پانی کی قلت: بنیادی مسئلہ جس پر ہمیں سوچنے کی فرصت نہیں


میں نئی نئی ناروے آئی تھی اور میری ہمسائی ”آنے“ جو بعد میں میری بہترین دوست بھی بنی اور آج تک ہے، ایک پارٹی کی ممبر تھی اور بہت فعال تھی۔ وہ پارٹی تھی ”گرین پارٹی“ جس کی میں بھی بعد میں ممبر بنی۔ اس پارٹی کا فوکس ماحول پر ہے اور اس کے لئے سیاسی طور پر بھی کوشش کی جاتی ہے۔ حکومت پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ ماحول کو خراب نہ ہونے دیں۔ اس نے ایک دن کہا ”پچھلے زمانوں میں جنگیں زمینوں، خزانوں اور ذاتی عناد پر ہوتی تھیں۔ (یعنی وہی زر، زمین، زن والے کے جھگڑے) آج کے دور میں یہ جنگیں تیل اور دوسری معدنیات پر ہوتی ہیں۔ لیکن آنے والے زمانے میں جنگیں پانی پر ہوں گی۔“ اس وقت سننے میں یہ بات بہت دور از قیاس لگتی تھی۔ پانی پر جنگیں کیسے ہو سکتی ہیں بھلا؟

ہماری زمین کا تو ستر فیصد حصہ پانی ہے۔ پانی تو ہے لیکن یہ کھارا نمکین پانی ہے۔ کمی ہے تازہ میٹھے پانی کی۔ وہ پانی جو ہم پیتے ہیں، جس میں کھانا پکاتے ہیں، نہاتے دھوتے ہیں اور اپنی فصلوں کو سیراب کرتے ہیں۔ اور وہ ہے صرف تین فیصد۔ اس میں بھی کچھ برف اور گلیشیرز کی شکل میں ہے جسے عام استعمال میں نہیں لایا جاسکتا۔ سنا تھا سائنس دان کوششیں کر رہے تھے کہ سمندر کے پانی کو میٹھا بنا سکیں۔ لیکن یہ ممکن نہ ہو سکا۔ اس پہ بہت محنت اور لاگت درکار ہے۔

پانی زندگی کے لئے لازم و ملزوم ہے۔ جہاں پانی ہے وہاں زندگی ہے۔ اور جب پانی نہ ہوگا تو زندگی بھی نہ ہوگی۔ ہر جاندار انسان، جانور، کیڑے، گھاس، پودے سب کا دارومدار پانی پر ہے۔ پانی کم ہو رہا ہے زندگی داؤ پر لگی ہے اور ہم سو رہے ہیں۔ 2025 تک پانی کی یہ کمی جان لیوا ہو جائے گی۔ جب دنیا کی دو تہائی آبادی پانی سے محروم ہو گی۔ پانی کی طلب بڑھتی جا رہی ہے اور رسد گھٹتی جا رہی ہے۔ کچھ ملکوں میں تو ابھی سے اس کمی کے شدید اثرات دکھائی دینے لگے ہیں۔

سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی افریقہ کا شہر کیپ ٹاون پانی کی کمی کا پہلا بڑا شکار ہے۔ وہ لوگ اب نہانے اور ٹوایئلٹ کے استعمال شدہ پانی کو ریسائیکل کر رہے ہیں۔ شہریوں کو کہہ دیا گیا ہے کہ ان کا شاور نوے سکینڈ سے زیادہ کا نہ ہو۔ وہ بھی مہینے میں صرف دو بار۔ وہاں گندے الجھے بال ان کی لاپرواہی اور کاہلی کا نہیں بلکہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ پانی کی قلت کا شکار بھی ہیں اور اس مسلئہ کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ افریقہ کے کئی دوسرے ممالک پانی کی کمی سے قحط اور خشک سالی کا شکار ہیں۔ عورتوں کو ہر صبح تقریباْ پانچ، چھے کلو میٹر دور جا کر پانی لانا ہوتا ہے۔

یہ پانی جوہڑوں اور تالابوں سے لایا جاتا ہے۔ یہ پانی نہ تو تازہ ہوتا ہے اور نہ صاف۔ وہ عورت یہ بھی جانتی ہے کہ یہ پانی ایک دن اس کی اور اس کے کنبے کی جان بھی لے سکتا ہے۔ یہ گندا پانی زندگی بخش نہیں بلکہ جان لیوا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 2 ارب سے زائد افراد پینے کے لیے صاف پانی سے محروم ہیں۔

