کشمیر: ”ہم خیریت سے ہیں، آپ عید پہ گھر مت آنا“


17 جولائی 2018
مرزا وحید کا ناول ہے۔
The book of gold leaves

حقییقت کے سفاک پانیوں میں اس وقت آسودگی کے بس وہی چند ٹاپو بچے ہیں جہاں کہانیاں کہنے والے آباد ہیں۔ مرزا صاحب کا یہ ناول کشمیر کی آزادی کے پس منظر میں محبت کی ایک کہانی ہے۔ مگر چونکہ پس منظر آزادی کا ہے اور کہانی بعد میں آتی ہے سو بات، آزادی سے شروع کرنا مناسب ہے۔

آزادی۔ وہ خوبصورت خیال ہے، جسے سیاست، ریاست کے غیر مرئی وجود سے بیاہ دیتی ہے اور دعا دیتی ہے۔

”خدا یہ جوڑی سلامت رکھے قیامت تک“

پھر تاریخ بنی جاتی ہے، ترانے لکھے جاتے ہیں اور بیانیے تشکیل دیے جاتے ہیں۔ جھنڈے، سرحد، روپے اور ڈاک ٹکٹ جیسی علامتیں تخلیق کی جاتی ہیں اور ان کا تقدس متعارف کروایا جاتا ہے۔ اور یہ سب چند نظریاتی لوگ کرتے ہیں۔ وہی نظریاتی لوگ، جو روزمرہ معمولات میں تو غیر جانبدار ہوتے ہیں، مگر اپنے نظریے سے ان کی وابستگی، ہر رشتے سے ماورا ہوا کرتی ہے۔ اپنے آدرش کی محبت میں مبتلا یہ لوگ، آہستہ آہستہ تمام انسانی جذبوں سے بے نیازہو جاتے ہیں۔ نتائج کے آزار سے آزاد یہ رہنما، وقت کے استثناء سے فیض اٹھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نعرہ لگانے والے کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ان کے چند الفاظ کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے، کئی نسلوں کی کمر خمیدہ ہو جائے گی۔ ان کی ضد، کئی بستیاں چاٹ جائے گی اور ان کا بیانیہ، کئی قبرستان آباد کرے گا۔

کشمیر پہ لکھی گئی محبت اور جنگ کی یہ داستان، ان لوگوں کی کہانی ہے جنہیں جنگ سے محبت تھی، اور ان کی بھی، جنہیں محبت کرنے کے لئے جنگ کرنا پڑی اور ان کی بھی جنہیں محبت، جنگ کے درمیان ملی۔

کہانی فیض کے گرد گھومتی ہے جو عین اس وقت روحی کی محبت میں گرفتار ہوا جب وادی میں پولیس نے ایک بار پھر نوجوانوں کو گرفتار کرنا شروع کیا۔ فیض کے سامنے دو راستے ہیں، یا تو گرفتار ہو کر مارا جائے یا مر کر گرفتار ہو، اور یہیں سے مطفر آباد کا سراغ ملتا ہے۔ ایک طرف فیض، جہاد کے معانی سے آشکار ہوتا ہے دوسری طرف روحی پہ ہجر اور فراق کے استعارے کھلتے ہیں۔ مگر کہانی کوئی بھی ہو، کشمیر کا ذکر، ظلم کے بغیر نامکمل ہے سو میڈم شانتا کول، سرینگر کے جس سکول کی پرنسپل ہیں وہاں، میجر سمیت کمار کی یونٹ نے راتوں رات ڈیرے ڈال لئے ہیں۔ معصوم لڑکیوں کے سالانہ امتحان، روزانہ کے امن امان کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ اسی سکول کے ایک کمرے میں گرفتار نوجوانوں پہ تشدد کر کے اس نظریے کی حفاظت کی جاتی ہے، جو کسی سیاستدان نے انہی نوجوانوں کے لئے ایجاد کیا تھا۔

ہر روز کرفیو لگتا ہے، ہر روزگولیاں چلتی ہیں، ہر روز بم پھٹتے ہیں اور ہر روز لوگ مرتے ہیں۔

