یوم آزادی یا تجدید عہد؟


14 اگست برصغیر کی تاریخ کا عہد ساز دن۔ جب برصغیر کو دو لخت کرکے ایک حصہ مسلمانوں کو دے دیا گیا اور ایک حصہ ہندوو ں کے حصے میں آیا۔ وہ خطہ زمین جس پر مسلمان ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے اور آباد ہوئے پاکستان کہلایا۔ یعنی پاک سرزمین۔ ایسی پاک سر زمین جسے لاکھوں مسلمانوں کے لہو سے غسل دیا گیا۔ جس پر نہ جانے کتنے خاندان کے خاندان قربان ہوئے۔ جس کے حصول کی خاطر باپ بھائیوں نے سر کٹائے تو ماؤں بہنوں سے ان کی عصمتوں کو چھینا گیا۔ وہ سرزمین جس کے حصول کے لیے مسلمانوں نے سر دھڑ کی بازی لگادی۔

مہاجرین وطن کو جان اور خاندان کا خوف تھا لیکن اس خوف پر جو جذبہ غالب آگیا وہ انگریزوں اور ہندوو ں سے آزادی اور آزاد وطن کے حصول کا تھا۔ اس جذبے نے ہر خوف دل سے نکال دیا اور یاد رہا تو بس یہ کہ

لے کر رہیں گے پاکستان

بٹ کر رہے ہندوستان

پاکستان کا مطلب کیا

لا الہ اللہ

جب منزل کے مقاصد کا تعیین ہوجائے تو بس پھر اس کی طرف پیش قدمی کی جاتی ہے، ہر خدشہ بھول کر، ہر خوف بھلا کر۔ قائد اعظم کی قیادت میں یہ مسلمان اپنے مقصد کے حصول کی جانب رواں دواں تھے جب سکھوں اور ہندووں نے مل کر مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ ماؤں بہنوں کی سر عام عصمت فروشی کی گئی اور ان کے برہنہ جسم درختوں اور گزر گاہوں پر ٹانگ دیے گئے۔ باپ بھائیوں کے سر تن سے جدا کرکے نیزوں پر چڑھادیے، کہیں گھر کے گھر جلا دیے تو کہیں مسافروں سے بھری ٹرینوں کو آگ لگادی۔

الغرض مسلمانوں کو باز رکھنے کی ہر ممکن کوششیں کی گئیں کہ وہ اپنے مطالبات سے دستبردار ہوجائیں لیکن برصغیر کے مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا اور ہندووں کی غلامی کرنا کسی صورت قبول نہ تھا۔ وہ کسی طور اپنے مذہبی احکامات سے منہ موڑنے پر آمادہ نہ تھے۔ قیام پاکستان کے وقت جو قربانیاں مہاجرین وطن نے دیں وہ ناقابل بیان و ناقابل فراموش ہیں۔ قائد اعظمؒ اور محترمہ فاطمہ جناح جب مہاجرین کو اسٹیشن پر خوش آمدید کہنے جاتے تو لاشوں سے بھری ٹرین ان کا خیر مقدم کرتی۔ کوئی ایسا ظلم نہ تھا تو مہاجرین وطن پر نہ ڈھایا گیا ہو۔

ہزاروں پھول سے چہرے جھلس کے خاک ہوئے

بھری بہار میں اس طرح اپنا باغ جلا

ملی نہیں ہے ہمیں ارض پاک تحفے میں

جو لاکھوں دیپ بجھے ہیں تو یہ چراغ جلا

1947 کی ہجرت میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے ہجرت کی اور سر زمین پاکستان پر قدم رکھتے ہی سر بسجود ہوگئے اور اس وطن کی مٹی کو آنکھوں سے لگالیا۔ یہ وطن، یہ مٹی، یہ سائبان انہیں اپنے پیاروں کی جانوں کے عوض ملا تھا کیوں کر انہیں عزیز نہ ہوتا۔ وہ آزادی کی قدر جانتے تھے کیوں کہ انہوں نے اسیری کاٹی تھی، قفس میں پھڑپھڑانے کے مفہوم سے وہ آشنا تھے۔ اپنے مذہبی احکامات پر عمل نہ کرسکتے تھے، سر عام عبادات نہیں کرسکتے تھے۔ مذہبی و سماجی حقوق سے محروم تھے۔

لیکن ہم ہمیں یہ ملک ورثے میں ملا ہے، ہم نے زندان کی مشقتوں کو نہیں جھیلا، ہم اسیری کی اذیتوں سے نہیں گزرے، ہم نے انگریز آقاوں کی غلامی نہیں کی، ہم نے اچھوت بن کر زندگی نہیں گزاری۔ ہمیں تو یہ وطن سونے کی طشتری میں رکھا ہوا ملا ہے۔ اس لیے اس ملک کے نظام کو برا بھلا کہنا ہمارا حق ہے۔ اس ملک کے دفاعی اداروں پر طنز کے نشتر چلانا ہمارا فریضہ ہے۔ ہم اپنے آباؤ اجداد کی ان قربانیوں کو بھلا چکے ہیں، اب ہمارے لیے وہ فقط ایک داستان ہے۔