عرب امارات جو پانی کی کمی کے شکار ممالک میں دسویں نمبر پر ہے انٹارکٹیک سمندر میں موجود آئس برگ کو گھسیٹ کر اپنے ملک لا رہے ہیں تاکہ پانی کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔ اب وہاں پہنچتے پہنچتے یہ برف کتنی باقی رہے گی؟ یہ ابھی نہیں کہا جاسکتا لیکن اس کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور پہنچ جائے گا۔ خیر وہ امیر لوگ ہیں یہ کر سکتے ہیں۔

اب آتے ہیں وطن عزیز کی طرف۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پانی کی قلت کے شکار ملکوں میں تیسرے نمبر پر ہے۔ قحط سالی کا بھوت اب فصلوں میں ناچے گا۔ بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی جو پہلے سے ہی پیاسی ہے اب بوند بوند کو ترسے گی۔ جو پانی لوگوں کو مل بھی رہا ہے وہ گندا ہے۔ اس میں فضلہ کی آمیزیش ہے۔ ہر طرح کی بیماریاں اس گندے پانی کی وجہ سے لوگوں کو لگ رہی ہیں جس میں ملیریا اور ہپٹِایئٹس آگے آگے ہیں۔ صوبہ سندھ کا اسی فیصد پانی پینے کے قابل نہیں ہے۔ کچھ ایسا ہی حال پنجاب کا بھی ہے۔

ماہرین لکھتے رہے۔ بڑے بڑے محقق شور مچاتے رہے وارننگز دیتے رہے۔ ٹی وی پروگرام میں کئی بار بحث میں یہ نکتہ اٹھایا گیا۔ کہ خدارا کچھ کر لو۔ لیکن جوں کو نہ رینگنا تھا نہ رینگی۔

کچھ ملکوں کے پاس ابھی بھی پانی کی بہتات ہے۔ یورپ کے ممالک میں برفباری اور بارشیں دریاؤں کو بھر دیتی ہیں۔ اور ان دریاؤں پر بند باندھے گئے ہیں۔ اسی پانی سے بجلی بھی بنتی ہے۔ میں ناروے کی مثال دیتی ہوں کیوں کہ میں یہاں رہتی ہوں۔ یہاں پانی بھی فراواں ہے اور بجلی بھی۔ بجلی تو ایکسپورٹ بھی کی جاتی ہے۔ پانی صاف اور تازہ ہے۔ آپ سیدھا نلکے سے پی سکتے ہیں۔ اب سنا ہے کہ دنیا میں پانی کی کمی کو دور کرنے کے لئے اس کی تقسیم ہو گی۔ یہ کیسے ہوگا؟ اور کیا پانی والے ممالک پیاسے ملکوں کو اپنی اس قدرتی دولت میں شریک کر لیں گے؟

گلوبل وارمنگ، بارشوں کا نا ہونا، آبادی کا بے تحاشا بڑھنا خطرناک ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم سالوں پہلے ہی اس مسلئہ پر غور کرتے۔ لیکن وہ ہم ہی کیا جو غور کر لیں۔ پانی کی اس قلت کا بہترین حل ڈیم بنانا تھا۔ کالا باغ ڈیم کے منصوبے کے بارے میں یاد نہیں کب سے سن رہے ہیں؟ جی ہاں بچپن سے سن رہے ہیں۔ یہ بن جاتا تو پانی بھی ہوتا اور بجلی بھی۔ لیکن ہمارے آپس کے جھگڑے کب کچھ سنورنے دیتے ہیں۔ کبھی علاقائیت سے نکل کر ملک کا سوچا؟

”مرسوں مرسوں ڈیم نہ ڈیسوں“۔ سندھ کو اعتراض کہ اس ڈیم سے پنجابی فائدہ اٹھا جائیں گے اور سندھ محروم رہے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ میں پانی بارشوں سے آئے گا۔ اب قدرت کی یہ نعمت بھی ساتھ نہیں دیتی۔ بارشیں کم کم ہو رہی ہیں اور دریا خشک ہو رہے ہیں۔ ڈیم کا یہ منصوبہ قومی سے زیادہ سیاسی ہو گیا۔ اور اس کو ایشو بنا کر ووٹ لئے گئے۔ کے پی کے والوں کے اپنے خدشات ہیں۔ انہیں بھی یقین ہے کہ اس ڈیم کا فائدہ صرف اور صرف پنجاب کو ہوگا۔

