کشمیر: شہ رگ سے ہی نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے


کشمیر کے جن رہنماؤں کی آوازیں ہمارے ہاں سنائی دیتی ہیں یہ ہمارے احمد شاہ مسعود ہیں۔ پاکستان میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ محترم گیلانی کشمیرکے عمر مختار ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کے قائل ہیں۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی اس بیچ کوئی آواز ہمارے ہاں سنائی نہیں دیتی۔ کیونکہ وہ آزاد اور مختار ریاست کے نعرہ دار ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ آزاد اور مختار ریاست کے مطالبے کا حق تو صرف ان مسلمانوں کو تھا جو انیس سو سینتالیس سے پہلے متحدہ ہندوستان میں رہتے تھے۔ اب تو افغان اور کشمیری بھی پہلے ہماری وفا کا دم بھریں بعد میں اپنے ملک کا کچھ سوچیں۔ بس سوچنے سے پہلے ایک بار ہم سے پوچھ لیں کہ سوچتے کیسے ہیں۔

میرے جیسے کسی بھی دکھی پاکستانی کو پہلے یہ بات اپنے دل دماغ سے نکالنی ہوگی کہ قومی مفاد کی بنیاد سیاسی ہوتی ہے۔ جبکہ سیاست میں مذہب کی آمیزش صرف استحصال کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ اگر ہم اس بات پر یقین کرلیں تو ہمیں یہ سمجھنے میں آسانی ہوجائے گی کہ کشمیر کی قانونی حیثیت جس برق رفتاری سے بدلی گئی ہے وہ عالمی طاقتوں کو اعتماد میں لیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یقین نہ آئے تو تین چارباتوں پر غور کرلینا ضمیر کے اطمینان کے لیے کافی ہوگا۔

جس وقت ہندوستان جموں و کشمیر کی قانونی حیثیت کو بدل رہا تھا، اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم فرمارہے تھے ”شجرکاری مہم پاکستان کی تقدیر بدل دے گی“۔ اسی شام وزیر اعظم نے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس پر ارشاد بھٹی کی ایک وڈیو نشر کی جس میں وہ مولانا فضل الرحمن کی بھد اڑارہے تھے۔ ساتھ ہی انہوں نے ایک اور پیغام کے ذریعے یہ اہم خبر قوم تک پہنچائی کہ چالیس فٹ لمبا اور ساٹھ فٹ چوڑا قومی پرچم پارلیمنٹ میں نصب کردیا گیا ہے۔ اُس پارلیمنٹ میں نصب کیا گیا ہے جس میں ایک جوائنٹ سیشن ہونا ہے اور وزیرخارجہ حج کا فریضہ ادا کرنے سعودیہ پہنچ چکے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ حج کی باضابطہ ادائیگی میں ابھی آٹھ دن رہتے ہیں اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ حجاج کرام سے انہوں نے اپیل کردی ہے کہ وہ کشمیریوں کے لیے رب کے حضور گڑگڑا کر دعائیں کریں۔

خیر کی بات یہ ہے کہ وزیراعظم کل پارلیمنٹ میں اپنا پالیسی بیان جاری کرچکے ہیں۔ اس بیان میں پالیسی کے علاوہ ہر وہ فلسفہ موجود تھا جس کا الہام ہمارے نصابِ تعلیم ہوا ہے یا پھرالہامی ادب پر ہوا ہے۔ لیکن اگر پالیسی ڈھونڈ نکالنی ہی ہے تو پھر اس بات پر غور کیجیے کہ پورے خطبے میں ریاستِ مدینہ، ٹیپو سلطان، بہادر شاہ ظفر، علامہ اقبال، قائد اعظم محمد علی جناح اور دو قومی نظریہ وغیرہ سب تھا، مگر خدا کا کرم ہوا کہ اس میں ”شہہ رگ“ جیسی حدیثِ دلبراں اور ”اٹوٹنگ“ جیسی کمالِ دلبری نہیں تھی۔ مجموعی صورت حال بھی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ ٹانگ ٹوٹ جانے پر بھی میاں ریاست اللہ خاں چل پھر رہے ہیں۔ شہہ رگ کے کٹ جانے پر بھی مملکت اللہ داد بقیدِ حیات ہیں۔ پہلے بھی تو گزرے ہیں دور نارسائی کے۔ یاد کریں جب دایاں بازو کٹ گیا تھا اور پٹو گرم برابر چل رہی تھی۔

علمِ نجوم سے خدا کی پناہ، مگر ستاروں کی چال بتاتی ہے کہ مسئلہ کشمیر پراسرار طور پر رحلت فرما چکا ہے، بس سفارتی و سیاسی رسوم کے مطابق تجہیز و تکفین کے انتظامات ہورہے ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ اس پورے منصوبے میں دونوں پڑوسیوں کے لیے فیس سیونگ کا پورا سامان رکھا گیا ہے۔ دونوں ریاستیں منہ کے فائر کریں گے، جس میں کبھی انڈیا کی گولی نشانے پہ بیٹھے گی کبھی پاکستان کی۔ کبھی پاکستان کا اقدام درست ثابت ہوگا کبھی ہندوستان کا۔

کبھی ہماری دلیل مضبوط ہوگی کبھی ان کی۔ کرتے کراتے اور مرتے مراتے قصہ ”اُدھر تم اِدھر ہم“ پر پہنچ کر ماضی کی بھولی بسری داستان بن جائے گا۔ دونوں ریاستوں کے شہریوں کے لیے بھی فیس سیونگ کا بھرپور انتظام موجود ہے۔ انڈیا کے شہری تو کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے بالآخر سری نگر میں ترنگا لہرادیا۔ پاکستانی البتہ دو قومی نظریے کی سچائی پر اصرار کرتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد کی تربت پر تازیانے برسا سکتے ہیں۔

اگر منصوبہ یہی ہے جو بظاہر نظر آرہا ہے تو یہ خود کشمیریوں کے حق میں اس لیے بھی بہتر ہے کہ کشمیری سائیڈ رول کے بجائے اب مرکزی کردار کے طور پر سامنے آسکیں گے۔ مثالی صورت گری بات کو صرف بڑھاسکتی ہے۔ عملی نقشہ گری کشمیرکی دیوی کو افسانوی و رومانوی گرداب سے نکال کر حقیقی روپ میں ڈھال سکتی ہے۔ ارباب! اسے کسی خبری کا مستند تجزیہ کم اور کسی دل سوختہ کی خواہش زیادہ سمجھیں۔ بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2