پاکستانی وزارت خارجہ نے کرکٹ ٹیم کو کیا ہدایت دی؟


ملائشین کانفرنس میں دو پاکستانی طالب علم محسن اور عثمان بھی موجود تھے، جو ملائشیا کی دو مختلف جامعات میں زیر تعلیم تھے۔ بھارتی پروفیسر ڈاکٹر علم بھی ایک وفد کے ہمراہ کانفرنس میں شریک تھے۔ لنچ بریک میں ہم پاکستانی اور بھارتی ایک ساتھ کھانے کی میز پر جا بیٹھے۔ عام طور پر ہمارا تاثر ہوتا ہے کہ ہندو گوشت کے قریب بھی نہیں جاتے۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ بہت سے ہندو گوشت کھانے سے اجتناب نہیں کرتے۔ ڈاکٹر علم اور ان کے دیگر ساتھی بھی سبزی خور ہرگز نہیں تھے۔

 کھانے کے دوران مختلف موضوعات پر بات ہوئی۔ پتہ یہ چلا کہ مودی سرکار کی طرف سے بھارتی میڈیا کو بہت زیادہ دباؤ کا سامنا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ انڈیا میں کئی بھارتی سیاسی جماعتوں نے اپنے ذاتی ٹی وی چینلز کھول رکھے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے بھارت میں بھی وہی معاملات زیر بحث ہیں، جو پاکستان میں ہیں۔ وہاں بھی ناقص پی۔ ایچ۔ ڈی ڈگریوں اور تحقیقی مضامین کی بھرمار ہے۔ معلوم ہوا کہ بھارتی پروفیسروں کو ہر تین سال بعد بیرون ملک کانفرنس میں شرکت کے لئے تحقیقی گرانٹ ملتی ہے۔

دوران گفتگو ڈاکٹر علم نے پوچھا کہ آپ پاکستانی، بھارت سے اس قدر نفرت کیوں کرتے ہیں؟ میں نے کہا کہ آپ کا تاثر قطعا درست نہیں۔ ہم بھارت سے نفرت نہیں کرتے۔ پاکستان مخالف بھارتی اقدامات اور پالیسیوں کو مگر ضرور نا پسند کرتے ہیں۔ میں نے بتایا کہ بھارت کی بہت سی اچھی باتیں ایسی ہیں جنہیں ہم پسند کرتے ہیں اور ان کی مثال دیتے ہیں۔ انتہائی حیرت سے ڈاکٹر علم نے پوچھا مثلا کون سی باتیں؟ میں نے کہا کہ ہم اپنی سیاسی تاریخ کا موازنہ، بھارت کی سیاسی تاریخ سے کرتے ہیں۔

جمہوریت کی بالادستی، آئین کی پاسداری، اداروں کی آئینی حدود کی پابندی کے حوالے سے ہم اکثر انڈیا کی مثال دیتے ہیں۔ میں نے اعتراف کیا کہ بھارت کی جمہوری، آئینی، اور انتخابی تاریخ ہم سے بہتر ہے۔ یہ سن کر ڈاکٹر علم کافی خوش ہوئے۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے میں نے کہا کہ جو کچھ لائن آف کنٹرول اور مقبوضہ کشمیر میں ہوتا ہے، اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔

ہماری میز پر سڈنی سے آئے ایک پروفیسر موجود تھے۔ وہ یہ گفتگو سن رہے تھے۔ کہنے لگے کہ انڈیا بہت شاندار ملک ہے۔ میں ایک بار وہاں جا چکا ہوں۔ عثمان نے کہا کہ آپ پاکستا ن بھی ضرور آئیں۔ جوابا کہنے لگے۔ مجھے معاف کریں۔ پاکستان کے حالات کچھ اچھے نہیں ہیں۔ یہ سن کر مجھے بے حد سبکی محسوس ہوئی۔ میں نے ان پروفیسر سے کہا کہ دراصل یہ مارکیٹنگ کی دنیا ہے۔ بھارت کی خوبی یہ ہے کہ اسے تشہیری مہم چلانا اور اپنی برانڈنگ (branding) کرنا آتی ہے۔ جبکہ پاکستان اس معاملے میں ناکام ہے۔