بلوچستان تو پہلے ہی خشک ہے وہ اور بھی ڈر گئے ہیں کہ یہ ڈیم ضرور ملک دشمن عناصر کی سازش ہے۔ بلوچستان کے بعض علاقوں میں تو بارش اور برفباری کی وجہ سے کسی حد تک خشک سالی کا خاتمہ ہوا ہے لیکن گوادر اور اس سے متصل مکران ڈویژن کے بعض علاقے اب بھی خشک سالی سے دوچار ہیں۔ گوادر میں سی پیک کا منصوبہ تو شروع کر دیا گیا لیکن صاف پانی کا مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوگیا ہے۔ ہم عجیب لوگ ہیں سیلاب برداشت کر لیں گے، بجلی کی بے ہنگم لوڈ شیڈینگ جھیل لیں گے۔ گندا پانی پی کر مرتے رہیں گے لیکن ڈیم بنا کر بارشوں کا پانی محفوظ کرنا نہیں چاہتے۔ ملکی دریاؤں میں آنے والے پانی میں سے 28 ملین ہیکٹر فٹ پانی ضائع ہو کرسمندر میں چلا جاتا ہے۔

پاکستان آج تک اپنی واٹر پالیسی کا اعلان نہیں کر سکا۔ پہلی واٹر پالیسی کا مسودہ 2003 میں تیار کیا گیا جو تاحال مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری کا منتظر ہے، ہمیں یہی نہیں پتہ کہ ہمیں کرنا کیا ہے۔

خدا کا شکر ادا کیجئے کہ ہمارے پاس تربیلا اور منگلا ہے۔ ورنہ کل کے مرتے آج مر گئے ہوتے۔ دعا دیجئے فوجی جرنیل ایوب خان کو جو یہ کام کر گئے۔ چلئے آپ کالا باغ نہ بنایئے۔ کوئی سفید، نیلے، پیلے، چھوٹے موٹے کوئی تو بند بنا لیں۔ پانی کو ضاِئع ہونے سے بچا لیں۔

ہم پانی کے لئے کافی حد تک انڈیا کے محتاج ہیں۔ بھارت جب چاہے ہمارا پانی بند کر دے۔ ہماری فصلوں کو خشک کر دے اور جب ان کے اپنے دریاوں میں پانی بڑھ جائے تو بند کے دروازے کھول کر پانی کا رخ ہماری جانب کر دے۔ ہمیں سیلاب میں ڈبو دے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم اس مسئلے پر بات کرتے۔ کوئی پائدار حل مل بیٹھ کر نکالتے۔ لیکن وہاں تو کچھ اور ہی قسم کے تعلقات بنتے رہے۔ ساریاں بھجوائی گئیں، اسٹیل کنگ سے تجارت کی باتیں ہوئیں، شادیوں پہ بلایا گیا، مری میں مہمانداری کی گئی ان تمام جھمیلوں میں پانی کی بات کہاں ہو سکتی ہے بھلا۔ اور اب کشمیر کی تازہ صورت حال کے بعد ہمارا پانی اور ہم خود بھی شدید خطرے میں ہیں۔

اسرائیل کے بارے میں ہم کوئی بھی اچھی بات نہیں سن سکتے۔ کہنے والے بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں کوئی توہین مذہب کا الزام نہ لگ جائے۔ اسرائیل صحرا کے بیچوں بیچ واقع ہے لیکن انہوں نے صحیح ٹیکنالوجی، اقتصادی وسائل، سیاسی عزم اور قومی یکجہتی کے بل بوتے پر اپنی زمین کے تقریبا 40 فیصد حصے کو فضلے کے پانی سے سیراب کرنے کی صلاحیت پیدا کر لی اور صحرا کو باغبان کر دیا۔ ہم ان سے یہ ٹیکنیک سیکھ سکتے تھے۔

ہمارے ملک کا اولین مسلئہ پانی ہے۔ پانی ہے۔ پانی ہے۔ اور اسمبلی میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے علاوہ کوئی بات نہیں ہوتی۔ ایک دوسرے پر گالیوں اور الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ نہ ملک کی فکر ہے نہ عوام کی۔ یقین نہیں آتا کہ یہ ہمارے منتخب ارکان ہیں۔

خدارا ہوش میں آجایں۔ کچھ عقل کر لیں۔ ایسا نہ ہو کہ پھر چلوبھر پانی بھی نصیب نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).