شانتا کول اس سب بربادی کے باوجود کشمیر چھوڑنے کو تیار نہیں۔ اس کی وابستگی، ان خاموش پہاڑیوں پہ اترتی شام کے سبب ہے، اپنے پتا جی کے کسی گولی سے مرنے کے کارن ہے یا اپنی طالبات تک تعلیم کی روشنی پھیلانے کے وعدے سے مشروط ہے، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔

میجرسمیت کمار، جو ایک طرف فرض کے جینو سے بندھا ہے اور دوسری طرف، انسان دوستی کے سان پہ چڑھا ہے، سمجھتا ہے کہ حفاظت لوگوں کی کرنی چاہیے، مگر نئی دلی میں اس کے افسر، جو اس سے زیادہ جانتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ زمین ضروری ہے۔ ہر سینئیر افسر کی طرح، ان کا بھی خیال ہے کہ بڑی آزادی کی قیمت، چھوٹی آزادی ہوا کرتی ہے۔

پھر لوگ آہستہ آہستہ اس جنگ کو اپنے گھروں تک آتا محسوس کرتے ہیں۔ ایک کنڈ سے دوسرے کول تک اور ایک گلی سے دوسرے محلے تک شہر کا ہر کونا، کانگڑی میں پڑے کوئلوں کی مانند اپنی اپنی باری پہ جل کر سفید ہوتاچلا جاتا ہے۔ سکول کی لڑکیوں کی آپسی بات چیت میں ایک اورطرح کا خوف جھانکتا ہے اور میجر سچیت کے سامنے، لیبارٹری کی ڈائی سیکشن والے میز پہ کھلے نقشوں سے ایک اور طرح کا وہم سر اٹھاتا ہے۔

تاریخ اور سیاست کے اس جبر کی کہانی کا انجام بالکل ویسا ہی ہے، جیسا سرسبز چراگاہوں والی خوبصورت زمینوں کی تمام کہانیوں کا ہوا کرتا ہے۔

10 اگست 2019
پچھلے سال، مرزا وحید کا یہ ناول پڑھا تھا اور یہ نوٹس لکھے تھے۔ آج چھ روز ہوتے ہیں اور ساری وادی بند ہے۔

پاک سر زمین چودہ اگست اور عید کی خوشیوں میں مصروف ہونے سے پہلے، کشمیر کا پیاز کچھ یوں کاٹ رہی ہے کہ ایک پارٹی دوسری پارٹی کو کشمیر فروشی کا کہہ رہی ہے اور دوسری پارٹی، پہلی پارٹی کو مودی کا یار ٹھہرا رہی ہے۔ اس سارے شور میں کوئی کسی سے یہ نہیں پوچھ رہا کہ مریدکے سے محراب پور اور لنڈی کوتل سے لورا لائی تک جو نوجوان خود چل کر کشمیر گئے اور بے جان جسموں کی صورت واپس لائے گئے، ان کا گوشوارہ کس کے نام کاٹا جائے۔ یہ کون سا رشتہ ہے جو جانوں کے نزرانے دینے سے شروع ہوا اور سالانہ چھٹی سے ہوتے ہوئے خاموشی تک محدود ہو گیا۔ نو بجے والے خبر نامہ کی آخری خبر سے کھسکتے کھسکتے سیاسی محاذ آرائی کی اولین مورال ہائی گراؤنڈ تک، کبھی کسی نے کسی کو یہ بتانے کی توفیق نہیں کی کہ کیا ہو رہا ہے، کیوں ہو رہا ہے۔

غیر جانبداری کے کسی فرضی مقام پہ کھڑے ہو کر دیکھیں تو سرحد کے دوسری طرف، لوگوں کا ایک گروہ خوشیاں منا رہا ہے، تاریخی غلطی سدھارنے کی سرشاری نے لہجوں میں فتح کی لکنت پیدا کر دی ہے جو قریب قریب ہر آواز میں سنائی دے رہی ہے۔ دوسرا گروہ خاموش ہے۔