مثال کے طور پر خواتین کی جو بدترین حالت بھارت میں ہے وہ دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں۔ یہاں تک کہ بھارتی میڈیا اپنے ملک کے دارلخلافہ کو ریپ کیپیٹل (rape capital) لکھتا اور پکارتا ہے۔ لیکن بھارت چونکہ دنیا کو اپنا روشن چہرہ دکھانے کا ہنر جانتا ہے۔ لہذا غیر ملکی وہاں سفر کرتے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ میری بات پر ڈاکٹر علم کچھ شرمندہ ہوئے۔ کہنے لگے کہ جی ہاں۔  ہمارے ہاں خواتین کے ساتھ کچھ برے واقعات پیش آئے۔ حقوق نسواں کے تناظر میں ہمارے حالات comparatively (نسبتا) خراب ہیں۔ میں نے فورا انہیں ٹوکا اور کہا کہ آپ کے جملوں میں یہ لفظ comparatively اضافی ہے۔ ہر طرح کے حقوق کے حوالے سے بھارت میں حالات انتہائی خراب ہیں۔ آپ کے ملک میں مسلمان محفوظ نہیں۔ سکھ محفوظ نہیں۔ عیسائی محفوظ نہیں۔ یہاں تک کہ دلت اور نچلی ذات کے ہندو تک محفوظ نہیں۔

کشمیر کی مثال لے لیں۔ ستر برسوں میں بھارتی فوج تقریبا ایک لاکھ کشمیری شہید کر چکی ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کے منہ پر پیلٹ گن سے گولیاں برسائی جاتی ہیں۔ سینکڑوں معصوم اپنی بینائی کھو چکے ہیں۔ عورتوں کی آبرو ریزی عام ہے۔ حالت یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار ملک کی فوج خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی (rape) کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے معاف کریں مگر انسانی حقوق کی اس قدر پامالی کرنے والا ملک جمہوریت تو کجا، انسانیت کے معیار پر بھی پورا نہیں اترتا۔ ڈاکٹر علم کچھ بھی کہے بغیر، خاموشی سے کھانا کھاتے رہے۔ مجھے احساس تھا کہ میں بہت تلخ باتیں کر رہی ہوں۔ مقصد میرا یہ تھا کہ سڈنی کے پروفیسر جو بھارت کو شاندار ملک سمجھتے ہیں، بھارت کا اصل چہرہ دیکھ سکیں۔

پھر میں نے ڈاکٹر علم سے سوال کیا کہ بھارت میں شرح خواندگی کافی بہتر ہے۔ آپ جیسے پڑھے لکھے لوگ اپنی ریاست کے ایسے اقدامات کی مذمت کیوں نہیں کرتے؟ ڈاکٹر علم بدستور کھانے میں مصروف رہے۔ کافی توقف کے بعد انہوں نے فقط اتنا کہا کہ ہم (یعنی ساوتھ انڈین) مختلف سوچ رکھتے ہیں۔ اور انتہا پسند رویوں کو بالکل پسند نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ الیکشن میں ہم نے ساوتھ انڈیا میں مودی جی کو بدترین شکست سے دوچار کیا ہے۔ پھر اپنی ساتھی پروفیسر کو مخاطب کر کے کہنے لگے۔ انہیں بتائیں کہ بھارت میں ہمیں بھارتی شہری تصور نہیں کیا جاتا۔ تقریبا غیر ملکی سمجھا جاتا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کے اس جملے نے حقوق انسانی سے متعلق میری تمام باتوں کی تصدیق کر دی ہے۔

ماحول چونکہ خاصا تلخ ہو گیا تھا، عثمان اور محسن نے گفتگو کا رخ کرکٹ کی طرف موڑ دیا۔ اس دوران میں خاموش بیٹھی کھانا کھاتی رہی۔ ایک دو بار مجھ سے رائے مانگی گئی تو میں نے بتایا کہ مجھے اس کھیل کی کچھ سمجھ بوجھ نہیں ہے۔ محسن نے حاضرین کو بتایا کہ جب انڈیا اور پاکستان کا میچ ہوتا ہے تو ہمارے ہاں نہایت جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ کھلاڑیوں پرانتہائی دباؤ ہو تا ہے۔ اگر ٹیم ہار جائے تو اسے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

