلی میں قرارداد پیش ہو آپ اسمبلی کا گھیراو کر لیں اور جو ممبر اس کے حق میں ووٹ دے اس کو مشین گن کر دیں۔

اس بات پر سب طالب علم بوکھلا سے گئے اور کہنے لگے نہیں، نہیں سر ہمارا یہ مقصد نہیں۔ ہم تو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ان پر سیاسی دباؤ ڈالا جائے۔ اس پر سردار صاحب نے انگریزی میں کہا:

My boy, you’re not sitting in England.

آپ کس پریشر کی بات کرتے ہیں۔ یہ دلے (مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ یہی لفظ استعمال کیا گیا تھا۔) صبح ایک طرف ہوتے ہیں اور شام کے وقت دوسری طرف۔

 میں سردار صاحب کی ذہانت اور معاملہ فہمی پر حیران رہ گیا کہ کس طرح انھوں نے ایک ناقابل توقع بات کر کے غیظ و غضب سے بھرے ان تمام طلبہ کو ٹھنڈا کر دیا تھا۔

خیر ان طلبہ کے رخصت ہونے کے بعد میں نے سردار صاحب کو وائی ایس یو کی تقریب حلف برداری میں بطور مہمان خصوصی شریک ہونے کی دعوت دی جو انھوں نے کمال خندہ پیشانی سے قبول کر لی اور اس میں شریک بھی ہوئے تھے۔

سردار عبد القیوم خان صاحب سے اس ملاقات کے پچیس چھبیس برس بعد کا ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے۔ پاکستان فلسفہ کانگرس کا ایک سیشن 1997 میں راولا کوٹ کے مقام پر ہوا تھا۔ اس کا افتتاح آزاد جموں اور کشمیر کے صدرسردار محمد ابراہیم نے کیا تھا۔ سردار صاحب نے اپنی تقریر کا آغاز ان الفاظ سے کیا تھا: ہم پاکستان سے آئے ہوئے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ وہاں گیسٹ ہاوس کے ملازم بھی یہی پوچھتے تھے آپ پاکستان کے کس شہر سے آئے ہیں۔

آج کی خبریں دیکھ کر نجانے کیوں یہ دو واقعات یاد آ گئے ہیں۔ ان کے ساتھ ہی ایک چٹکلہ بھی یاد آ رہا ہے۔ ستر کی دہائی میں بیاہ شادیوں کے موقع پر بھانڈ مسئلہ کشمیر کا ایک حل بتایا کرتے تھے ۔ وہ حل یہ تھا کشمیر ہندوستان کا اور کشمیری پاکستان کے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس مذاق کے حقیقت بننے کا وقت آن پہنچا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).