سندھی کا جنازہ ہے ذرا دُھوم سے نکلے


\"ayub-sheikh\"

جولائی سنہ 1972 میں اردو ادب کے نامور شاعر اور کئی دہائیاں روزانہ ”قطعہ“ لکھنے والے مرحوم رئیس امروہوی نے روزنامہ جنگ اخبار میں ایک نظم لکھی تھی:

اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

اس نظم کے کئی شعر تھے۔ اس میں ہر شعر میں کسی نہ کسی بڑے شاعر کو یاد کیا گیا تھا۔ ہر شعر کا خاتمہ اس بات پر ہوا کہ:

اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

اردو کے موقر روزنامے جنگ نے اس کو کالی جلی شہ سرخیوں سے شائع کرکے اردو کے ساتھ اپنی بی مثال محبت کا ثبوت دیا تھا۔ رئیس مرحوم اور روزنامہ نے اردو سے محبت کے لئےجو کچھ ان سے ہوا، وہ کرکے دکھایا تھا۔ یہ سب کچھ کرنے کی آزادی بھٹو صاحب کے پہلے دور حکومت میں ملی ہوئی تھی۔ اردو سے اتنی محبت اور کسی بھی اخبار کے نصیب میں آج تک نہیں آئی۔ آج 1972ع کو 44 برس ہوچکے ہیں۔

ان برسوں میں ، گاہے بہ گاہے ہونے والے کئی ایک سیمینار، سمپوزیم، کانفرنسز وغیرہ میں شرکت کا موقع ملتا رہا ہے۔ تمام مندوبین، تمام اسکالرز، تمام خطاب کرنے والے اہل وطن مرحوم رئیس کی نظم کو معلوم نہیں کیوں نفرت کا نشان سمجھتے اور اس پر کھل کر بات کرنے کو معیوب سمجھتے رہے ہیں۔ میں ایسا نہیں سمجھتا۔ ہاں البتہ، جب کبھی میں نے مرحوم کو دیکھا تو ہروقت میرے ذہن میں ایک سوال امڈ آتا کہ ان سے پوچھوں۔ پھر دل خود ہی کہے، معلوم نہیں رئیس امروہوی مرحوم میرے معصومانہ اور خالص بچکانہ سوال کو کس طرح محسوس کریں گے !

رئیسؔ امروہوی، جون ایلیا اور سید محمد تقی کے بڑے بھائی تھے۔ 22 ستمبر 1988ء کو سر میں گولی لگنے سے ان کا انتقال ہوا۔ اتفاق سے آج ان کی برسی کا دن ہے۔ کون منائے گا؟ معلوم نہیں۔ البتہ، ان کے نامور بھتیجے معروف فنکار منور سعید ان کو ضرور یاد کریں گے۔

اب میں بتانا چاہتا ہوں کہ میں رئیس مرحوم سے کیا سوال کرتا؟ میں ان سے پوچھتا کہ کہیں ان کی اس نظم میں لفظ ”سندھی“ کی جگہ غلطی سے ”اردو“ تو نہیں چھپ گیا ہے؟ یعنی ان کی نظم ”اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے“ کا عنوان کہیں ”سندھی کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے“ تو نہ تھا اور روزنامہ جنگ اخبار کے کمپوزیٹر نے یہ سوچ کر زبان کے نام تبدیل کیے ہوں کہ اگر اصلی عنوان ہوگا تو پھر جنگ اخبار کے آفاقی مقاصد ہی ختم ہوجائیں گے۔ لہاذا ، مقاصد کو معنی دینے کے لئے یہ تبدیلی کرنی ضروری سمجھی ہوگی۔

میں مرحوم سے تو پوچھ نہیں سکا، لیکن آج پاکستان اور خاص طور پر حکومت سندھ اور اس کے بھی محکمہ تعلیم سے سوال پوچھنا ضروری تصور کرتا ہوں کہ 44 برس بعد سندھی زبان کے ساتھ کیا کچھ ہوچکا ہے، اس کی طرف کبھی کسی نے سوچا ہے؟ آج عملی طور پر حکومت سندھ کے زیرانتظام چلنے والی سندھ اسمبلی میں جن پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے بل اور ACT منظور کیئے جاتے ہیں، ان سے کبھی بازپرس کی ہے، کبھی پوچھا ہے کہ ان کو ”سندھی زبان“ بھی پڑھانی تھی، اس کے بارے میں یہ مجرمانہ حرکت کیوں کر کی جاتی ہے؟ کبھی کسی کو بندش کا پروانہ دیا گیا، کوئی سزا، کوئی انتباہ ؟