 میں یہ گفتگو سنتی اور سوچتی رہی کہ کتنی عجیب بات ہے کہ کھیل کو کھیل کے بجائے جنگ سمجھ لیا جائے۔ اس وقت مجھے یا د آیا کہ چند دن پہلے جب ورلڈ کپ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کو بھارتی ٹیم سے شکست ہوئی تو عوام نے اپنے کھلاڑیوں کی کیسی درگت بنائی تھی۔ خاص طور پر سوشل میڈیا پر ہر اخلاقی (بلکہ انسانی) حد پار کی گئی۔ کبھی کبھی مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ بھارت سے ہمارے تمام حساب کتاب پاکستانی کرکٹ ٹیم چکائے۔

 سقوط ڈھاکہ اور بنگلہ دیش کے قیام کا بدلہ بھی پاکستانی کرکٹ ٹیم لے۔ جمہوری، آئینی، انتخابی، معاشی، تعلیمی میدانوں میں پیچھے رہ جانے کا حساب بھی فقط کرکٹ کے میدان میں برابر کیا جائے۔ کرکٹ کے کھلاڑی جب میدان میں اترتے ہیں تو ان کے شانوں پر صرف جیت کی ذمہ داری نہیں ہوتی۔ ہم نے ان کے کاندھوں پر ستر سالہ تاریخ کا بوجھ لاد رکھا ہوتا ہے۔ توقع ہم یہ کرتے ہیں کہ پچاس اوورز کے کھیل میں وہ ستر سالوں کا حساب برابر کر کے لوٹیں۔

دوران گفتگو جب ایک غیر ملکی پروفیسر نے سوال کیا کہ پاکستان اور بھارت اپنے اختلافات ختم کیوں نہیں کرتے، تو میں نے بتایا کہ پاکستا ن گزشتہ ستر برسوں سے مسلسل یہ کوشش کر رہا ہے۔ زیادہ دور نہیں جاتے۔ ابھی چند ہفتے قبل ہم نے بھارتی جاسوس طیارے کے پائلٹ ابھی نندن کو غیر مشروط طور پر رہا کیا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان مودی جی کو بار بار پیغامات بھجواتے ہیں۔ فون کرتے ہیں۔ مگر مودی جی ان سے بات کرنا گوارا نہیں کرتے۔

 ابھی چند دن پہلے بھارتی حکومت نے باقاعدہ خط لکھ کر حکومت پاکستان سے پاکستانی فضائی حدود (air space) استعمال کرنے کی اجازت طلب کی۔ ہماری حکومت نے اجازت دے دی۔ مگربھارتی وزیر اعظم نے منع کر دیا۔ مودی جی نے طویل چکر کاٹ کر بشکیک جانا گوارا کر لیا۔ مگر پاکستانی فضاوں سے نہیں گزرے۔ یہاں تک کہ چند دن پہلے ہم کرکٹ ورلڈ کپ میں بھارتی ٹیم سے میچ تک ہار گئے۔ ڈاکٹر علم نے فورا کہا کہ اس بات سے آپ کا کیا مطلب ہے؟

میں نے کہا کہ پاکستانی وزارت خارجہ کی ہماری کرکٹ ٹیم کو ہدایت تھی کہ CMB (confidence building measure) کے طور پر انڈین ٹیم کو میچ جتوانا ہے۔ ورنہ بھارت کو شکست دینا ہماری ٹیم کے لئے کوئی مشکل کام نہیں۔ سب لوگوں کو ہنستے دیکھ کر ڈاکٹر علم کو معلوم ہوا کہ ان سے مذاق ہو رہا ہے۔ ہنستے ہوئے کہنے لگے۔ ابھی تو آپ کہہ رہی تھیں کہ آپ کو کرکٹ کی سمجھ بوجھ نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ میں کرکٹ کی نہیں، پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بات کر رہی ہوں۔ ہم سب ہنسنے لگے اور اگلے سیشن میں شرکت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔

(بشکریہ روزنامہ نئی بات)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).