کیا کشمیریوں کی حالت زار پر عالمی ضمیر بیدار ہو گا؟


مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے بارے میں بھارتی حکومت کے فیصلہ کے بعد پاکستان کے ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات کشیدگی کی انتہا تک پہنچ گئے ہیں۔ اس اقدام سے بھارتی آئین کی اس شق کو ختم کیاگیا ہے جس کے تحت مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خریدنے اور شہریت کے حقوق مقامی باشندوں کے لئے مخصوص تھے۔ آئینی تبدیلی کے بعد بجا طور سے یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی مسلم شناخت اور اس علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

پاکستان میں اسے نریندر مودی کی نسل پرستانہ حکمت عملی قرار دیا جارہا ہے جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر میں نسلی تشدد اور جبر کے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے آج قوم سے خطاب کرتے ہوئے حکومتی فیصلہ کو درست قرار دیا اور کہا ہے کہ اب کشمیر میں ترقی و خوشحالی کا راستہ کھل جائے گا۔ چند خاندانوں کی حکمرانی کی بجائے نوجوان قیادت کو سامنے آنے کا موقع ملے گا۔ تاہم نریندر مودی ان بلند بانگ دعوؤں کے باوجود جانتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے باشندے اس فیصلہ کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔

بھارتی حکومت، جمہوریت کی دعویدار ہونے کے باوجود کسی آئینی ترمیم کے لئے کوئی جمہوری راستہ اختیا رکرنے کا حوصلہ نہیں کرسکی حالانکہ اسے لوک سبھا میں دو تہائی کے لگ بھگ اکثریت حاصل ہے۔ اسی لئے آئین کی شق 370 اور 35 اے کو تبدیل اور ختم کرنے کے لئے صدارتی حکمنامہ استعمال کیا گیا اور بعد میں ایک قانون کے ذریعے مقبوضہ ریاست کو دو وفاقی اکائیوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ صادر کردیا گیا۔

ایک لمحہ کے لئے اگر مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ تنازعہ اور اس بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں اور پاکستان کے ساتھ شملہ معاہدہ اور اعلان لاہور کو فراموش بھی کردیا جائے تو بھی یہ سوال تو اپنی جگہ پر موجود رہے گا کہ کسی بھی خطہ زمین کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ وہاں کے باشندوں کی مرضی کے بغیر کیسے اور کیوں کر کیا جاسکتا ہے؟

ماضی میں بھارتی لیڈروں نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا لالچ دے کر ہی ایسے سیاسی عناصر کی حمایت حاصل کی تھی جنہیں اب نریندر مودی خاندانی سیاست کے نمائندے قرار دے کر مسترد کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ حالانکہ اسی خاندانی سیاست کی ایک نمائیندہ محبوبہ مفتی کے ساتھ مل کر بھارتیہ جنتا پارٹی نے مقبوضہ کشمیر پر دو برس تک حکومت کی تھی۔ کشمیر کے لئے خصوصی آئینی مراعات کے سوال پر ہی محبوبہ مفتی کے ساتھ بی جے پی کا سیاسی اتحاد ختم ہؤا تھا۔ اب وہ بھی دیگر سیاسی لیڈروں کے ساتھ نظر بند ہیں اور مودی کے فیصلہ کو ناقابل قبول قرار دے کر یہ اقرارکررہی ہیں کہ ان کے بزرگوں نے دو قومی نظریہ کو مسترد کرکے غلطی کی تھی۔

کشمیری عوام کی مرضی کے بغیر نئی دہلی میں بیٹھی حکومت نے جو فیصلہ کیا ہے اسے کشمیر کا بچہ بچہ قبول کرنے سے انکار کرے گا۔ اس حقیقت کا ادراک مودی سرکار کو پہلے سے تھا۔ اسی لئے وادی کو جیل میں تبدیل کرتے ہوئے، نہ صرف وہاں کی سیاسی قیادت کو حراست میں لیا گیا ہے بلکہ 35 ہزار تازہ دم دستوں کی مدد سے مقبوضہ کشمیر کے ہر شہر میں نقل و حرکت کے تمام امکانات ختم کردیے گئے ہیں۔ تمام وادی میں کرفیو کے حالات ہیں اور ڈیڑھ کروڑ شہری گھروں میں مقید ہیں۔