پہلا گروہ، کشمیر کی طالبات کی تصاویر میں سے دلہنیں تلاش کر رہا ہے۔ دوسرا گروہ خاموش ہے۔
پہلا گروہ، کشمیر کی منقولہ جائیداد اور غیر منقولہ اراضی سے اقتصادی آسودگی کی عمارت تعمیر کر رہا ہے۔ دوسرا گروہ خاموش ہے۔

پہلا گروہ، اپنے عقیدے کی سرفرازی اور اس سے وابستہ دینی اور دنیاوی ترقی کے خواب سوشل میڈیا کی بار آور زمین پہ کاشت کر رہا ہے۔ دوسرا گروہ خاموش ہے۔
پہلا گروہ، اپنے وطن کے تصور یا اپنے تصوراتی وطن کی بحالی کی راہ میں اس قدم کو ایک سنگ میل قرار دیتا ہے۔ دوسرا گروہ خاموش ہے۔

مگر بد قسمتی سے غیر جانبداری کا یہ مقام، فرضی ہے۔ دھونس، دھمکی، سوشل میڈیا ٹرولنگ اور پرائیویٹ نمبروں سے آنے والی تمام تحکمانہ آوازوں کے سوتے، سرحدون سے بے نیاز، ہر پہلے گروہ سے پھوٹتے ہیں اور ہر دوسرے گروہ کو چاٹ جاتے ہیں۔

قراقرم کی بلندیوں اور ٹھٹھہ کی اترائیوں کے درمیان، آدرش کی زمین بہت دلدلی ہے۔ یہ صاحبان اختیار کو آہستہ آہستہ اپنی تہہ میں اتارتی ہے اور خودساختہ عظمت کے خبط میں مبتلا یہ قد آور لوگ ”میں نے کر دیا“، ”میں نے کہا تھا“ اور ”میں سب سمجھتا تھا“ کی مالا جپتے جپتے بالاخر تاریخ کے گدلے پانیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ مگر ان کے اختیار اور زوال کے درمیان، ان کے فیصلے، لاتعداد انسانوں کی زندگیوں پہ اثر انداز ہوتے ہیں۔

چہار اطراف کے ذمہ داروں نے اپنے اپنے مفادات کے بہی کھاتے ملانے کے بعد جو فیصلہ کرنا تھا سو کر لیا۔ اب وقائع نگار، کالم نویس، سوشل میڈیائی دانشور اور آٹھ سے دس کے ٹی وی والے جادوگر اس فیصلے پہ توجیہات کا چادریں چڑھائیں گے۔ ہندوستان میں ”کشمیر میں وکاس“ پہ بات چیت ہو گی اور ہماری طرف، ”تو کیا جنگ کر لیں“ کا سوال دہرایا جائے گا۔ مگر ان ڈیڑھ کروڑ انسانوں سے کوئی نہیں پوچھے گا کہ اس بے وقعتی کا احساس کتنا جان لیوا ہے۔ وہ تمام بیٹیاں جو اب ہندوستانی پنجاب کی خیر سگالی اوڑھ کر اپنے گھر کشمیر پہنچی ہیں ان سے کوئی دریافت نہیں کرے گا کہ بے توقیری کا وہ لمحہ، جس میں ان کی شناخت ایک مفتوحہ قوم کی عورت تک محدود ہوئی، کتنا طویل تھا۔ اس بیٹے کا اضطراب کون تحریر کرے گا جسے اپنی روتی ہوئی ماں، کسی خبر میں نطر آئی۔ اس برداشت کا بوجھ کون اٹھائے گا جو سرینگر میں سرکاری ٹیلیفونوں کی قطاروں میں لگے افراد سے یہ دو جملے کہلوا رہی ہے۔

”ہم خیریت سے ہیں۔ آپ عید پہ گھر مت آنا“
میجر سمیت کمار کے سینئیر با اختیار ہیں سو وہ زمین لے چکے اور فیصلہ دے چکے۔ رہے فیض اور روحی، تو وہ محبت کی باقی علامتوں کی طرح، پہاڑوں کے درمیاں یوں راکھ کا رزق ہو رہے ہیں۔ جیسے کانگڑی میں کوئلے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).