نامعلوم حکمرانوں کی سیاسی تجارت


جب کسی قوم کے اصل حکمران نامعلوم ہوں تو اس قوم کے زوال کی انتہا تک پہنچنے میں دیر نہیں لگتی۔ پاکستان شروع ہی سے کبھی آمروں تو کبھی مفاد پرست سیاستدانوں کے ہاتھوں لٹتا رہا ہے۔ کسی نے ڈالروں کی خاطر اس کو گروی رکھا تو کسی نے وطن پاک کی سرزمین کو ہی بیچ ڈالا۔ لیکن شاید اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں تھا ورنہ تو آج یہ ملک پختونستان، بلوچستان، کراچی اور دیگر ناموں کے ساتھ الگ الگ ممالک ہوتے۔ ہمارا ملک بھی ان چند بدقسمت ممالک میں سے ہیں جس نے اپنے ہی سرپرستوں سے مار کھائی ہے۔ یہاں ہر کوئی بڑے بڑے دعوؤں کے ساتھ اقتدار میں آتا ہے اور ذاتی مفادات کی جنگ لڑتا ہے۔ کسی نے اس ملک کے لیے نہیں سوچا ورنہ آج اس کا یہ حال نہیں ہوتا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں حکمرانی کا طرز غلط اپنایا گیا ہے۔ یہاں سیاست تجارت سمجھ کر کی جاتی ہے۔ جس کے پاس جتنا زیادہ پیسہ ہوگا وہ ہی ووٹ لے کر پارلیمنٹ پہنچے گا اور اس کو کامیاب سیاستدان سمجھا جائے گا مگر اس طاقت کے نشے اور سیاسی تجارت نے عوام کو غربت اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ملک میں آج کل جو حالات ہیں لگتا ایسا ہے جیسے واپس غلامی کے دور میں جارہیں ہے۔ پاکستان میں آج بھی عام بندہ سیاسی قائدین کا غلام ہے اور سیاستدان یہ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ ان کی بادشاہت ختم ہو اور یہ لوگ غلامی سے نکل آئیں۔

پاکستان کے ہمسایہ ممالک سے پیچھے رہنے کی سب سے بڑی وجہ اس ملک میں رائج غیر معیاری پالیسیاں ہیں۔ یہاں آج تک کئی ایسے قوانین نافذ العمل ہیں جو کہ آزادی سے پہلے انگریزوں نے بنائے تھے تب ہی تو ہم آگے نہیں بڑھ رہیں۔ معیاری تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کا ضامن ہوتی ہے۔ لیکن اکیسویں صدی میں بھی اس ملک کے قانون بنانے والوں کی تعلیم صرف میٹرک تک محدود ہے، سوائے چند سیاستدانوں کے جو کہ اچھے تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی کافی تجربہ رکھتے ہیں۔ یہاں وزارت تعلیم کے سربراہان کی تعلیمی قابلیت بارہویں جماعت فیل اور صوبے کے تمام یونیورسٹیوں کا چانسلر کہلانے والا صرف میٹرک پاس ہے۔ یہ لوگ جب ہمارے تعلیمی نظام کے لیے پالیسیاں بنائیں گے، ترقی تو دور کی بات الٹا ملک و قوم کو تباہی کی راہ پر کھڑا کردیں گے۔

فرنٹ انڈ پر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں مہنگائی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچی ہے۔ بے جا ٹیکسز لگا دیے گئے جس سے نہ صرف کارخانے بند ہوتے جارہے ہیں بلکہ لاکھوں باصلاحیت اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی بے روزگار ہورہے ہیں۔ یہاں غریب صرف اس لیے اپنے بچوں کو سکول سے نکال رہیں ہے کہ دو وقت کی روٹی خریدنے کے لیے پیسے پیدا کریں۔ یہاں لوگ اس لیے خودکشیاں کر رہیں ہے تاکہ مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے ان کی ذہنی اذیت ختم ہوجائے۔ یہاں لوگ سیاسی پارٹیوں کو اس لیے سپورٹ کر رہیں ہے تاکہ جلسے پہ جانے کی صورت میں ان کو ایک دن کی دہاڑی مل جائے۔ جان سب کو پیاری ہوتی ہے لیکن اس حکومت نے تو لوگوں کے لیے مرنا آسان کردیا ہے۔

