سکنہ لامکاں، مالک و مختار جن و انس اور تین لٹی پٹی بہنیں


جیسے ہی لڑکپن میں قدم رکھا سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا، گھر میں ہم تین بہنیں اور امی اکیلی رہ گئیں، خاندان والوں نے ہمارے اک قریبی رشتہ دار کو ہمارا ولی اور نگران مقرر کر دیا، سب سے بڑی بہن مشکل سے 15 برس کی تھی، امی پردہ دار تھیں، کہیں آنا جانا ہو نہیں سکتا تھا۔ رحمت تایا کا گھر ہمارے گھر کے پاس تھا وہ کبھی ہمارے گھر کی چھت پر سوجایا کرتے کبھی اپنے گھر چلے جاتے۔ جب سے باپ مرا تھا اک پتہ بھی زمین پرگرتا تو ہم دہل کر رہ جاتے، ایسے میں رحمت تایا کا چھت پر ہونا ہمارے لئے کسی رحمت سے کم نہ تھا۔ کچھ وراثتی زمین تھی جس کی نگہبانی اب رحمت تایا کیا کرتے، و ہ ویسے بھی کافی دولت مند تھے اس لئے ہمارے گھر کا خرچہ ان کے سر پر تھا۔

دن گزرتے گئے اور ہم بڑی ہوتی گئیں، وہ گرمیوں کی اک رات تھی، سب صحن میں سوئے تھے جبکہ رحمت تایا چھت پر۔ اک انجان سے شور سے میری آنکھ کھلی۔ دیکھا تو بڑی بہن کی چارپائی خالی تھی، سوچا وہ باتھ روم گئی ہوگی۔ کمرے کے پاس پڑے گھڑوں سے پانی پینے پہنچی تو میرے قدم وہیں ساکت ہوگئے۔ کھڑکی کھلی تھی اورسامنے ہمارا بیڈ تھا جس پر میری 16 سالہ بہن کے منہ پر تھپڑ مارتے ہوئے، منہ پر ہاتھ رکھے اس کے کپڑے اتارے جا رہے تھے۔

رحمت تایا برہنہ ہوئے اور میری بہن پر سوار ہوگئے۔ میں بت بنی وہیں کھڑی دیکھتی رہی۔ سوچا چلاؤں لیکن منہ سے آواز ہی نہ نکل پائی۔ سفید رنگ چادر لہو رنگ ہوئی اور میری بہن بے ہوش ہوگئی جس کو وحشت نے پھر سے ہوش دلا دیا۔ وہ نیچے پڑی ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہی تھی۔ تایا کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرتی لیکن اس کے ہاتھ قید کر لئے گئے تھے۔ تایا اک جنونی درندے کی طرح اسے نوچے جا رہے تھے، وہ کب تک مزاحمت کرتی، بے سدھ ہو کر لیٹ گئی۔ رحمت تایا جب اپنا مکروہ بدن اس پر سے اٹھا چکے تو میری بہن اوندھے لیٹی روئے جا رہی تھی۔ رحمت تایا نے اس کو قتل کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ”کسی کو بتایا تو پورے خاندان کو ذبح کر کے گندے نالے میں پھینک دوں گا۔ “

میری راتوں کی نیند اڑ چکی تھی، اب روز یا ہر دوسرے دن ایسا ہوتا۔ بہن نے بھی سمجھوتا کر لیا کیونکہ کوئی اسے بچانے والا نہیں تھا۔ وہ ہر بار اس کے بازو سے پکڑتا اور وہ کسی معمول کی طرح اس کے پیچھے چلتی ہوئی کمرے میں پہنچ جاتی۔ اس رات کے بعد یہ سب دیکھنے کی کبھی میری ہمت نہ ہو پائی۔ دن مہینوں سے سالوں میں بدلنے لگے کہ اس سے چھوٹی بہن 16 سال کی ہوگئی، پھر اک رات اس کی باری شروع ہوئی جو سال تک چلتی رہی۔ بڑی بہن خاموشی کے ساتھ سوئی رہتی۔

میں یہ کبھی جان نہیں پائی کہ وہ رو رہی ہوتی تھی یا شکر کرتی کہ کم سے کم اس کی جان چھوٹ گئی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا، میری عمر بھی 16 سال کو پہنچ گئی۔ اک رات مجھے بازو سے پکڑ کر اٹھایا گیا، میرے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہا گیا کہ ”بولنا مت۔ “ مجھے کمرے کی طرف گھیسٹا جا رہا تھا کہ میں نے جیسے تیسے اپنا منہ آزاد کروا کر چلانا شروع کر دیا۔ گھر کے سب افراد اٹھ بیٹھے، میں نے رحمت تایا سے خود کو چھڑایا اور امی کے قدموں میں جا گری۔

”امی مجھے بچا لیں۔ یہ خبیث انسان مجھے باقی بہنوں کی طرح نوچ ڈالنا چاہتا ہے۔ “ تایا رحمت اپنی سفید لمبی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے استغفار کر ورد کرنے لگے۔ انہوں نے کہا کہ ”یہ حرافہ جھوٹ بول رہی ہے۔ نیکی کا تو کوئی زمانہ ہی نہیں ہے، لاوارث یتیم بچیوں اور بیوہ عورت کی کفالت کرنے کی سزا اتنا گھٹیا اور سنگین الزام ملے گا میں نے سوچا تک نہ تھا۔ “ وہ بھاگے اور الماری سے کتاب مقدس اٹھا لائے۔ ”یہ چاروں میری بیٹیاں ہیں، یہ بچی جھوٹ بول رہی ہے، اسے کسی نے میرے خلاف بہکایا ہے۔ “ امی نے باقی بہنوں کی طرف دیکھا تو رحمت تایا نے گردن پر چھری پھیرنے کا اشارہ کر کے ان کو چپ رہنے کی دھمکی دی۔ دونوں نے خوفزدہ ہوتے ہوئے نفی میں سر ہلا دیا۔ امی نے مجھے غصے سے دیکھتے ہوئے کہا ”چپ کر کے سو جاو، کیا تماشا لگا رکھا ہے، “ امی تھوڑی دیر بعد سو گئیں۔

وقت گزرتا گیا، میں نے جیسے تیسے خود کو بچائے رکھا۔ ماسٹرز کیا، تب تک میری دونوں بہنوں کی شادیاں ہو چکی تھیں۔ مجھے ایک بینک میں اچھے عہدے پر ملازمت مل گئی۔ جاب پر ہی ایک بھلے آدمی نے شادی کی آفر کی۔ اپنی عزت بچانے کا یہ بہترین موقع لگا، پہلے سوچا گھر سے بھاگ جاوں، لیکن اپنی شادی شدہ بہنوں کا خیال آجاتا۔ ہم نے نکاح کر لیا، اس نے کہا تھا کہ وہ چند ماہ بعد باقاعدہ رخصتی کروا کر مجھے لے جائے گا۔ وہ ہر ماہ آتا، میرے ساتھ سوتا اور اگلے ماہ کا وعدہ کر کے چلا جاتا۔

کچھ ماہ بعد اس نے بتایا گیا کہ والدین نے زبردستی اس کی شادی کرا دی ہے اور تم پہلی بیوی ہونے کے باوجود اب دوسری بیوی ہو۔ مجبوری ہے اس لئے تم شادی شدہ ہونے کے باوجود اپنی والدہ کے گھر کنواری بن کر رہو۔ جب تک کہ حالات سازگار نہ ہوں۔ دن گزرتے گئے اور وہ مہینے کے بجائے چھ ماہ اور پھر سال میں ایک بار آنے لگا۔ اپنے ہی شوہر سے ملنے کے لئے گھر والوں سے چھپ کر لاہور جاتی، ہوٹل میں کمرہ بک کیا جاتا، وہ اپنا حق لیتا۔

میں نے اس کی بہت منتیں کی، سمجھایا، اپنی بہنوں اور گھر میں ہوئے حادثے کا بھی بتایا کہ شاید اسے مجھ پر ترس آجائے مگر وہ نہ مانا۔ کہا اگر مجھے لے جا نہیں سکتے تو طلاق دے دو۔ نکاح ہوتے ہوئے میں کہیں اور شادی نہیں کر سکتی یہ بہت بڑا گناہ ہوگا جبکہ میرے گھر والے اب بہت زیادہ اصرار کرنے لگے ہیں، میں اپنے گھر والوں کو کب تک جھوٹے بہانے بنا کر روک پاؤں گی؟ اس ملاقات کے بعد پہلے اس نے میرا فون سننا بھی بند کر دیا اور بعد میں فون نمبر بدل لیا۔

میری بہنوں کی عزتیں لٹتی رہیں، میں نے احتجاج کی کوشش کی، کسی نے نہ سنی۔ میری سنے گا بھی کون؟ میری تو گواہی بھی آدھی شمار ہوتی ہے۔ جس کو شوہر مانا وہ بھی خدا کا بنایا ہوا ایک مرد نکلا کہ جس کے حقوق کی گواہی کے لئے ہر بار کوئی نہ کوئی دلیل کوئی آیت، کوئی حدیث کوئی گواہی ڈھونڈ لی جاتی ہے مگر ہم پر ہوئے ظلم کے لئے آسمان تک خاموش رہتا ہے۔ میں اگر بول بھی پڑوں، والدہ سے کہہ بھی دوں کہ میں کئی سال سے شادی شدہ ہوں تو کیا ہوگا؟

میری بہنوں کو بدچلن اور فاحشہ کہہ کر طلاق مل جائے گی۔ ایک رشتہ دار نے دن رات نوچا۔ گھر میں صرف لڑکیاں ہوں تو پورا خاندان اپنی مردانگی ثابت کرنے ہر روز گھر آنے لگتا ہے۔ وہ ماں جو اولاد کو کانٹا بھی چبھے تو تڑپ جانے کی فطرت رکھتی ہے اس کے لب خاموش اورآنکھیں ہمیشہ بند کیوں رہیں؟ کس نے اس شخص کو یہ آزادی اور حق دیا کہ وہ ہم کو نوچ کر بھی متقی، شریف اور پرہیزگار کہلائے اور ہم لٹ کر بھی فاحشہ؟ یہ معاشرہ کس قانون کے تحت بنا مرد والے گھر پر ہر صورت میں ایک مرد مسلط کرتا ہے؟ روٹی کمانی پڑتی ہے ایک حقیقت ہے لیکن اس کے بدلے تین تین کم عمر بہنوں کی عزت؟ کیا خدا کی طرف سے وعدہ کیا گیا رزق اتنا مہنگا ہوتا ہے؟

کوئی اور تو میری اور میری بہنوں کی عزت کی حفاظت کیا کرتا۔ جب یہ سلسلہ رک سکتا تھا، بات کھل گئی تھی تب خود کتاب مقدس بیچ میں لا کر ہمیں جھوٹا کر دیا گیا۔ کوئی آسمان نہیں گرا، کوئی زمین نہیں پھٹی۔ نہ تو خدا ہمیں بچانے آیا اور نہ ہی کتاب مقدس بلکہ دونوں نے ہم سے نگاہیں موڑتے ہوئے ہمیں فاحشہ کہلوانا پسند کیا۔ میری ایک بہن کی شادی رحمت تایا کے نشئی بھائی سے کروا دی گئی اور دوسری کی شادی بھی اپنے کزن سے۔

میں کیسے منہ کھولتی؟ دونوں بہنوں کا گھر اجاڑتی؟ جس بہن کو اس نے بھابھی بنایا وہ اب اس کی فل ٹائم رکھیل کے فرائض انجام نہ دیتی تو کیا کرتی؟ وہ اب بھی ہمارے گھر آتا ہے اور کہتا کہ ”مان جاؤ۔ سو جاؤ میرے ساتھ کسی کو کچھ پتہ نہیں چلے گا۔ “ واقعی کسی کو بھی پتہ نہیں چلتا۔ ماں بھی خاموش اور ستر ماؤں سے زیاد محبت کرنے کا دعویدار خدا بھی خاموش۔ ہماری عزتوں کے لٹ جانے کے بعد اس شخص کو بے گناہی کا سرٹیفکیٹ دینے والی خدا کی کتاب بھی خاموش۔

میری بہنوں کی عزت لٹتی رہی، خدا نے دیکھی لیکن خاموش رہا۔ میں نے عزت کی زندگی گزارنا چاہی لیکن اک رکھیل بن کر رہ گئی، خدا خاموش رہا۔ احتجاج کرنا چاہا تو خدا کی کتاب کے ذریعے ہمیں جھوٹا ثابت کر دیا۔ یہ ملک بھی اس کا، یہ قانون بھی اس کا، یہ مولوی بھی اس کے، یہ پنچائتیں بھی اس کی، یہ خاندانی نظام بھی اس کا، میرے باپ کی موت کا مالک بھی وہی اور اسی کے ماننے والوں کی کی پابندیاں بھی اس کی۔ ہمیں کسی ایک انسان نہیں بلکہ خدائی نے تباہ کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).