ہم یہ بھی فراموش کرچکے ہیں کہ دشمن آج بھی اس تاک میں ہے کہ ایک موقع مل جائے اور وہ پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹادے لیکن یہ ملک اس کی بقا کا ضامن اللہ ہے، دشمن جانتا ہے کہ اس ملک کے سپاہی اپنے فرض سے غافل نہیں ہوتے۔ وہ اپنے فرض سے اپنے وطن سے ایمان دار ہیں۔ وہ کئی بار ان مرد مجاہدوں کو آزما چکا ہے اور ہر بار دندان شکن جواب پاکر نامراد لوٹا ہے۔

پھر چاہے عوام ان پر جس طرح چاہے الزام تراشیاں کرے وہ اپنے فرض سے غافل نہیں ہوں گے لیکن ہم بحیثیت پاکستانی کیا کر رہے ہیں؟ اس ملک کی بقا و سلامتی، اس ملک کی ترقی میں ہمارا کیا کردار ہے؟ ہم وہ ہیں جو انگریزوں اور یورپ کے گن گاتے ہیں، ان کی تقلید کو ترقی گمان کرتے ہیں اور ان قربانیو ں کو جو اس وطن کے حصول کے لیے دی گئیں انہیں داستان اور نادانیاں خیال کرتے ہیں۔ ہم وہ ہیں جو عیش و آرام کے ساتھ فرنشڈ گھر میں رہتے ہیں، نرم و گرم بستر پر سوتے ہیں، ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر اپنے محافظوں پر تنقید کرتے ہیں۔ ہم فلاسفر بھی ہیں، صحافی بھی، نقاد بھی ہیں اور تجزیہ نگار بھی، ہم دانشور ہیں، ہم حب الوطنی کے نعرے لگانے والے احساس سے عاری اور عمل سے خالی لوگ ہیں۔ ہم تاریخ کے سنہری ابواب کو فخر سے سنانے والے، ان کے کارناموں کو میڈل کی طرح سینے پر سجانے والے لوگ ہیں جن کے لیے اقبال نے کہا تھا،

تھے تو آباؤہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو

ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

ہم آج 73 برس گزر جانے کے بعد بھی کسی ایسی جادو کی چھڑی کے منتظر ہیں جو آن کی آن میں تمام ملکی معاملات بہتر کردے گی۔ ہم آج بھی اس ملک کے قیام کے مقصد کو، اس کی اساس کو یا تو سمجھ نہیں پائے ہیں یا فراموش کرچکے ہیں۔ ہم آج بھی دو قومی نظریے کی اہمیت سے ناواقف ہیں۔ ہم اگر ملک پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے خواہاں ہیں تو ہمیں مقصد آزادی کو سمجھنا ہوگا، ان لاکھوں قربانیوں کے پیچھے محرکات کو جاننا ہوگا۔

یہ قربانیاں داستان کی صورت اوراق کی نذر کرنے کے لیے نہیں دی گئیں تھیں بلکہ ان کا مقصد مسلم مملکت کا قیام تھا۔ روئے زمین پر ایک ایسے خطے کا حصول جہاں مسلمان مذہبی، سماجی، معاشرتی طور پر آزاد ہوں۔ جہاں ان کا مذہب، ان کی املاک اور عصمتیں محفوظ ہوں۔ کیا ہم اس مقصد آزادی کو 73 برس گزر جانے کے بعد بھی حاصل کر پائے ہیں؟ یقیناً نہیں۔ اس کی وجہ واضح ہے کہ ہم نے اس مقصد پر کبھی غور کیا ہی نہیں۔ رٹی رٹائی داستان کی طرح نسلوں میں منتقل کرتے گئے۔ جب ہی آج کہیں زینب کسی کوڑے کے ڈھیر سے ملتی ہیں تو کہیں فرشتے بے آبرو نظر آتی ہے۔ نہ عصمتیں محفوظ ہیں نہ املاک اور مذہب اس کا تو اللہ ہی نگہبان ہے۔

ہر سال یہ 14 اگست کا دن فقط یوم آزادی نہیں بلکہ یوم تجدید عہد کے طور پر آتا ہے، تجدید عہد خود سے، اپنے وطن سے، اپنے آباءسے کے ہم ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ ہم اس ملک کو اس مقام تک لے جانے میں اپنے حصہ کا کردار ضرور ادا کریں گے جس کا خواب ہمارے قائدین نے دیکھا تھا۔ فرد واحد بلاشبہ کسی خاطر خواہ تبدیلی کا ذریعہ نہیں بن سکتا لیکن بارش کا پہلا قطرہ بن سکتا ہے۔ جس کے بعد برسنے والی بارش زمین کو سیراب کردے جس کے بعد چہار طرف آنکھوں کو خیرہ کرنے والی ہریالی ہو۔

ہمیں اس یوم آزادی خود سے تجدید عہد کرنا ہے کہ بحیثیت پاکستانی جو فرائض ہم پر لاگو ہیں ہمیں ان کی پاسداری کرنی ہے۔ تمام اصول و قوانین پر عمل پیرا ہونا ہے اور بہتر پاکستان کے حصول کے لیے تبدیلی کی شروعات اپنی ذات، اپنے گھر، اپنے علاقے اور اپنے شہر سے کرنی ہے۔ یہ دیا ہمیں اپنے گھر سے روشن کرنا ہے اور پھر چراغ سے چراغ جلے گا اور ہر جانب روشنی دکھائی دے گی۔

ہم تو مٹ جائیں گے اے ارض وطن لیکن

تم کو زندہ رہنا ہے قیامت کی سحر ہونے تک


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).