نریندر مودی خواہ کشمیریوں کی خوشحالی اور جمہوری حق کی کیسی ہی خوشگوار باتیں کرلیں لیکن ان کی حکومت کا فیصلہ غیر اخلاقی، غیر جمہوری، عوام کی مرضی کے برعکس اور طے شدہ داخلی اور عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔ بھارتی حکومت کے اس اقدام کا واحد مقصد اکھنڈ بھارت کے بارے میں ہندو انتہاپسند اکثریت کے جذبہ کی تسکین ہے۔ لیکن اس مذہبی عصبیت کا نشانہ کشمیری عوام کو بنایا گیا ہے۔

نریندر مودی نے یہ نوید بھی دی ہے کہ اب کشمیر میں امن کا دور دورہ ہوگا کیوں کہ دہشت گردی کا قلع قمع کردیا جائے گا۔ ان کے اس پیغام سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ بھارتی حکومت کشمیری عوام کی آواز دبانے کے لئے ہر ظلم روا رکھنے کا تہیہکیے ہوئے ہے۔ کشمیر کی متنازع حیثیت اور پاکستان کے ساتھ اس خطہ کے بارے میں اختلافات سے بھی پہلے یہ اس علاقے میں آباد شہریوں کے بنیادی انسانی و جمہوری حقوق کا معاملہ ہے۔ بھارتی حکومت نے کشمیر کو سخت سیکورٹی حصار میں لے کر اس کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کا فیصلہ کرکے، دراصل کشمیری عوام کے انہی بنیادی حقوق کو مسترد کیا ہے۔ اب ان حقوق کے لئے آواز اٹھانے کی کوشش کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دے کر ختم کرنے کی دھمکی دی جارہی ہے۔

بھارتی حکومت کے انہی ہتھکنڈوں کی وجہ سے کشمیری عوام کی بہبود، آزادی اور حقوق کے علاہ ان کے جان و مال کی سلامتی کے بارے میں اندیشے پیدا ہوتے ہیں۔ پاکستان میں انہیں فسطائی ہتھکنڈے قرار دیتے ہوئے یہ کہا جارہا ہے کہ بھارتی جنتا پارٹی اپنے ہندو انتہا پسند ایجنڈے کے تحت وادی کی مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ بی جے پی اور نریندر مودی کے ان عزائم کے بارے میں شبہ کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ اس لئے اندیشہ ہے کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کشمیریوں کا خون ارزاں کیا جائے گا۔ اسی تناظر میں وزیر اعظم عمران خان نے ٹوئٹ پیغام میں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے اور پوچھا ہے کہ کیا دنیا کشمیریوں کی نسل کشی پر خاموش رہے گی یا اپنی اخلاقی ذمہ داری پوری کرے گی؟

اس وقت مقبوضہ کشمیر میں مواصلت کا ہر ممکن راستہ مسدود ہے۔ وہاں سے کوئی خبر حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ وہاں کے لوگ کس حال میں ہیں اور بھارتی سیکورٹی فورسز کشمیری عوام کے ساتھ کیا سلوک کررہی ہیں۔ عصر حاضر میں میدان جنگ بھی میڈیا اور امداد فراہم کرنے والی تنظیموں کی دسترس میں ہوتے ہیں۔ لیکن بھارت کی جمہوری حکومت ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو محبوس اور ان کے سیاسی لیڈروں کو قید کرنے کے باوجود خود کو اعلیٰ انسانی اقدار کا پاسدار قرار دیتی ہے اور اپنی استبدادیت کو کشمیری عوام کی بہبود کے لئے اٹھایا گیا قدم کہتی ہے۔ دنیا کے جس ضمیر کو عمران خان آواز دینے کی کوشش کررہے ہیں، وہ یا تو خاموش ہے یا اسے بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دے کر نگاہیں چرا رہا ہے۔

پاکستان میں کشمیر کے سوال پر بے چینی کے علاوہ بھارتی حکومت کے اقدامات کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں غیر یقینی پیدا ہونا فطری ہے۔ وزیر اعظم اور ان کے نمائیندوں نے جنگ اور خون کا آخری قطرہ بہانے کی باتیں کرکے حالات کو مزید پیچیدہ اور پریشان کن بنایاہے۔ حکومت اس موقع پر قومی یک جہتی پیدا کرنے میں ناکام ہے۔ نیب نے انہی دنوں میں مسلم لیگ (ن) کے سابق وزیر خزانہ کے بعد آج مریم نواز کو گرفتار کرکے بدعنوانی کے خلاف مہم تیز کی ہے۔

مریم نواز کی گرفتاری پر جب بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں احتجاج کیا تو ایک وفاقی وزیر نے اپوزیشن کے ایک ایک لیڈر اور رکن قومی اسمبلی کا نام لے کر ’چور‘ کی گردان کرنا ضروری سمجھا۔ یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ حکومت نہ تو کشمیر کے حوالے سے پیدا ہونے والی نئی صورت حال پر کوئی واضح حکمت عملی سامنے لاسکی ہے اور نہ ہی اس مقصد کے لئے سیاسی اتحاد و اتفاق کی ضرورت کو تسلیم کرتی ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یہ معاملہ سلامتی کونسل میں اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ اس اقدام کا جو نتیجہ نکلے گا وہ اس ملک کے بچے بچے کو ازبر ہے۔ ایک طرف حکومت بھارت پر دباؤ ڈالنے اور اپنی ناراضگی رجسٹر کروانے کے لئے اسلام آباد سے بھارتی ہائی کمشنر کو واپس جانے کا حکم دے رہی ہے اور سمجھوتہ ایکسپرس بند کرنے کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو معطل کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ دوسری طرف وزیر خارجہ اس بات کی تردید کرنا ضروری سمجھتے ہیں کی پاکستان کی فضائی حدود بھارت کے لئے بند کی جارہی ہیں۔ انہوں نے کرتار پور راہداری پر کام جاری رکھنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ نئی دہلی کو ایسے ملے جلے اشارے دے کر اسلام آباد اپنی کمزوری اور بے یقینی کا اظہار کررہا ہے۔

ملک کے سب سیاست دان کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کررہے ہیں لیکن وہ ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہیں اور قومی حکمت عملی بنانے کے لئے نہ تو پارلیمنٹ کو استعمال کیا جاسکا ہے اور نہ کوئی نیا پلیٹ فارم تلاش کرنے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ کشمیری عوام اس وقت بھارتی سیکورٹی فورسز کی سنگینوں اور انتہاپسند سیاسی قیادت کے رحم و کرم پر ہیں۔ کوئی نادان بھی یہ بتا سکتا ہے کہ بھارت کو چیلنج کرنے اور اس کی زیادتی کا جواب دینے لئے قومی اتحاد و اشتراک بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

اس وقت یہ معاملہ اہم نہیں ہے کہ دنیا بھارتی اقدامت کو غلط اور پاکستان کے مؤقف کو درست تسلیم کرلے بلکہ کشمیری عوام کے ساتھ روا رکھے گئے غیر قانونی اور غیر انسانی سلوک کے خلاف آواز بلند کرنا اہم ہے۔ یہ مسئلہ پاکستان کی سفارتی کامیابی یا ناکامی سے زیادہ ڈیڑھ کروڑ لوگوں کی سلامتی اور انسانی حقوق سے متعلق ہے۔ پاکستان اور بھارت نے 70 برس تک کشمیر کے سوال پر اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کیا ہے۔ اب وقت ہے کہ پاکستان کشمیری عوام کی زندگی اور حقوق کی بات کرے۔ کشمیر کے بارے میں اگر بھارتی حکومت فیصلہ کرنے کا حق نہیں رکھتی تو پاکستان بھی ان کی تقدیر کا ان داتا نہیں ہو سکتا۔

بدقسمتی سے دنیا اس مسئلہ کو صرف دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان تنازعہ کے طور پر دیکھتی ہے۔ اسے صرف یہ فکر ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایسا تصادم نہ ہوجائے جو عالمی امن کے لئے خطرہ بن جائے۔ حالانکہ کشمیر کا سوال وہاں آباد انسانوں کی بہبود اور حقوق کے بارے میں ہے۔ اسی کو نمایاں کرنے اور کشمیریوں کی حفاظت کے لئے عالمی رائے تیار کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali