ارشد وحید چوہدری کا مکمل کالم


چنار کے سرخ پتے جا بجا بکھرتے ہیں تو لگتا ہے قدرت نے آگ سی دہکا دی ہے۔ بہتے جھرنے، لاتعداد جھیلیں، سیکڑوں بلند چوٹیاں، برف سے ڈھکے پہاڑ، صنوبر کے آسمان کو چھوتے درخت، جنت کہیں زمیں پہ اگر ہے تو اسے کشمیر کہتے ہیں جسے معاہدہ امرتسر کے تحت گلاب سنگھ نے 75 لاکھ نانک شاہی میں انگریزوں سے خریدا جبکہ اس جنت کے عوض سالانہ ایک گھوڑا، بارہ بکریاں اور تین کشمیری شالیں بھی دینا ٹھہرا، اس سودے میں کشمیر اور لداخ کے علاقے شامل تھے جبکہ ملحقہ علاقوں پہ اس نے بزور طاقت قبضہ کیا۔ ان علاقوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

ڈوگرا راج میں یہاں مقامی لوگوں پر بدترین ظلم ڈھائے گئے۔ یہی سبب تھا کہ قیام پاکستان کے وقت یہاں کے مسلمان پاکستان کے ساتھ الحاق کے خواہشمند تھے۔ اس وقت مجاہدین نے کشمیر کا ایک حصہ تو آزاد کروا لیا لیکن باقی حصے پر ڈوگرا حکمران کی درخواست پر بھارتی فوجوں نے قبضہ کر لیا۔ بھارتی فوجیں اس وعدے پہ مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئی تھیں کہ امن قائم ہونے کے بعد وہ واپس چلی جائیں گی لیکن بھارت کی نیت میں فتور آ چکا تھا۔ اس نے اس خوف کے پیش نظر کہ کہیں حریت پسند دوبارہ اس حصے پہ بھی قبضہ نہ کر لیں 13 اگست 1948 کو اقوام متحدہ سے رجوع کر لیا جہاں اس علاقے کو متنازع قرار دے کر کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دے کر فیصلہ کرنے کی قرارداد منظور کی گئی۔

پھر قراردادوں پہ قراردادیں منظور ہوتی رہیں لیکن بھارت نے عمل درآمد نہ کرنے کی ٹھان لی۔ بعد میں بھارت نے ذوالفقار علی بھٹو کے شملہ معاہدہ کی آڑ میں کسی تیسرے ملک کی ثالثی کو بھی ہمیشہ اسے اندرونی معاملہ قرار دے کر ٹھکرانا شروع کر دیا، انیس سو باسٹھ میں پاکستان کو چین بھارت جنگ کے دوران کشمیر پر پیش قدمی کا موقع ملا لیکن ایوب خان نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا اوراس طرح بھارتی ظلم وجبر کشمیریوں کی قسمت میں مستقل لکھ دیا گیا۔ چنار کے پتوں کو ٹینکوں نے مسلنا شروع کر دیا، صنوبر کے درختوں کی خوشبو پہ باردو کی بو حاوی ہو گئی، جنت نظیر وادی کی جھیلوں میں انسانی نعشیں تیرنے لگیں، ان جھرنوں کا شفاف پانی انسانی لہو سے سرخ ہوتا گیا اور برف کے ساتھ وادی نے بھی خوف کی چادراوڑھ لی، مائیں جوان بیٹوں کو پاکستان کے پرچم میں لپیٹ کر سرخرو ہو نے لگیں۔

پیلیٹ گنوں سے اندھی آنکھیں مستقبل کے سنہرے خواب بننے سے پھر بھی باز نہ آئیں حالانکہ فوجی جیپوں کے آگے بندھے جوان، زمین پہ گھسیٹی جانے والی لاشیں دنیا کا ضمیر نہ جھنجھوڑ سکیں کیونکہ شاید دنیا میں مفاد سے بڑا کوئی رشتہ نہیں ہوتا، انسانیت کا بھی نہیں۔ دنیا کی اسی بے حسی کو دیکھ کر 80 کی دہائی میں کشمیری حریت پسندوں نے باقاعدہ صف بندی کی اور بھارت سے آزادی کے لیے ہتھیار اٹھائے اور وہ جدوجہد تاریخ کی بے مثال قربانیوں کے باوجود آج بھی جاری ہے۔

پاکستان اور بھارت چونکہ دو ایٹمی قوتیں ہیں اور کشمیر ایک فلیش پوائنٹ ہے چنانچہ کوئی بھی واقعہ دونوں ملکوں کی افواج کو آمنے سامنے لے آتا ہے، عالمی برادری دونوں کو شانت رہنے کا مشورہ دے کر بری الذمہ ہو جاتی ہے، یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ بھارت کے بہت سے عیب، کمزوریاں اور ظلم اس کی مضبوط جمہوریت کے پردے میں چھپ جاتے ہیں جبکہ پاکستان کا جائز مؤقف، کشمیریوں کی قربانیاں، اس کی کمزور حکومتوں، غیر موثر سفارت کاری اور معاشی بدحالی کی وجہ سے قابلِ توجہ نہیں گردانا جاتا۔ بھارت کی ڈیڈھ ارب کی آبادی کی بڑی مارکیٹ اور کامیاب سفارت کاری اس کے جھوٹ اور دھوکے پہ بھی پردہ ڈال دیتی ہے جیسا مقبوضہ کمشیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے اس کے سرا سر غیرآئینی اقدام کے ضمن میں دیکھنے کو ملا ہے۔

اگست دو ہزار اٹھارہ میں حلف اٹھانے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بھارت کو بارہا مذاکرات کی پیش کش کی لیکن مودی مذاکرات تو درکنار فون اٹھانے کا بھی روادار نہ ہوا جس کی وجہ بھارت میں ہونے والے انتخابات تھے۔ مودی نے بی جے پی کی جیت کے لیے وہاں باقاعدہ جنگی جنون پیدا کیا، فروری کے آخری ہفتے میں رات کی تاریکی میں بھارتی طیارے پاکستانی حدود کے اندر آئے تو پاکستان کی مسلح افواج نے اس کا جواب دن کے اجالے میں بھارتی سرحد کے اندر اس کے دو جہاز مار گرا کر دیا، مودی کسی بھی طرح اس خفت کو مٹانا چاہتا تھا اس لیے میزائل سسٹم کو حرکت دی گئی لیکن پاکستان کی طرف سے ان کے گرفتارکپتان ابھینندن کی غیر مشروط واپسی سے حالات اس کے ناپاک عزائم کے لیے سازگار نہ ہوسکے۔ مودی نے اپنی الیکشن مہم میں کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کرکے اسے بھارت میں ضم کرنے کا وعدہ کیا تھا یہی وجہ ہے کہ الیکشن کے بعد بھی اس نے کسی طرح مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر نہیں کی۔ وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ امریکہ میں صدر ٹرمپ کی کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کا جواب مودی سرکار نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ کر کے دیا۔

جہاں یہ بھارتی جنون بہتر برس سے جاری کشمیریوں کی قربانیوں اور جدوجہد کے لیے بہت بڑا صدمہ ہے وہیں پاکستان کے عوام یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دورہ امریکہ کو ورلڈکپ کی جیت سے تعبیر کرنے والے وزیراعظم عمران خان کیا واقعی مودی کے عزائم سے بے خبر تھے؟ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق تو پاکستان کو کافی عرصے سے انتہا پسند مودی کے مذموم ارادوں کی بھنک پڑ چکی تھی اور اس نے اقوام متحدہ کو بروقت آگاہ کر کے کردار ادا کرنے کی درخواست بھی کر دی تھی۔

بھارت کا حالیہ اقدام اقوام متحدہ کی قراردادوں کی سراسر خلاف ورزی اور انسانیت کے خلاف سازش ہے۔ صدارتی آرڈر کے ذریعے کی گئی محض ایک ترمیم سے کروڑوں لوگوں کو ان کے تشخص، علاقے، حق استصواب سے محروم کرنا جہاں اس مہذب دنیا پہ سوالیہ نشان ہے تو وہیں پاکستان میں کشمیریوں کے ساتھ جذباتی وابستگی نسل در نسل منتقل ہونے والا ایک رومانس ہے۔ پاکستانی عوام صدمے کی کیفیت میں ہیں اور یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ بہتر سالوں کی کشمیر پالیسی چند دنوں میں اتنی بڑی ناکامی سے کیسے دوچار ہوگئی، کیا واقعی کھلاڑی ٹرمپ کے ٹریپ میں آ گیا یا ہندو بنئِے کی عیاری سے انکل سام بھی بے خبر رہا۔

بھارتی ہٹ دھرمی پر دنیا کا ابتدائی ردعمل پاکستان اور کشمیری عوام کے لیے زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس اور منظور کی جانے والی متفقہ قرارداد کے ذریعے دنیا کو واضح پیغام دیا گیا ہے کہ اگر عالمی برادری بالخصوص اقوام متحدہ نے فوری کردار ادا نہ کیا تو اس خطے اور دنیا کے امن کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ پارلیمنٹ سے اتحاد کا پیغام دینے کے دوران اس اہم ترین موقع پر بھی روایتی سیاست کے جو مناظر دیکھنے کو ملے وہ ہرذی شعور کے لیے تکلیف دہ ہیں جن سے اجتناب برتنا ضروری تھا۔

مظلوم کشمیریوں کی نظریں جب پاکستان پہ لگی ہوئی تھیں اور مشترکہ اجلاس میں متفقہ قرارداد کا مسودہ تیار کیا جا رہا تھا تب وزیر اعظم کے معاون خصوصی احتساب کی طرف سے شریف خاندان کے خلاف پریس کانفرنس کی جا رہی تھی جو تاریخ کے اس انتہائی نازک موڑ پہ بھی حکومتی ترجیحات کی عکاسی کر رہی تھی۔ بھارتی ہائی کمشنر کو واپس بھیجنے اور دو طرفہ تجارت معطل کرنے سمیت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کیے گئے فیصلے یقینا حوصلہ افزا اور بالخصوص کشمیریوں کے لیے امید کی کرن ہیں لیکن پاکستان کو یہ نہیں بھولنا چاہئِے کہ بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں بد ترین مظالم ڈھائے جانے اور سات دہائیوں سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزیوں کے باوجود دنیا کا ضمیر نہیں جاگا۔ پاکستان کو عالمی برادری بالخصوص چین اور روس کو اپنے موقف کا ہمنوا بنانے کے لیے تمام چینلز کو تندہی سے بروئے کار لانا چاہئِے اور ٹرمپ کو بھی باور کرانا چاہئِے کہ پاکستان کے پاس افغانستان کی صورت میں ٹرمپ کارڈ اب بھی موجود ہے۔

(مصنف کی خصوصی اجازت سے شائع کیا گیا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).