سال 2018 کے جنرل الیکشن اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحریک عدم اعتماد لانے کے بعد چیئرمین سینیٹ کے لیے حالیہ انتخابات نے ثابت کردیا کہ شفاف الیکشن کروانے میں ”شفاف“ ہاتھ ملوث ہیں۔ آئندہ کسی انتخابات پر وقت اور پیسہ ضائع نہیں کرنا چاہیے کیونکہ انتخاب تو ویسے بھی عوام کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتا۔ چیئرمین سینٹ کے لیے اپوزیشن واضح اکثریت کے باوجود شکست سے دو چار ہوئی اسی طرح پچھلے سال جنرل الیکشن میں بھی خلائی مخلوق ہی کی مرہون منت تحریک انصاف کو کامیابی ملی تو ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمران خان اور اس کی منتخب کردہ ٹیم میں اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ حکومت کو اچھی طرح چلا سکے۔

سیاست میں لوٹا کریسی اب بری نہیں، عقل مندی سمجھی جاتی ہے۔ تمام سیاسی پارٹیوں میں گنے چنے چند ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اب تک وفاداری کی چادر اوڑھی ہوئی ہے ورنہ تو سب کے سب ننگے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پہلے لوٹا کریسی بھی سیاسی مستقبل اور مفادات کو مدنظر رکھ کر کی جاتی تھی لیکن اب تو پارٹی تبدیل کرنے کے لیے غیب سے آواز آتی ہے اور اسے سیاستدانوں کو سننا پڑتا ہے ورنہ تو چوہدری نثار علی خان کی طرح سیاست سے باہر ہوجائیں گے۔

اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے بار بار اس بات کو دہرایا جارہا ہے کہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہیں لیکن نا تو سینٹ کے پچھلے الیکشن میں تحریک انصاف کے چودھری سرور کو ان کی ارکان کی تعداد سے زیادہ ووٹ پڑنے کی تحقیقات ہوئی اور نا پچھلے دنوں چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں ہونے والی دھاندلی کی تحقیقات ہوں گی۔ مخالفین چاہے جتنا بھی انصاف کے لیے چلائیں لیکن ہوگا وہی جو ڈوری ہلانے والے چاہیں گے۔

نامعلوم حکمرانوں کی سیاسی تجارت اس وقت پاکستان میں عروج پر ہے اور دن بدن اس طاقت اور نشے میں اور بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ ان کو سیاسی تجارت کی ضرورت کیوں پڑی؟ یہ لوگ سامنے والی سیٹ خود کیوں نہیں سنبھالتے؟ شاید اس لیے کہ عوام ان کی جھوٹی محبت پر اندھا یقین برقرار رکھے اور یہ چالاکی سے اپنا مشن آگے لے جاسکیں۔ جو لوگ ان سے سوال پوچھنے کی جرات کریں گے وہ زمانے کے بڑے مجرم ہوں گے اور طرح طرح کے الزامات کے ساتھ جیل کی سلاحوں کے پیچھے بند رہیں گے۔

پاکستان کا خواب دیکھنے والے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کو اس بات کا اندیشہ تھا کہ ایک وقت آئے گا جس میں جمہوریت کے نام پر گدھوں کو منتخب کیا جائے گا۔ اسی لیے تو وہ جمہوریت کے حق میں نہیں تھے۔ جس طرح آج کل کے حالات ہیں، نہیں لگتا کہ پاکستان کا مستقبل غریب عوام کے لیے اچھا ہوگا۔ اس ملک کو تحریک انصاف کی تبدیلی کی نہیں، انقلاب ایران کی طرز تبدیلی کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).