کراچی میں آج تک موجود یونیورسٹیوں میں 14 سرکاری اور 26 پرائیویٹ یونیورسٹیاں ہیں۔

29 آگست 1921ع کو انجنیئرنگ کے مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے کالج کے پرنسپل ایک سندھی ہندو مسٹر صاحب سنگھ چندا سنگھ شاہانی ﴿ سی ایس شاہانی﴾ نے بمبئی یونیورسٹی کو تجویز پیش کی کہ سکھر بیراج کی تعمیر کے لئےمقامی انجنیئرز کی تعلیم و تربیت کے لئےایک کالج کھولا جائے۔ اس کی اجازت ملنے پر سندھیوں نے چندہ جمع کرنا شروع کیا، جس میں خصوصی محنت دو خواتین پوری بائی اور بیچار بائی نے کی، جب کہ اس میں زیادہ چندہ دینے والوں میں وشنداس فتح چند برادرز اور پارسی نادرشا ایڈلجی ڈنشا سامنے آئے۔ اسی اثنا میں مسٹر ڈنشا گذر گئے تو ان کی کاوشوں کی وجہ سے کالج کا نام ”این ای ڈی کالج“ رکھا گیا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے یکم مارچ 1977ع کو اس کو یونیورسٹی کا درجہ دیا۔ تقسیم ہند کے بعد کراچی میں پہلی یونیورسٹی ” کراچی یونیورسٹی“ اور آج کی تاریخ تک آخری یونیورسٹی ” حبیب یونیورسٹی“ ہیں۔ ان دونوں یونیورسٹیوں کے علاوہ 1960ع میں قائم اردو کالج جو بعد میں وفاقی اردو یونیورسٹی کے نام سے موجود ہے، ان میں سندھی کورسز پڑھائے جاتے ہیں۔ طلبا ڈگری کورسز میں داخلے یتے ہیں اور ڈگری حاصل کرتے ہیں۔

باقی اللہ اللہ خیر صلا ۔۔۔ والی بات ہے۔

سندھ مدرستہ السلام کراچی میں مسلمانوں کا پہلا اسکول تھا جس میں ”سندھی اسکول“ موجود تھا۔ اس کو پہلے 1943ع میں کالج کا درجہ دیا گیا اور بعد میں 2012ع میں یونیورسٹی بن گئی۔ یہ ایسی عظیم الشان ترقی تھی جس میں کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا، صرف سندھی اسکول اور سندھی زبان ختم کئے گئے۔ میں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ ”ترقی کے نام پر اگر شعوری طور پر کوئی زبان ختم کی جاتی ہے تو ایسی ترقی ہرگز قبول نہیں ہے“ تو جناب حسن علی آفندی نے جس اسکول کی بنیاد ڈالی تھی، وہ اسکول اب کتب بینوں کیلئےموجود ہے۔ حکومت خطیر رقوم دیتی ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح جس مدرسے سے پڑھے تھے وہ آباد رہے، لیکن اس میں سندھی نہیں ہے۔ کیوں؟ کہ کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ حتی کہ زیبسٹ اور لیاری یونیورسٹی سے بھی کوئی نہیں پوچھتا !

سندھ کے دارالحکومت کراچی میں سندھی پڑھنے اور اس میں مہارت حاصل کرنے کی اس لئےبھی ضرورت ہے کہ مختلف آبادیوں کو یہ زبان قریب تر لائے گی اور ”سندھو تہذیب“ Indus Civilization اور اس کی اصل تاریخ سمجھنے میں مدد دے گی، معاونت کرے گی۔

کراچی شہر میں تین کے سوا باقی تمام یونیورسٹیاں اس بات پر متفق ہیں کہ سندھی زبان کو ”نو لفٹ“ کا درجہ دیا جائے۔ کراچی میں موجود تمام سرکاری و غیرسرکاری کالجز اور اسکولز کیا ”سٹی “ City کیا ”بیکن “ Beacon کیا ”بحریہ “ Bahriaکیا ”ایجوکیٹرز “ Educators سب کے سب اس بات پر متفق ہیں کہ سندھی زبان کو ہر سطح پر ختم کیا جائے۔ وفاقی حکومت جو آئین کی محافظ ہے وہ بھی اور سندھ حکومت جن کو سندھی زبان کی تدریسی اور سماجی ترقی کے لئےکام کرنا تھا وہ بھی ان اداروں سے متفق ہوگئے ہیں۔ عدلیہ بھی خاموش ہے، فریادی بھی۔

آج پنجاب یونیورسٹی اور لاہور یونیورسٹی آف مینیجمینٹ سائنسز LUMS میں سندھی زبان سیکھنے کے ڈپارٹمنٹ موجود ہیں، لیکن سندھ اور ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں صورتحال مایوس کن ہوتی جارہی ہے۔ حتی کہ ”قومی“ کہلانے والی اور زبانیں سیکھانے والی ”نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز “ National University of Modern Languages کے کراچی کیمپس میں ”بنگالی“ تو پڑھائی جارہی ہے، لیکن سندھی قدیم اور جدید دونوں سے خارج۔

کاش ! مرحوم رئیس امروہوی آج ہوتے ، ان سے کہتا کہ حضور آپ ایک نظم اور بھی لکھیں:

سندھی کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
کراچی تا خیبر، لہور تا کوئٹہ چار کاندھوں پہ نکلے
سندھی کا جنازہ ہے ، ذرا دھوم سے نکلے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments